Daily Roshni News

نئے قوانین۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

نئے قوانین

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ نئے قوانین۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم)گزشتہ چند دنوں سے پاکستان کی عدالتیں بہت ایکٹیو ہو گئی ہیں۔اور ایسے ایسے قوانین بنا رہی ہیں جو شاید پاکستان پینل کوڈ کا توحصہ نہ رہے ہوں لیکن 1400 سال سے ہماری شریعت میں ضرور موجود ہیں مگر ہم انہیں درخوراعتناء نہیں سمجھتے۔حالیہ مثالیں ہیں بہنوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دینے یا اس میں تاخیر پر بھائیوں کو جرمانہ، کم عمری کی شادی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی۔ اگرچہ عدالت نے کوشش کی ہے کہ اس طرح سے خواتین کو کچھ سکون دے لیکن پدرسری معاشرے میں ان سے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔کہ کہیں یہ قوانین غلط استعمال کا ذریعہ بن کر نئے مسائل جنم نہ دے دیں۔ خصوصاً ذہنی تشدد یا گھریلو جھگڑوں میں خواتین کو شکایت کا حق دینے والے قوانین پر یہ اعتراض بھی سامنے آ رہا ہے کہ کوئی بھی عورت غصّے یا وقتی اختلاف کی بنیاد پر جھوٹا مقدمہ کر کے اپنے شوہر یا سسرال کو مشکلات میں ڈال سکتی ہے۔

    دنیا خصوصا پاکستان میں کم عمری کی شادی ایک بڑا مسئلہ سمجھی جاتی ہے۔کم از کم عمر نکاح 18سال ہے اور اگر کوئی بھی شخص خواہ والد، وکیل، نکاح خواں ہی کیوں نہ ہو 18سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کروانا چاہے گا تو اسے قید اور جرمانہ کی سزا بھگتنی ہو گی۔حالانکہ ہمارا مذہب ہمیں حکم دیتا ہے کہ بالغ ہوتے ساتھ بچوں کی شادی کر دی جائے  اس سے کئی قباحتیں بھی جنم نہیں لیتیں۔دوسرے بلوچستان اور سندھ سمیت دیگر صوبوں کے پسماندہ علاقوں میں شناختی کارڈ، برتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کا رواج بھی کم ہے یوں عمر کا تعین بھی مشکل ہوتا ہے۔ان علاقوں میں اس قانون پر عمل درآمد نئے جھگڑوں اور تنازعات کو جنم دے سکتا ہے۔لہٰذا اس قانون پر عملدرآمد مشکل ہی نظر آ رہا ہے۔ لیکن یہ قانون ان بچیوں کے لیے ایک ڈھال ضرور ثابت ہو سکتا ہے جن کو زبردستی یا سماجی دباؤ کے تحت شادی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بشرطیکہ نفاذ کے ادارے، پولیس، نکاح خواں اور مقامی کمیونٹیز اس قانون کو درست طور پر نافذ کریں۔ ورنہ خاندانوں کے اندر غیر ضروری تنازعے پیدا ہوں گے۔

پاکستان میں خواتین کو وراثت سے محروم کرنابہت عام  ہے۔ 2011 میں “Anti-Women Practices Act” کے ذریعے PPC 498-A شامل کیا گیا جس کے مطابق کسی عورت کو دھوکا دے کر یا دباؤ ڈال کر اس کی جائیداد یا وراثت سے محروم کرنا جرم ہے۔ اور ایسے فرد کو پانچ سے دس سال قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ یہ قانون اپنی نوعیت کا سخت قانون ہے اور خواتین کے معاشی حقوق کو تحفظ دینے میں مدد کرتا ہے۔لیکن اس قانون کے باوجود پاکستانی معاشرے میں خواتین کو وراثت دینے کا رواج نہیں ۔ بیشتر خواتین اپنے بھائیوں کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ کیونکہ خاندان اور معاشرے کا دباؤ انہیں ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ اسی لیے عدالتوں نے حالیہ فیصلوں میں ایسے خاندانوں پر جرمانے بھی لگائے جنہوں نے جان بوجھ کر بہنوں کے حصے کو روکا۔ کچھ کیسز میں جرمانہ 5 لاکھ روپے تک بھی عائد کیا گیا۔

اگرچہ شریعت اسلامی مردوں کو پابند کرتی ہے کہ خواتین کو وراظت میں حصہ دیں مگر اس معاملے میں مذہبی طبقہ بھی ناکام ہی ہے۔بہت سی خواتین نہ تو قانونی مدد لے پاتی ہیں اور نہ ہی عدالتوں کے چکر کاٹنے کی ہمت رکھتی ہیں۔ یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کو صرف قانون فراہم نہ کیا جائے، بلکہ انہیں ایسے اداروں، لیگل ایڈ سینٹرز، کمیونٹی سپورٹ اور معاشرتی سہولیات کی بھی ضرورت ہے جو انہیں اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے میں مدد دیں۔

    تیسرا قانون ذرا اختلافی حیثیت رکھتا ہے۔بظاہر تو یہ خواتین کے حق میں ہے کہ اگر سسرال یا شوہر انہیں ذہنی یا جسمانی تشدد کا نشانہ بنائیں تو وہ ان کے خلاف مقدمہ کر سکتی ہیں۔لیکن اس کا ایک خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ ذہنی تشدد ایک غیر جسمانی معاملہ ہے۔ جسے ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ایسی صورت میں یہ خدشہ درست ہے کہ اگر کوئی عورت غصے میں، ناراضگی میں یا وقتی جذبات میں شوہر یا سسرال کے خلاف مقدمہ کرنا چاہے تو وہ ایسا کر سکتی ہے۔ اور پولیس یا عدالت کے لیے فوری طور پر صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔

     یوں مسئلہ قانون نہیں، بلکہ اس کا غلط استعمال ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں گھریلو تشدد کے قوانین کا غلط استعمال ایک حقیقی مسئلہ بن چکا ہے۔ جھوٹے الزامات، انتقامی مقدمات اور غلط فہمیاں اکثر عدالتوں کے لیے چیلنج بنتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے خدشات موجود ہیں کہ اگر قانون میں وضاحت نہ کی گئی یا اس پر نظرثانی نہ کی گئی، تو یہ سسٹم پر بوجھ بھی بن سکتا ہے اور بے قصور مردوں کے لیے نقصان دہ بھی۔

لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خواتین کو شکایت کا حق ہی نہ دیا جائے۔ اصل ضرورت ہے ایسی اصلاحات جو حقیقی مظلوم کو تحفظ دیں اور جھوٹے مقدمات کو روکنے کے لیے سخت سزائیں بھی مقرر کریں۔ اگر قانون میں واضح طریقہ کار، ثبوت کے معیار، صلح کے میکانزم اور فیملی کورٹ کے ضابطے بہتر کیے جائیں تو اس کے غلط استعمال کے امکانات کم کیے جا سکتے ہیں۔

    یہ تمام قوانین خواتین کے لیے صرف اس وقت فائدہ مند ہوں گے جب صرف کاغذات تک نہ رہیں بلکہ معاشرہ، ادارے، عدالتیں، پولیس، خاندان اور کمیونٹیز اس قانون کو سمجھیں اور اس پر مثبت انداز میں عمل کریں۔

جب معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہو، اور خاندانوں کے اندر بات چیت کے بجائے غصہ، دباؤ اور تشدد کو ترجیح دی جائے تو قانون سازی بھی مسئلے کا مکمل حل ثابت نہیں ہوتی۔ اسی لیے ضروری ہے کہ عوامی میں آگاہی عام کی جائے۔ قانونی تعلیم دی جائے۔عدالتیں مقدمات کے فیصلے جلد دیں۔فیملی کونسلنگ کو فروغ دیا جائے۔قانون کے غلط استعمال پر سزائیں مقرر کی جائیں۔مردوں اور عورتوں دونوں کو یہ سکھایا جائے کہ حقوق کےساتھ ساتھ فرائض بھی ادا کریں۔

   قوانین کا بننا ایک مثبت عمل ہے۔ مگر ہر چیز کی طرح ان قوانین کے بھی دو پہلو ہیں: ایک مثبت جو مظلوم عورتوں کی حفاظت کرتا ہے۔ دوسرا منفی جہاں غلط استعمال سے خاندان ٹوٹتے ہیں۔بے قصور لوگ پھنس جاتے اور معاشرتی انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔اس لیے توازن بہت اہم ہے۔ایسا توازن کی جس میں عورتوں کے حقوق محفوظ رہیں۔ مگر کوئی بھی جھوٹ یا انتقام کی بنیاد پر قانون کا غلط استعمال نہ کر پائے۔ معاشرہ اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کے قوانین انصاف پر مبنی نہ ہوں اور جب تک ان قوانین کا نفاذ متوازن اور ذمہ دارانہ نہ ہو۔

Loading