Daily Roshni News

ناول : محبت کی ادھوری کہانی تحریر۔۔۔ اقرا علی

ناول : محبت کی ادھوری کہانی

تحریر: اقرا علی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ ناول : محبت کی ادھوری کہانی۔۔۔ تحریر: اقرا علی)نیلم ایک بڑے اور امیر گھرانے کی بیٹی تھی۔ بڑے بڑے کھیت، حویلیاں، نوکر چاکر… اس کے والد گاؤں کے رئیس کہلاتے تھے۔ نیلم جس راستے سے گزرتی، لوگ نظریں جھکا لیتے۔ وہ اپنی معصومیت اور حسن کی وجہ سے سب کی آنکھوں کا تارا تھی۔

🌹 ***

لیکن قسمت نے ایک انوکھا موڑ لیا جب وہ کالج میں ایک غریب لڑکے، سلیم، سے ملی۔

سلیم محنتی اور پڑھائی میں ذہین تھا۔ شکل و صورت میں بھی پرکشش، مگر اس کے پاس دولت نہیں تھی۔

شروع میں دونوں کی ملاقاتیں محض پڑھائی تک محدود تھیں، لیکن آہستہ آہستہ دلوں میں ایک انجانی کشش پیدا ہوگئی۔

نیلم کے لیے یہ سب نیا تھا— وہ پہلی بار اپنی امارت اور دنیاوی شان سے ہٹ کر کسی کی آنکھوں میں اپنی پرچھائی دیکھ رہی تھی۔

سلیم کے لہجے کی سچائی، باتوں کی شرافت اور دل کی پاکیزگی نے نیلم کو اپنا دیوانہ بنا لیا۔

🌹 ***

پھر وہ دن آیا جب نیلم نے اپنی تقدیر خود لکھنے کا فیصلہ کیا۔

اس نے اپنی سہیلی کو خط لکھوایا:

“میں سلیم کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اگر گھر والے میری شادی کہیں اور کرنا چاہیں گے، تو میں اپنی جان دے دوں گی۔”

آخرکار ایک شام، نیلم نے اپنے ہی گھر سے بغاوت کی۔

وہ سب چھوڑ کر— اپنی دولت، آسائشیں، ماں باپ کی عزت، بھائیوں کی غیرت— صرف سلیم کے ساتھ نکل گئی۔

🌹 ***

شہر میں جا کر انہوں نے نکاح کر لیا۔

شروع کے دن سختی کے تھے، لیکن محبت کی خوشبو نے سب دکھ بھلا دیے۔

ایک کمرے کا چھوٹا سا مکان، لکڑی کا پرانا بستر، پرانے برتن… مگر نیلم کی ہنسی سب کچھ روشن کر دیتی۔

🌹 ***

شادی کے ایک سال بعد زینب پیدا ہوئی۔

نیلم نے جب پہلی بار بیٹی کو گود میں لیا تو حیران رہ گئی۔

وہ اتنی حسین تھی کہ دیکھنے والے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیتے۔

زینب نے اپنی ماں کا حسن پورا پورا پایا تھا۔ دودھ جیسی رنگت، نازک نقوش اور آنکھوں میں عجیب سی کشش۔

نیلم اکثر اسے دیکھ کر کہتی:

“میری گڑیا… تو ایک دن سب کے دلوں کی دھڑکن بنے گی۔”

🌹 ***

لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

نیلم کبھی واپس اپنے گھر نہ جا سکی۔ والدین نے اسے مر چکا مان لیا، اور زینب کے باپ نے غربت کے بوجھ تلے دن رات محنت شروع کر دی۔

زینب چھوٹی سی تھی، مگر اس کی معصوم مسکراہٹ گھر کی اندھیروں میں روشنی بن گئی۔

وہ اپنی ماں کی پرچھائی تھی— ایک زندہ گواہی کہ نیلم نے محبت کے لیے سب کچھ قربان کیا۔

🌹*****

گاؤں میں جس دن جمال خان کی شادی کی خبر پھیلی، ہر طرف سرگوشیاں ہونے لگیں۔

چائے کے ہوٹل پر بیٹھے بوڑھے ہنسی چھپاتے، کھیتوں میں کام کرتے مزدور کنکھیوں سے دیکھتے اور عورتیں گھروں میں چوپال سجاتیں۔

“ارے واہ! دادا عمر میں اور دلہن بیٹی کی عمر میں… یہ کیسی جوڑی ہے؟”

“جمال خان کو اب کون سمجھائے، بڈھاپے میں یہ کیسی ہوس جاگ اٹھی ہے!”

“اب دیکھنا،  گاؤں کے لوگ کس کس طرح باتیں بناتے ہیں!”

🌹 ***

لیکن یہ طعنے صرف باہر نہیں، گھر کے اندر بھی تھے۔

جمال کے بڑے بیٹے کی بیوی نے سب سے پہلے طنز کسا:

“واہ، سسر صاحب نے تو ہمیں بھی شرمندہ کر دیا! اب ہم سر اٹھا کر کہیں جا نہیں سکتے۔”

منجھلی بہو جس کی گود دس سال سے خالی تھی، زہر بھری ہنسی کے ساتھ بولی:

“لگتا ہے ہماری قسمت میں تو کچھ نہیں، لیکن نئی دلہن شاید گھر کو وارث دے دے۔”

چھوٹی بہو چونکہ نئی نویلی تھی، کچھ بولنے سے ڈرتی تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں بھی عجیب سا اضطراب چھپا تھا۔

🌹 ***

بڑے بیٹے کے دونوں بیٹے— سالار اور اسد— بھی گاؤں کے بچوں کی باتیں سن کر تڑپ گئے۔

سالار نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں:

“ہمارے دادا نے ہمیں سر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ اب لوگ ہمیں دیکھ کر ہنسیں گے!”

چھوٹا اسد معصومیت سے بولا:

“بھائی، سب لوگ دادا کو برا کیوں کہہ رہے ہیں؟ شادی کرنا برا کام ہے کیا؟”

سالار نے تلخی سے کہا:

“ہاں! جب اپنی بیٹی جیسی لڑکی سے ہو تو یہ برا ہے، شرم کی بات ہے!”

🌹 ***

گھر کے اندر جیسے آگ سی لگ گئی تھی۔

کہیں بہوئیں باتوں میں زہر گھول رہی تھیں، کہیں بیٹے باپ سے آنکھیں چُرا رہے تھے۔

اور گاؤں کے دروازے پر جب جمال گزرتا، تو لوگ نظریں جھکانے کے بجائے ہنسی دباتے۔

جمال کے کانوں تک یہ سب باتیں پہنچتی تھیں۔ لیکن وہ خاموش رہتا۔

اس کی آنکھوں میں ایک الگ سا یقین تھا— جیسے وہ جانتا ہو کہ وقت سب کو جواب دے گا۔

🌹 ***

زینب اس سب کو دیکھ رہی تھی۔

ایک طرف وہ خود پہلے ہی تنہا، سہمی اور مجبور تھی… دوسری طرف لوگ اس کے وجود کو لے کر تانے دے رہے تھے۔

اس کے معصوم دل پر یہ سب تیر کی طرح لگتے۔ راتوں کو وہ چپکے چپکے روتی اور تکیے میں منہ چھپا لیتی۔

🌹*****

نکاح کے چند دن گزر گئے۔ وہی زینب جو کبھی سہمی سہمی اور خاموش رہتی تھی، اب تھوڑا سا بدلنے لگی تھی۔ جمال خان کے رویے میں جو نرمی اور خیال تھا، وہ زینب کے دل میں آہستہ آہستہ جگہ بنانے لگا۔

🌅 نئی صبح

ایک دن صبح زینب نماز پڑھنے کے بعد برآمدے میں بیٹھی تھی۔ سورج کی نرم روشنی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ ہاتھوں میں دعا کے لیے اٹھے ہوئے آنسوؤں سے بھیگے تھے۔

جمال خان دور سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں کہا:

“اللہ کا شکر ہے، یہ پری اب میری زندگی میں ہے۔”

وہ قریب آیا اور ہنستے ہوئے بولا:

“بیگم، آج ناشتے میں کیا ملے گا؟”

زینب شرما گئی۔ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی:

“جو آپ کہیں گے…”

🍯 خیال رکھنے والا شوہر

دونوں ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگے۔ جمال خان نے پلیٹ میں سے نوالہ توڑ کر زینب کو دیا۔

“یہ کھاؤ، تم ہمیشہ کم کھاتی ہو۔”

زینب نے نظریں جھکا کر نوالہ منہ میں ڈال لیا۔ اس کے دل میں پہلی بار ایک عجیب سا سکون اور تحفظ کا احساس ہوا۔

🏡 گھریلو محبت

گھر میں اب ماحول بھی بدلنے لگا۔ زہرہ اگرچہ اندر ہی اندر جلتی تھی، مگر جمال کے آگے کچھ بول نہ پاتی۔ جمال ہر وقت زینب کا ساتھ دیتا، کبھی اس کے ساتھ کھیتوں کی سیر پر نکل جاتا، کبھی گاؤں کے بازار میں زیور یا کپڑے لے کر آتا۔

ایک دن زینب نے جھجکتے ہوئے کہا:

“آپ اتنی چیزیں کیوں لے آتے ہیں؟ مجھے تو کچھ نہیں چاہیے۔”

جمال نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولا:

“مجھے چاہیے کہ تم خوش رہو۔ اگر تم ہنسو گی تو میری دنیا روشن ہو جائے گی۔”

🌙 رومانوی لمحہ

شام کے وقت دونوں چھت پر بیٹھے تھے۔ ہوا میں ہلکی ٹھنڈک تھی۔ زینب نے چادر اوڑھ رکھی تھی اور چپ چاپ چاند کو دیکھ رہی تھی۔

جمال خان نے کہا:

“زینب، چاند کو دیکھ رہی ہو؟”

وہ بولی:

“جی…”

جمال نے مسکرا کر کہا:

“چاند کو دیکھنے کی کیا ضرورت ہے، جب وہ میرے سامنے بیٹھا ہے؟”

زینب کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔ اس نے نظریں جھکا لیں۔ اس لمحے جمال نے اس کا ہاتھ پکڑ کر مضبوطی سے تھام لیا۔

“وعدہ ہے، زینب… میں ہمیشہ تمہارا خیال رکھوں گا، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔”

زینب نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ شاید تقدیر نے جس چیز کو بوجھ بنا کر اس پر ڈالا تھا، اب وہی اس کی زندگی کا سہارا بن گئی ہے۔

اب نکاح کو کئی دن ہو چکے تھے۔ زینب کا سہما ہوا دل آہستہ آہستہ نرم ہونے لگا تھا۔ جمال خان کا رویہ ایسا تھا کہ وہ ہر وقت زینب کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا، جیسے وہ کوئی ننھی سی بچی ہو جسے ذرا سی بات پر روٹھنے یا منانے کی آزادی ہو۔

🌸 ضدی دلہن

ایک دن شام کو زینب برآمدے میں بیٹھی جھولے پر جھول رہی تھی۔ اس نے سرخ چوڑیاں پہنی ہوئی تھیں اور بال کھلے چھوڑ رکھے تھے۔ جمال خان آہستہ آہستہ اس کے پاس آیا اور کہا:

“چلو باہر چلتے ہیں، بازار سے تمہارے لیے کچھ لے آتا ہوں۔”

زینب نے بچوں کی طرح منہ بنایا:

“مجھے کچھ نہیں چاہیے۔”

جمال مسکرایا، جھک کر اس کے پاس بیٹھا اور بولا:

“پکی بات؟ اگر کچھ چاہیے ہوا تو پھر ضد نہیں کرنا!”

زینب نے شرارت سے ہلکا سا سر ہلایا۔ جمال نے اس کی ناک کو ہلکے سے دبایا اور بولا:

“تم بالکل چھوٹی سی بچی لگتی ہو۔”

زینب ہنس پڑی اور جھولے پر زور سے جھول گئی۔

🍯 پیار بھری عادتیں

گھر کے اندر بھی یہی حال تھا۔ اگر زینب کھانے میں کوئی ڈش نہ پسند کرتی تو جمال خود اسے ہاتھوں سے نوالہ بنا کر دیتا۔

“یہ لو… اگر تم نے نہیں کھایا تو میں بھی نہیں کھاؤں گا۔”

زینب کبھی ہنس کر مان جاتی، کبھی ضد کر کے منہ پھیر لیتی۔ جمال اسے منانے کے لیے بچوں کی طرح حرکتیں کرتا، کبھی ہاتھ جوڑ لیتا، کبھی کہتا:

“بی بی جی، رحم کرو اپنے شوہر پر!”

🌙 چاندنی رات کا منظر

ایک رات دونوں چھت پر بیٹھے تھے۔ ہوا میں ہلکی خنکی تھی۔ زینب نے چادر لپیٹ رکھی تھی اور چپ چاپ آسمان کے ستاروں کو دیکھ رہی تھی۔

جمال خان آہستہ آہستہ اس کے قریب آیا۔ اس نے زینب کے بالوں کو ہلکے سے سمیٹ کر کہا:

“پتہ ہے، جب تم خاموش ہو جاتی ہو نا… تو لگتا ہے جیسے کوئی ننھی گڑیا روٹھ کر بیٹھ گئی ہو۔”

زینب نے ہنسنے کی کوشش کی مگر آنکھیں جھکا لیں۔ جمال نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دل پر رکھا اور بولا:

“یہ دل اب صرف تمہارا ہے۔ تم جیسی ضدی بچی کو خوش رکھنا میرا سب سے بڑا فرض ہے۔”

💕 زینب کا بدلتا دل

زینب نے پہلی بار دل سے مسکرا کر جمال کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں اعتماد جھلکنے لگا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ جس رشتے کو اس نے زبردستی سمجھا تھا، شاید وہی اب اس کی زندگی کا سہارا بننے لگا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ زینب کے دل سے خوف نکلنے لگا تھا۔ جمال خان کی محبت اور بچوں جیسا خیال رکھنے نے اس کے دل میں نرم گوشہ پیدا کر دیا تھا۔ اب وہ دونوں کے درمیان ہنسی مذاق اور شوخی بھی ہونے لگی تھی۔

🌸 شوخی بھری شام

ایک دن شام کو زینب صحن میں کپڑے سکھانے گئی۔ ہوا چل رہی تھی اور اس کے کھلے بال بکھرنے لگے۔ جمال خان برآمدے سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ مسکرا کر بولا:

“زینب، ذرا بال باندھ لو، ورنہ میرا دل بے قابو ہو جائے گا۔”

زینب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور شرم سے کپڑے کا کونا منہ پر رکھ لیا۔

“آپ تو بس باتوں میں شرماتے نہیں…”

جمال ہنسا اور آہستہ سے قریب آ کر کان میں کہا:

“شرمائے وہ جو بےگانا ہو، تم تو میری ہو… میری اپنی۔”

زینب کا دل تیز دھڑکنے لگا۔ وہ فوراً کمرے کی طرف بھاگ گئی۔

💕 ضدی دلہن

ایک دن زینب نے ضد کی کہ اسے میٹھا کھانا ہے۔ جمال نے پورا بازار چھان مارا اور اس کے لیے مٹھائی لے آیا۔

زینب نے مٹھائی کا پہلا لقمہ جمال کو دیا۔ جمال نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا:

“بس اب تو یہی مٹھائی کھاتا رہوں گا… تمہارے ہاتھ کی، تمہارے ہاتھ سے۔”

زینب شرماتے ہوئے ہنس پڑی۔

“آپ بھی نا، بچوں جیسی باتیں کرتے ہیں۔”

جمال نے جھٹ سے کہا:

“ہاں، کیونکہ تم بھی تو میری چھوٹی سی بچی ہو… جس کے بغیر میرا دل نہیں لگتا۔”

🌙 رات کا منظر

چاندنی رات تھی۔ زینب چھت پر کھڑی ستارے دیکھ رہی تھی۔ جمال پیچھے آیا اور دھیرے سے بولا:

“اتنے غور سے ستارے کیوں دیکھ رہی ہو؟”

زینب بولی:

“یہ ستارے کتنے خوبصورت ہیں نا…”

جمال نے ہنس کر کہا:

“ستاروں میں کیا رکھا ہے؟ اصل روشنی تو میرے سامنے کھڑی ہے۔”

زینب نے شرم سے چادر کا پلو منہ پر رکھ لیا۔ جمال قریب آ کر بولا:

“افف… زینب، تم جب ہنستی ہو نا تو لگتا ہے میرا دل رک جائے گا۔”

زینب نے کانپتی آواز میں کہا:

“آپ کو ڈر نہیں لگتا، ایسی باتیں کرتے ہوئے؟”

جمال نے مسکرا کر جواب دیا:

“ڈر تو تب لگتا ہے جب تم مجھ سے دور ہو جاؤ۔”

یہ سن کر زینب کا دل دھڑکنے لگا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ رشتہ اب صرف ایک زبردستی کا بندھن نہیں رہا، بلکہ ایک ایسا تعلق بن گیا ہے جس میں محبت اور جذبہ دونوں ہیں۔

بارش کا پہلا قطرہ جیسے ہی صحن کی مٹی کو چھوا، ساری فضا میں خوشبو پھیل گئی۔ بادل گرج رہے تھے اور بارش دھیرے دھیرے تیز ہونے لگی تھی۔ پورا گاؤں بارش کی ٹھنڈی ہوا سے مہک اٹھا تھا۔

🌧️ بارش کا منظر

زینب کھڑکی کے پاس کھڑی بارش دیکھ رہی تھی۔ اس کے گیلے بال شانوں پر بکھرے تھے اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ وہ ہاتھ باہر نکال کر بارش کی بوندیں اپنی ہتھیلی پر گرا رہی تھی۔

جمال خان دروازے پر کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا:

“یہ لڑکی تو بارش میں بھی پری جیسی لگتی ہے۔”

وہ آہستہ سے قریب آیا اور زینب کے کان کے پاس سرگوشی کی:

“اگر بارش کا مزہ لینا ہے تو باہر چلتے ہیں… ساتھ ساتھ بھیگتے ہیں۔”

زینب چونک کر ہنس پڑی:

“افف! لوگ کیا کہیں گے؟”

جمال نے قہقہہ لگایا:

“لوگ کچھ بھی کہیں، مجھے تو صرف تمہاری پرواہ ہے۔”

💕 بارش میں ہنسی مذاق

دونوں صحن میں نکل آئے۔ بارش کی بوندیں ان کے کپڑوں کو بھگونے لگیں۔ زینب نے کھیلتے ہوئے پانی کے چھینٹے جمال پر مارے۔ جمال نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا:

“اب پکڑ لیا ہے، اب تم بھاگ نہیں سکتیں!”

زینب ہنسی اور بچنے کی کوشش کرنے لگی۔ جمال نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ دونوں بارش کے بیچ ہنس رہے تھے، جیسے بچے کھیل رہے ہوں۔

🌹 قربت بھرا لمحہ

بارش تیز ہو گئی۔ زینب نے شرماتے ہوئے سر پر دوپٹہ اوڑھنے کی کوشش کی، مگر ہوا نے دوپٹہ اڑا دیا۔ جمال نے آگے بڑھ کر دوپٹہ اس کے سر پر رکھا اور کہا:

“تمہیں پتہ ہے، بارش کی ہر بوند مجھ سے کہہ رہی ہے کہ زینب کو خوش رکھنا۔”

زینب کا دل دھڑکنے لگا۔ وہ جمال کے قریب آ گئی، اور بارش کی بوندیں ان کے درمیان فاصلے مٹا رہی تھیں۔

جمال نے آہستہ سے اس کے چہرے سے بوندیں صاف کیں اور بولا:

“زینب، اگر زندگی کا ہر موسم تمہارے ساتھ گزرے تو ہر دن عید ہے، ہر رات عید ہے…”

زینب نے نظریں جھکا لیں، مگر ہونٹوں پر ہنسی آ گئی۔

🌙 رات کی خاموشی

بارش کے بعد جب رات گہری ہو گئی، دونوں چھت پر بیٹھے تھے۔ ہوا میں ٹھنڈک تھی اور آسمان صاف ہو گیا تھا۔ جمال نے زینب کا ہاتھ پکڑ کر کہا:

“آج کی بارش میری زندگی کا سب سے حسین دن ہے… کیونکہ تم میرے ساتھ تھیں۔”

زینب نے دھیرے سے جواب دیا:

“میں بھی خوش ہوں… مجھے لگتا ہے اب ڈرنے کی ضرورت نہیں رہی۔”

جمال نے فوراً کہا:

“ہاں زینب، اب تمہیں بس پیار کرنے کی ضرورت ہے، ڈرنے کی نہیں۔”

جاری ہے*****

Loading