Daily Roshni News

نظرئیہء اضافیت۔ قسط نمبر 2 (نیوٹن کی فزکس مکان  کا تصور)

نظرئیہء اضافیت۔ قسط نمبر 2 (نیوٹن کی فزکس مکان  کا تصور)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔نظرئیہء اضافیت   )نظرئیہ اضافیت کی تفہیم حاصل کرنے کے سفر میں یہ ہمارا دوسرا پڑاؤ ہے  اس میں ہم کچھ اہم تصورات کو کلاسیکل فزکس کے تناظر میں سمجھیں گے۔ اچھا ایک بات ذہن میں رکھیں کہ نظرئیہ اضافیت دراصل زمان و مکان کی حقیقت کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ بات لگتی بڑی فلسفیانہ ہے لیکن ہم اس کو روز مرہ کی فزکس اور عام فہم طور پر سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

اضافیت فزکس میں ایک بہت پُرانا تصور ہے اس کو نظرئیہ اضافیت تک محدود  کرنا  ایک ایسی  غلطی ہے جو اکثر لوگ کرتے ہیں۔  جب ہم نظرئیہ اضافیت کہیں تو اس سے آئین شٹائین کے نظریاتِ اضافیت مُراد ضرور لیئے جاتے ہیں لیکن جب صرف اضافیت کہاجائے تو اس سے مُراد  کلاسیکل فزکس میں اضافیت کے تصورات ہوتے ہیں۔

میں زمانہء طالب علمی میں اکثر اضافیت پر مواد پڑھتے پڑھتے اس قسم کی جب باتیں پڑھتا تھا کہ

نیوٹن کے نظریات میں زمان اور مکان مطلق ہوتے  ہیں؟

آپ لوگ تو بلاشُبہ بہت ذہین ہیں  اس لئے سمجھ گئے ہوں گے لیکن میں بچپن سے ہی بہت کُند ذہن واقعہ ہوا ہوں اس لئے مُجھے تو یہ بات  زمانہء طالب علمی میں کبھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ میں سوچا کرتا تھا “یا خُدا یا  یہ زمان تو وقت ہوگیا اب یہ مکان کیا ہے ؟” ہمارے  گھر والے مکان کی تو بات ہو نہیں سکتی، اس لئے  ہو نہ ہو یہ شاعروں کی طرح کی کسی اور ہی جہان کی بات ہے جس کی سمجھ پانا ناممکن ہے ۔   بعد میں کہیں پڑھ لیا کہ جو ہمارے گرد سب کچھ ہے وہ مکان ہے اور وقت تو سبھی جانتے ہیں لیکن یہ مطلق ہے  اب یہ  کیا بات  ہوئی؟ اور میں نے میٹرک سے بی ایس سی تک ایک ایک فزکس کی کتاب چھان ماری مجھے تو کہیں یہ نظر نہیں آیا کہ نیوٹن نے زمان و مکان کے مطلق ہونے کے متعلق کُچھ کہا ہو۰ تو پھر اس کا کیا مطلب ہے؟

مکان آخر ہوتا کیا ہے؟

اس قسم  کے ادق تصورات کی  تعریفوں میں فلسفی نما دانشوروں کی چاندی ہوتی ہے ، نہ جانے کون کون سے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور میرے جیسا خاکی  بندہ اس ڈر سے وضاحت نہیں پوچھتا کہ مُبادہ نئی اصطلاحات کا ابرِ کرم نہ برس پڑے۔

جہاں کہیں کبھی بھی مکان (اسپیس) کی بات ہو آپ فوراً اس سے مُراد  “جگہہ” لے لیا کریں،  اور یہ ذہن میں رکھ لیا کریں کہ مکان (جگہہ) کی پیمائیش   ہم ویسے ہی کرتے ہیں جیسے “فاصلے”  کی پیمائیش کرتے   ہیں ۔ اگر یہ تصور آپ اپنے ذہن میں بنا لیں تو یقین کریں  مکان کو سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی۔  اس لحاظ سے دیکھیں تو  ہر طرف  بس  مکان ہی مکان ہے۔ لاہور سے پشاور تک، مکان ہی ہے، اچھا پنڈی بھٹیاں سے سرگودھا تک بھی مکان ہی ہے اور مریخ سے ساہیوال تک؟ جی وہ بھی مکان ہے۔  کیا مکان صرف اسپیس یعنی خلاء ہے ؟ نہیں    انگریزی میں مکان اور خلاء کے لئے لفظ اسپیس ہی استعمال ہوتا ہے اس لئے شاید یہ ابہام  پیدا ہوتا ہے  لیکن اسپیس ان معنوں میں جب استعمال ہوتو مطلب مکان ہوتا ہے۔ اچھا تو کیا ایٹم میں بھی اسپیس ہوتی ؟ جی جی بالکُل اسپیس ہی تو  ہوتی ہے۔

مکان کی پیمائیش یعنی کہ فاصلے کی پیمائیش

فزکس میں یہ سمجھنا  ہوکہ کسی چیز کی حقیقت کیا ہے تو عموماً اس کی پیمائیش کے فارمولا کو دیکھا جاتا ہے اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مکان کی پیمائیش  کیسےکی جاتی ہے؟ اچھا جب  مکان  فاصلہ یا جگہہ ہی ہے تو بھائی اس کو ماپتے کیسے ہیں ؟جی  بالکُل ویسے ہی جیسے فاصلے کو ماپتے ہیں۔ تو کیا تین فُرلانگ کا فاصلہ مکان ہے؟َ جی ہاں تین فرلانگ مکان کی ہی پیمائیش ہے۔

اچھا اب ہم  اس کو کسی ریاضیاتی ظابطے سے ظاہر کرتے ہیں تاکہ ہم اس سے مکان کی بُنیادی حقیقت کو سمجھ سکیں۰ جیومیٹری میں سب سے بُنیادی فاصلہ معلوم کرنے کے فارمولے کو یار لوگ فیثاغورث کا قانون کہتے ہیں  یہ اپنی اصل صورت میں کچھ یوں ہے

ds² = dx² + dy²

لیکن اس کی یہ شکل تو صرف دو ڈائیمنشن میں ہے یعنی کاغذ پر بنی کسی مثلث کے اطراف کی پیمائیش لیکن ہمیں اگر مکان کو سمجھنا ہے تو ہمیں اس کو تین ڈائمینشن میں لکھنا ہوگا، بہت تھوڑے سے ریاضی سے آپ بہ آسانی تین ڈائیمینشن کی صورت میں اس کو یوں لکھ سکتے ہیں

ds² = dx² + dy² + dz²

اضافیت کے اعتبار سے نیوٹن کے مکینیکس کے تناظر میں یہ سب سے اہم اور بُنیادی مُساوات ہے۔  اسکی درست تفہیم اضافیت اور بعد ازاں نظریاتِ اضافیت کو سمجھنے کے لئے از حد ضروری ہے۔

اب ہم اس پر غور کرتے ہیں کہ یہ فارمولا ہمیں بتاتا کیا ہے؟ اس فارمولے کو عموماً لوگ “فیثاغورث کا قانون” کہہ کے آگے بھاگ جاتے ہیں اور یوں اس کے حُسن کی پوری خوبصورتی سے حذ نہیں اُٹھاسکتے۔ سب لوگ اسے ایک بار پڑھ کے میٹرک کے ریاضی کے دنوں کو یاد کرتے ہیں اور آگے گزر جاتے ہیں ۔ اس کا حُسن اُن چیزوں سے تو ہے ہی جو اس میں بیان کی گئی ہیں لیکن اس ریاضیاتی دُلہن کے ماتھے کا اصل سنگھار  وہ چیزیں ہیں  جو اس میں  سرے سے موجود ہی نہیں ہیں مذید براں یہ ہمیں کلاسیکل مکینکس اور اس سے نتیجتاً بننے والے ہمارے روز مرہ کے تجربات کے متعلق بہت گہری خبر دیتا ہے۰

ڈائمینشن کیسے ہوتی ہیں

سب سے پہلی بات جو ہم اس فارمولے سے اخذ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس میں  مکان کی تین ڈامینشنز کو ایک ساتھ ایک ریاضیاتی ضابطے میں  نتھی کردیا گیا ہے رہا ہے  اور یہ کہ ڈامینشنز ہمیشہ ایک دوسرے پر نوے درجے کا زاویہ بناتی ہیں۰ یعنی ڈامینشنز کے اظہار کے لئے ہم ان کو یوں بنائیں گے کہ ان سب کا آپس میں نوے درجے پر ملاپ ہو۔

مکان  وقت سے آزاد ہوتا ہے

دوسری بات جو ہم اس سے اخذ  کرتے ہیں وہ  ہے کہ فاصلے کا وقت پر کوئی  انحصار نہیں ہوتا  یعنی  دو نقاط کے درمیان فاصلہ  ہمیشہ ایک سا ہی  رہے گا۰  آپ آج دیکھیں یا پچپن کروڑ  اُنتالیس ہزار دو سو چون سال بعد کسی دو نقاط کے درمیان فاصلہ ماپیں تو ان دو نقاط کے درمیان فاصلہ ہمیشہ یہی رہے گا۰ اب کوئی پوچھے کہ بھائی اس فارمولے سے یہ بات  کیسے معلوم ہوتی ہے تو  عرض ہے کہ  اس کا ہمیں ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اس فارمولے میں دائیں طرف کہیں پر کوئی وقت کی  ٹرم نہیں ہے۰

مکان پر ماس کوئی اثر نہیں ڈالتا

اچھا یہ فارمولا ایک اور بات بھی واضح کررہا ہے کہ جن دو نقاط کے درمیان فاصلہ ماپا جارہا ہے اُن کے ماس سے بھی اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یعنی اگر ان نقاط پر کوئی ماس پڑا ہوا ہو تو اُس سے اس دو مقامات کے درمیان فاصلے پر چنداں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کچھ زیادہ بہتر طریقے سے اگر اس کا بیان کیا جائے تو ہم کہیں گے کہ اسپیس کی ہئیت پر ماس کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اگر  مکان وقت سے آزاد ہے تو اس کا ایک بہت عجیب و غریب لیکن بہت گہرا مطلب بھی نکلتا ہے، یعنی کہ مکان اور زمان ہمیشہ سے ایسے ہی تھے کبھی خلق نہیں ہوئے تھے، وہ اس لئے کہ اگر دو نقاط کے درمیان فاصلہ وقت سے آزاد ہے تو اگر کبھی مکان خلق  ہوا ہوتا تو یہ فاصلہ نہ ہوتا ، لیکن کیونکہ مکان وقت سے مبریٰ ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ یہ ہمیشہ سے  ہی وجود رکھتا ہو۰

مکان کی جیومیٹری

اب کیونکہ یہ  اقلیدسی جیومیٹری کا فارمولا ہے جو کہ فلیٹ سطح کی جیومیٹری ہے تو ہم ایک نتیجہ یہ بھی  نکالتے ہی کہ بھائی لوگو  کائینات میں مکان  کی جیومیٹری  فلیٹ سطح کی  جیومیٹری ہے۔  یعنی کائینات میں ستارے سیارے خود تو بے شک کروی ہیں لیکن یہ بالکُل فلیٹ مکان میں موجود ہیں۔ یعنی کہ مکان میں ماس کے وجود سے اس کی جیومیٹری پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مکان مطلق ہے

ایک اور اہم نتیجہ ہے یہاں  جو اس فارمولے سے تو اخذ نہیں کیا جاسکتا لیکن وہ اہم ضرور ہے وہ یہ ہے کہ مکان کی کیفیت کسی شاہد کے  نقطہء نظر کے بدلنے سے بدل نہیں جاتی ، یہ بات لگتی مُشکل ہے لیکن اس کو ایک اور طرح  سےکہتے ہیں  کوئی سے دو مقامات کے درمیان فاصلہ  ہمیشہ  ساکن اور متحرک  شاہدوں کے لئے   یکساں ہی رہتا ہے یعنی کرکٹ کے بلے کی لمبائی میچ کھیلنے والوں اور پاس سے فراٹے بھرتے بغیر سائلینسر کے موٹر سائیکل  بگھانے والے کے لئے ہمیشہ ایک سی ہی رہتی ہے اگر یہ نہ ہوتا  تو سب کچھ ہی تتر بتر ہوجاتا۔ اس حقیقت کو ہم ریاضی میں یوں کہتے ہیں

ds’²  ds² =

جب ہم کسی مقدار پر پرائیم  ڈال دیں  تو اس کا مطلب ہوا کہ یہ مقدار ہمارے مطابق ایک متحرک جسم ماپ رہا ہے اس کو ہم مختلف  متحرک شاہد کا نقطہ نظر بھی کہیں گے جس کو یار لوگ فریم آف ریفیرینس بھی کہتے ہیں۔ یعنی کسی چیز کی لمبائی اُس چیز کی ایک اندرونی یا جوہری خصوصیت ہے جو شاہد کے مقام بدلنے سے بدل نہیں جاتی۔

حرفِ آخر

نیوٹن کی مکینیکس بُنیادی طور پر ہمارے روز مرہ کے مُشاہدات  پر اساس کرتی ہے ، اس میں مکان کی ہئیت کو سمجھنے کے لئے ہمیں یونانی حکیم فیثاغورث کا ضابطہ استعمال کرنا پڑتا ہے جو ہمیں بتا تا ہے کہ مکان ایک مطلق حقیقت ہے اور اس پر وقت اور ماس کوئی اثر نہیں ڈالتے ۔ ہم اگلی قسط میں نیوٹن کے مکینیکس میں وقت کی اہمیت  کا جائیزہ لیں گے۔

Loading