Daily Roshni News

ندائے معرفت۔۔۔قسط نمبر2

ندائے معرفت

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ہے، یعنی اس کی شہ رگ سے قریب ہے، اس کی تمام صفات حقیقت میں نور ہیں۔“

با با عشق کو اس کائنات کی علت اور بنیاد قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں

دا دنیا ده خدائي له عشقه پیدا کڑے

 د تمامو مخلوقاتو پلار دے دا

یہ دنیا خدا کے عشق سے پیدا کی گئی ہے، تمام مخلوق کا وہی کامل اور حقیقی پر ور دگار ہے۔“ دوسرے شعر میں بابا عشق کو ایک عالم گیر بندھن سمجھتے ہیں اور نسلی اور قبائلی تفاخر کو رد کر کے عشق جیسا وسیع مسلک اختیار کر کے کہتے ہیں:

زه عاشق يم سروکار مے دے له عشقه

 نه خلیل نه داؤد زے نه یم  ممند

میں عاشق ہوں، میرا کام صرف عشق ہے، نہ میں خلیل ہوں ، نہ داؤد، نہ ہی میں ممند ہوں۔) رحمن بابا کا کلام سادہ، عام فہم اور آسان ہے۔ دیہاتی، شهری، تعلیم یافتہ اور ان پڑھ ہر طبقے کے پشتونوں کو رحمن بابا کے کچھ اشعار زبانی یاد ہوتے ہیں۔ ان کے کلام کی پشتونوں میں اتنی قدر و منزلت ہے جس طرح ایرانیوں میں حافظ شیرازی کے کلام کی ہے۔ خو در ضمن بابا اپنے کلام میں فرماتے ہیں

 که چا لار د عاشقی وی ورکه کرے

 زه رحمان د کمرهانو رهنما يم

(اگر کسی نے عشق کا راستہ تم کر لیا ہو، تو میں، رحمن ایسے گمراہوں کار ہنما ہوں۔)

رحمنٰ باباؒ کی شاعرانہ عظمت خواص و عوام میں تسلیم شدہ ہے، آپ کی شاعری کا موضوع خاص تصوف ہے۔ آپ نے تصوف کے نہایت باریک نکات کو بہت حسن اور دلکشی کے ساتھ پیش کیا ہے۔

                       آپؒ نے اپنے جمال شعری کو تصوف سے نکھارا اور سنوارا ہے، آپ حسن حقیقی کے متلاشی ہیں۔ گداز عشق اور سوزو غم نے آپ کی شاعری کو بڑا نکھار دیا ہے۔

آپ کا مجموعہ کلام دیوان کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اس میں پانچ ہزار کے قریب اشعار ہیں۔ آپ کے اشعار نصیحت ورموز سے پر ہیں۔

انسانیت سه په دولت نه دی رحمانه

 بت که سرو زرو نه جورکرے انسان نہ دے

انسانیت دولت سے پیدا نہیں ہوتی اے رحمن بت سونے کا ہو تو بھی انسان نہیں بن جاتا کرد کلو کرہ  چي . سيمه دے گلزار شي

 اغزي  مہ کرہ په پ  کي به دے خارشي

پھولوں کی فصل اگاؤ کہ راستے گلزار ہو جائیں کانٹے مت بوؤ کہ  میں چھیں

 عقل مہ غواره رحمانه بخت دي خه وي

 عقل منده ده بختاورو غلامان وی

 اللہ سے بخت مانگو عقل مت مانگو اے رحمان کیونکہ عقل مند ا کثر بخت والوں کے غلام ہوتے ہیں

کو ھے مہ  کنه دبل سري په لار کبنی

 چی هم هم ستا به دكوهي په غاره

کسی کے راستے میں گڑھا مت کھو دو!! کہیں اس میں خود ہی نہ گر جاؤ

 ژوندے خان په زمکہ بنخ کرہ لکہ تخم

 که لوئی  غواری د خاورو پہ مقام شہ

اپنے آپ کو دانے کی طرح زندہ دفن کر لو، اگر بڑھائی چاہتے ہو تو خاک کی طرح خاکساری اختیار کرو اخلاص کے حوالے سے عبدالرحمن بابا کے دیوان میں موجود ایک نظم کا اردو ترجمہ قارئین کے                      لیے پیش ہے۔

ہم دوش ثریا ہے بلند مقام اخلاص

 لیکن جہاں میں کم ملتے ہیں غلام اخلاص

 بے وقوف ہے جو جنت کو آسمان میں ڈھونڈتا ہے اس کا سفر تو اخلاص کے چند قدموں سے ہوتا ہے

عجب نہیں کہ صیاد کو ہما ہاتھ لگ جائے

 گر وہ بھی پھیلائے محبت سے داریم اخلاص

میری شیرنی گفتار پرحیرت کیسی

 ہے گفته رحمن کلام اخلاص

 نہ رکھ کوئی دنیا سے بے جا غرض

 کوئی تجھ سے رکھے گا پھر کیا غرض

 یہاں ترک دنیا میں ہے عافی

ت کہ رسوا سے رکھتا ہے رسوا ہی غرض

یہ دنیا تو ہے احمقوں سے بھری

کہا اس سے رکھتا ہے دانا کچھ غرض

وہ آسوده  ہے لذت درد سے

رحمان کو دواؤں سے ہے کیا غرض تم مجھ سے پوچھتے ہو میرے آنسوؤں کے متعلق لیکن میرے دل کو نہیں دیکھا، جو بے وفا نہیں اس نے محبت میں تنگ و تاز کی کیا کیا وحشتیں کہیں بس اس غم سے میرے آنسو بہنے ہی والے ہیں رحمن بابا کے کلام میں جگہ جگہ دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور دنیا کی حقیقت عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر اپنی آخرت برباد کرنے والوں کو بڑے موثر انداز میں سمجھایا گیا ہے۔

نہ رکھ اس سے امید عیش و نشاط

کہ دنیا تو ہے رنج و غم کی بساط

 تہی دست آمد تہی دست رفت

یہ دنیا توہے راستے کی رباط

 ہزاروں ہی چاہ اجل کی راہ میں

مسافر کرے ہر قدم احتیاط

یہیں دیکھ لیتے ہیں اہل نظر

یہ جنت یہ دوزخ یہ پل صراط

دہر میں مت کر کسی کے ساتھ بھی جور و جفا

 چند روز کی زندگی ضائع نہ کر او بے وفا

دوستوں نے آج جو دیکھا یہاں اچھا بُرا

کل وہی منظر یہاں گرد فنا میں کھو گیا

ہے غنیمت فرصت دیدار پھر پچھتائے گا

حسن عالم کل اگر مٹی میں مٹی ہو گیا

گو حکیموں نے دکھایا علم و حکمت کا کمال

پر شاخ سے ٹوٹا ہوا پتہ نہ واپس ہوسکا

 ہے زمین دہر پر بارش کا یک طرفہ سفر

ابر میں برسا ہوا قطرہ نہ واپس جا سکا

روز مغرب میں ہوتی ہے اک سورج کی موت

روز مشرق سے نکل آتا ہے اک سورج نیا

رحمنٰ بابا ؒنے 1118 ہجری بمطابق 1706ء میں وفات پائی، آپ کا مزار پشاور کے جنوب میں ہزار خوانی کے مقام پر واقع ہے۔ ہر سال موسم بہار میں مارچ و اپریل میں رحمنٰ ؒ سے بلکہ افغانستان اور دنیا کے دوسرے ممالک سے بھی عقیدت مند کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔

بشکریہ  ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2025

Loading