ندائے معرفت
قسط نمبر1
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )انسان ہمیشہ سے ہی حقیقت کی جستجو میں رہا ہے، یہ جستجو کبھی عقل و فلسفہ کے راستے کائنات کے رازوں تک پہنچنے کی کوشش | کرتی، تو کبھی عشق و وجدان کے ذریعےحقیقت کے پردے چاک کرتی ہے۔ ندان معرفت تاریخ گواہ ہے کہ عشق و معرفت کے کئی مسافروں نے نہ صرف خود حقیقت کو پایا بلکہ اپنی شاعری اور کلام کے ذریعے ان رازوں کو دوسروں تک بھی پہنچایا۔
رومی، عطار ، سعدی اور خسرو کی وجد آفریں شاعری ہو، سچل سرمست ، شاہ عبداللطیف بھٹائی، شہباز قلندر اور یونس ایمرے کی بے خودی کے نعرے ہوں، حافظ ، جامی، سرمد اور خیام کے کلام رباعیات میں چھپی حقیقت ہو، یا بابا فرید ، بلھے شاہ، سلطان باہو ، رحمن بابا، شاہ حسین اور وارث شاہ جیسے صوفیوں کے بے ساختہ الفاظ ہوں، یہ سب محبت ، اخلاص اور انسانیت کا ایک ہی پیغام دیتے ہیں۔ یہ کلام را و حق کے مسافروں کے لیے مشعل راہ بنے ہیں۔ ”ندائے معرفت “ کے اس سلسلے میں ہم ہر ماہ کسی صوفی بزرگ کی معرفت سے معمور صوفیانہ شاعری اور عارفانہ کلام کے ذریعے معرفت کی دنیا میں جھانکنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان عارف ہستیوں کے الفاظ کی تاثیر کو محسوس کیا جاسکے اور اس کی روشنی میں اپنے سفر کو آگے بڑھایا جاسکے۔
بر صغیر جنوبی ایشیا میں اسلام کی تبلیغ صوفی بزرگوں اور اولیائے کرام نے کی۔ ان میں سے کچھ بزرگ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار سے پہلے ہی بر صغیر پہنچ چکے تھے۔ یہ اولیا اور صوفیا اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کے عملی نمونہ تھے۔ ان کی زندگیاں بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود، محبت، ترقی اور خدائے واحد کی پرستش کی دعوت کے لیے وقف تھیں۔ ان بزرگوں کی تعلیمات اور شخصیت کی برکت سے برصغیر کے پس ماندہ، غریب اور مظلوم انسانوں کو نئی زندگی کا پیغام ملاء لاکھوں افراد نے دین فطرت کو قبول کر کے روحانی اور مادی ترقی کی نئی راہیں اختیار کیں۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا (سابقہ نام صوبہ سرحد) کی سرزمین نے اہل سیف کے ساتھ ساتھ اہل علم و عرفان بھی پیدا کیے ہیں۔ انہی روشن چراغوں میں ایک نام پرحمن با ارحمہ اللہ علیہ کا بھی ہے، جو علم باطن کے ایک عظیم نمائندہ تھے۔
پشتو کے عظیم صوفی شاعر رحمن بابا ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے ابتدائی حالات کی زیادہ تفصیل نہیں ملتی۔ البتہ کہا جاتا ہے کہ آپ خوش حال مخٹک کے ہم عصر تھے۔
آپ کا اصل نام عبدالرحمنٰ تھا آپ رحمنٰ بابا کے نام سے مشہور ہوئے۔ رحمن بابا نسلاً مہمند قبیلے کی ایک شاخ غور یہ خیل سے تعلق رکھتے تھے، آپ کے والد کا اسم گرامی عبدالستار تھا جو اپنے علاقے کے ایک متمول خان تھے جو بہادر کلی میں رہتے تھے۔ یہ گاؤں پشاور سے جنوب کی طرف پانچ میل کے فاصلے پر اس سڑک پر واقع ہے جو کو ہاٹ کو جاتی ہے۔
رحمن بابا کی ولادت لگ بھگ 1042 ہجری بمطابق 1632میں پشاور کے قریب بہادر کھلی میں ہوئی۔ آپ نے ملا محمد یوسف زئی سے تصوف وفقہ کی تعلیم حاصل کی پھر کو ہاٹ جا کر مختلف علماء سے تعلیم حاصل کی۔
عبدالرحمن نوجوانی ہی میں فقیری اور تصوف کی طرف مائل تھے۔ علم دین حاصل کرنے کے بعد بڑے خان کا یہ بیٹا عبدالرحمن ملا اور صوفی کہلایا۔ پشتونوں میں ان کا بہت احترام رہا ہے۔ اس احترام کی وجہ سے انہیں ”بابا“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ رحمن بابا پر اکثر استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ خشیت الہی سے ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کثرت گریہ کے باعث ان کے چہرے پر آنسوؤں کی لکیریں پڑگئی تھیں۔ خود رحمن بابا نے اپنے ایک شعر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ترجمہ: تیرے غم کی وجہ سے میرے چہرے پر نہریں ہیں۔ ذرا حال تو پو چھ کہ یہ کیوں ہیں ؟۔ رحمن بابا پشتوزبان کے عظیم شاعر ہیں۔ آپ کی شاعری کو پشتو کی اعلیٰ شاعری میں شمار کیا جاتا ہے۔ آپ پشتون شاعری کے حافظ شیرازی کہلاتے ہیں۔ آپ نے فلسفہ اور علم کو اپنی شاعری میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
رحمنٰ بابا کی صوفیانہ شاعری توحید ورسالت کے مضامین سے پر ہے۔ رحمن بابا ایک سچے عاشق رسول تھے۔ رسول اللہ علی ایک یتیم کی رفعت شان اور تکمیل صفات سے متعلق کہتے ہیں۔
که رنا ده پیروی د د محمد دہ
کنه نشته په جهان بله زنا
کہ محمد سﷺکی پیروی میں روشنی ہے، دنیا میں کوئی اور روشنی نہیں ہے۔
خدائے کے مہ گنڑہ بے شکه چه بنده دے
نور نے کل واڑہ صفات دی په ريختيا
خدا کی ذات بے شک بندے سے جدا نہیں۔۔۔جاری ہے،
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2025