نبی رحمت ﷺ
ملک کے معروف صحافی اور کالم نگار جاوید چوہدری کے کالم سے اقتباسات
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ نبی رحمت ﷺ۔۔۔ ملک کے معروف صحافی اور کالم نگار جاوید چوہدری کے کالم سے اقتباسات)والدہ نے سات دن دودھ پلایا، آٹھویں دن دشمن اسلام ابو لہب کی کنیز ثوبیہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا، تو یہ نے دودھ بھی پایا اور دیکھ بھال بھی کی، یہ چند دن کی دیکھ بھال تھی، یہ چند دن کا دودھ تھا لیکن ہمارے رسول نے اس احسان کو پوری زندگی یاد رکھا، مکہ کا دور تھا تو ثوبیہ کو میری ماں میری ماں کہہ کر پکارتے تھے،ان سے حسن سلوک بھی جاوید چودھری کے فرماتے تھے ، ان کی مالی معاونت بھی کرتے تھے ، مدنی دور آیا تو مدینہ سے ابولہب کی کنیز ثوبیہ کے لیے کپڑے اور رقم بھجواتے تھے، یہ ہے شریعت۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضاعی ماں تھیں، یہ ملاقات کے لیے آئیں، دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور میری ماں، میری ماں پکارتے ہوئے ان کی طرف دوڑ پڑے ، وہ قریب آئیں تو اپنے سر سے وہ چادر اتار کر زمین پر بچھا دی جسے ہم کائنات کی قیمتی ترین متاع سمجھتے ہیں، اپنی رضاعی ماں کو اس پر بٹھایا، غور سے ان کی بات سنی اور ان کی تمام حاجتیں پوری فرما دیں، یہ بھی ذہن میں رہے، حضرت حلیمہ سعدیہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، وہ اپنے پرانے مذہب پر قائم رہی تھیں، فتح مکہ کے وقت حضرت حلیمہ کی بہن خدمت میں حاضر ہوئی، ماں کے بارے میں پوچھا، بتایا گیا، وہ انتقال فرماچکی ہیں، رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، روتے جاتے تھے اور حضرت حلیمہ کو یاد کرتے جاتے تھے، رضاعی خالہ کو لباس، سواری اور ایک سو در ہم عنایت کیے، رضاعی بہن شیما غزوہ حنین کے قیدیوں میں شریک تھی، پتہ چلا تو انھیں بہلایا، اپنی چادر بچھا کر بٹھایا، اپنے ہاں قیام کی دعوت دی، حضرت شیما نے اپنے قبیلے واپس جانے کی خواہش ظاہر کی رضاعی بہن کو غلام، لونڈی اوربکریاں دے کر رخصت کر دیا، یہ بعد ازاں اسلاملے آئیں، یہ ہے شریعت۔
جنگ بدر کے قیدیوں میں پڑھے لکھے کفار بھی شامل تھے، ان کافروں کو مسلمانوں کو پڑھانے، لکھانے اور سکھانے کے عوض رہا کیا گیا، حضرت زید بن ثابت کو عبرانی سیکھنے کا حکم دیا آپ نے عبرانی زبان سیکھی اور یہ اس زبان میں یہودیوں سے خط و کتابت کرتے رہے، کافروں کا ایک شاعر تھا، سبیل بن عمرو۔ یہ رسول اللہ صﷺکے خلاف اشتعال انگیز تقریریں بھی کرتا تھا اور توہین آمیز شعر بھی کہتا تھا، یہ جنگ بدر میں گرفتار ہوا، سہیل بن عمرو کو بار گاہ رسالت میں پیش کیا گیا، حضرت عمر نے تجویز دی، میں اس کے دو نچلے دانت نکال دیتا ہوں یہ اس کے بعد شعر نہیں پڑھ سکے گا، تڑپ کر فرمایا ” میں اگر اس کے اعضاء بگاڑوں گا تو اللہ میرے اعضاء بگاڑ دے گا“ سہیل بن عمرو نے نرمی کا دریا بہتے دیکھا تو عرض کیا ” مجھے فدیہ کے بغیر رہا کر دیا جائے گا” اس سے پو چھا گیا کیوں ؟“ سہیل بن عمرو نے جواب دیا “میری پانچ بیٹیاں ہیں، میرے علاوہ ان کا کوئی سہارا نہیں” رسول اللہ صلی العلیم نے سہیل بن عمرو کو اسیوقت رہا کر دیا، یہاں آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے،سہیل بن عمر و شاعر بھی تھا اور گستاخ رسول بھی لیکنرحمت اللعالمین کی غیرت نے گوارہ نہ کیا، یہ پانچ بچیوں کے کفیل کو قید میں رکھیں یا پھر اس کے دو دانت توڑ دیں’ یہ ہے شریعت۔
غزوہ خندق کا واقعہ ملاحظہ کیجیے ” عمرو بن عبدود مشرک بھی تھا، ظالم بھی اور کفار کی طرف سے مدینہ پر حملہ آور بھی۔ جنگ کے دوران عمرو بن عبدود مارا گیا، اس کی لاش تڑپ کر محندق میں گر گئی، کفار اس کی لاش نکالنا چاہتے تھے لیکن انھیں مخطرہ تھا، مسلمان ان پر تیر برسادیں گے، کفار نے اپنا سفیر بھجوایا، سفیر نے لاش نکالنے کے عوض دس ہزار دینار دینے کی پیش کش کی، رحمت اللعالمین نے فرمایا ” یہ ہمارے لیے جائز نہیں “ کفار کو عمرو بن عبدود کی لاش اٹھانے کی اجازت دے دی، خیبر کا قلعہ فتح ہوا تو یہودیوں کی عبادت گاہوں میں تورات کے نئے پڑے تھے، تورات کے سارے نسخے اکٹھے کروائے اور نہایت ادب کے ساتھ یہ نسخے یہودیوں کو پہنچا دیے۔ حضرت حذیفہ بن یمان سفر کر رہے تھے، کفار جنگ بدر کے لیے مکہ سے نکلے، کفار نے راستے میں حضرت حذیفہ کو گرفتار کر لیا، آپ سے پوچھا گیا، آپ کہاں جا رہے ہیں،
حضرت حذیفہ نے عرض کیا ”مدینہ “ کفار نے ان سے کہا ” آپ اگر وعدہ کرو، آپ جنگ میں شریک نہیں ہو گے تو ہم آپ کو چھوڑ دیتے ہیں ” حضرت حذیفہ نے وعدہ کر لیا، یہ اس کے بعد سیدھے مسلمانوں کے لشکر میں پہنچ گئے مسلمانوں کو اس وقت مجاہدین کی ضرورت بھی تھی، جانوروں کی بھی اور ہتھیاروں کی بھی لیکن جب حضرت حذیفہ کے وعدے کے بارے میں علم ہوا تو مدینہ بھیجوا دیا گیا اور فرمایا “ہم کافروں سے معاہدے
پورے کرتے ہیں اور ان کے مقابلے میں صرف اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہیں“ نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ منورہ آیا، رسول اللہﷺنے عیسائی پادریوں کو نہ صرف ان کے روایتی لباس میں قبول فرمایا بلکہ انھیں مسجد نبوی میں بھی ٹھہرایا اور انھیں ان کے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت بھی تھی یہ عیسائی وفد جتنا عرصہ مدینہ میں رہا، یہ مسجد نبوی میں مقیم رہا اور مشرق کی طرف منہ کر کے عبادت کر تا رہا۔
مدینہ میں تھے تو مکہ میں قحط پڑ گیا، مدینہ سے رقم جمع کی، خوراک اور کپڑے اکٹھے کیے اور یہ سامان مکہ بھجوا دیا اور ساتھ ہی اپنے اتحادی قبائل کو ہدایت کی کہ کے لوگوں پر برا وقت ہے، آپ لوگ ان سے تجارت ختم نہ کریں“۔ مدینہ کے یہودی اکثر مسلمانوں سے یہ بحث چھیڑ دیتے تھے ”نبی اکرم ﷺ فضیلت میں بلند ہیں یا حضرت موسی ” یہ معاملہ جب بھی درباررسالت میں پیش ہو تا، رسول اللهﷺ مسلمانوں سے فرماتے ”آپ لوگ اس بحث سے پر ہیز کیا کریں“۔
ثمانہ بن اثال نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کا اعلان کر رکھا تھا’ یہ گرفتار ہو گیا، اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، اس نے انکار کر دیا، یہ تین دن قید میں رہا، اسے تین دن دعوت دی جاتی رہی، یہ مذہب بدلنے پر تیار نہ ہوا تو اسے چھوڑ دیا گیا، اس نے راستے میں غسل کیا، نیا لباس پہنا، واپس آیا اور دست مبارک پر بیعت کر لی۔
حضرت عائشہ ؓنے ایک دن رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ” زندگی کا مشکل ترین دن کون سا تھا“ فرمایا، وہ دن جب میں طائف گیا اور عبدیالیل نے شہر کے بچے جمع کر کے مجھ پر پتھر برسائے، میں اس دن کی سختی نہیں بھول سکتا، عبدیالیل طائف کا سردار تھا، اس نے رسول اللہ صلی علیم پر اتنا ظلم کیا تھا کہ اللہ تعالی کی رحمت بھی جلال میں آگئی’ حضرت جبرائیل امین تشریف لائے اور عرض کیا، اگر اجازت دیں تو ہم اس پورے شہر کو دو پہاڑوں کے درمیان ہیں دیں، یہ سیرت کا اس نوعیت کا واحد واقعہ تھا کہ جبرائیل امین نے گستاخی رسول پر کسی بستی کو تباہ کرنے کی پیش کش کی ہو اور عبدیالیل اس ظلم کی وجہ تھا، عبدیالیل ایک بار طائف کے لوگوں کا وفد لے کر مدینه منوره آیا، رسول اللہ صلﷺ نے مسجد نبوی میں اس کا خیمہ لگایا اور عبد یالیل جتنے دن مدینہ میں رہا، رسول اللہ ﷺ ہر روز نماز عشاء کے بعد اس کے پاس جاتے اس کا حال احوال پوچھتے، اس کے ساتھ گفتگو کرتے اور اس کی دل جوئی کرتے۔
عبد اللہ بن ابی منافق اعظم تھا، یہ فوت ہو ا تو اس کی تدفین کے لیے اپنا کرتہ مبارک بھی دیا، اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی۔
ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ صﷺ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں ” جواب دیا “غصہ نہ کرو“ وہ بار بار پو چھتارہا، آپ ہر بار جواب دیتے غصہ نہ کرو“ یہ ہے شریعت اور اللہ تعالٰی نے ایک جگہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں فرمایا” پیغمبر اللہ کی بڑی رحمت ہیں، آپ لوگوں کے لیے بڑے زرم مزاج واقع ہوئے ہیں، آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپ کے گرد و پیش سے چھٹ جاتے “ اور یہ ہے شریعت لیکن ہم لوگ نہ جانے کون سی شریعت تلاش کر رہے ہیں، ہم کس شریعت کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیا کوئی صاحب علم میری رہنمائی کر سکتا ہے…..؟
بقیہ: نبی کریم کی حکمت و تدبر: رسول اللہ ﷺ کے مشن کو ان کے بعد کیسے لوگوں نے آگے بڑھایا۔ یہ اللہ کی تلوار حضرت خالد بن ولید کی شجاعت، عمرو بن العاص کی سیاست، فاتح ایران سعد بن وقاص کی عسکری قیادت سے پتہ چلے گا۔ پیغام محمد کی روح کو سمجھنے والے کیسے تھے ….؟ یہ ہم کو حضرت عائشہ اور ابو ہریرہ کے درس حدیث، ابو درداء اور زید بن ثابت کے درس قرآن، عبداللہ بن عباس کے درس تفسیر اور عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن مسعود کے درس فقہ میں معلوم ہو گا۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجست جنوری 2015