Daily Roshni News

نظر کی قوت۔۔۔قسط نمبر1

نظر کی قوت

قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز ا نٹرنیشنل ۔۔۔ نظر کی قوت)نظر اچھی اور بُری دونوں ہو سکتی ہیں۔ جب انسان مثبت یا منفی طور پر کسی چیز پر یکسو ہو جاتا ہے تو اس کے دماغ کے برقی اشارے ایک زبر دست چارج پیدا کرتے ہیں۔ اس چارج میں بھر پور طاقت اور تاثیر موجود ہوتی ہے اور نگاہ کی قوت سے مظاہر میں بہت سی تبدیلیاں بھی لائی جاسکتی ہیں۔

ہم روزانہ اپنے اطراف میں مختلف چیزیں دیکھتے ہیں۔ جو چیز نگاہ سے گزر کر حافظہ کا تجربہ بن جائے ہمارا دماغ اسے اپنے Data میں محفوظ کر لیتا ہے۔ بہت کی چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی حقیقت وہ نہیں ہوتی جس کا تجربہ ہمیں بصارت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے مثلا درخت کی شاخ پر بیٹھی چڑیاں، آپ کو یکساں نظر آتی ہیں لیکن بغور مشاہدہ کرنے پر ان کی انفرادیت سامنے آسکتی ہے۔ ایسے بھی بہت سے واقعات ہمارے ارد گرد رونما ہوتے رہتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نگاہ میں بھر پور طاقت اور تاثیر موجود ہے اور نگاہ کی قوت سے مظاہر میں بہت سی تبدیلیاں بھی لائی جاسکتی ہیں۔ نگاہ کی تاثیر یا اثر انگیزی کے تجربہ سے عام لوگ بھی اکثر گزرتے رہتے ہیں مثلا اگر کوئی شخص کسی کی جانب دیکھ یا گھور رہا ہو تو وہ بے اختیار نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھے گا۔ چاہے وہ ہجوم یا مجمع ہی کیوں نہ ہو۔

کسی شخص کا متوجہ ہو کر کسی کو دیکھنا ایک ایسا سگنل ہے جسے دوسرا شخص نظر انداز نہیں کر سکتا۔ انسانی رویے کی سائنس میں اس بری نظر کو بہت کم زیر مطالعہ لایا گیا ہے لیکن جو بھی تھوڑی بہت تحقیق کی گئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسے

خام خیالی کہہ کر مسترد کر دینا درست نہیں۔ ٹو بن سائبر (Tobin Seiber) نے رسالے دی مرر آف میڈوسا The Mirror) Of Medusa میں لکھا ہے کہ اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے طالب علموں نے ایک تحقیق اس بات کا جائزہ لینے کے لیے کی کہ لوگوں کے آپس کے رویوں میں گھور کر دیکھنے کے کیا نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں ….؟

یہ مطالعہ ان 1300لوگوں پر کیا گیا تھا جو تعلیم یافتہ اور معقول لوگ تھے یعنی کچھ بھی بغیر عقلی دلیل کے نہیں مانتے تھے۔ ان 1300 لوگوں سے کسی کے انہیں گھور کر دیکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان میں سے چوراسی فیصد خواتین اور تہتر فیصد مردوں کا جواب تھا کہ اس طرح کی مسلسل نظر انہیں محسوس ہوئی تھی۔ یہ لوگ ماڈرن ہونے اور نظر بد کے واہمے کے مخالف ہونے کے باوجود ایسا جواب دے رہے تھے جو نظر بد کے نظریے کی بنیادوں میں سے ایک ہے۔

مختلف جانور بھی نگاہ کی قوت سے مختلف کام لیتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بعض درندے مثلاً شیر یا بلی وغیرہ کی آنکھیں رات کی تاریکی میں چمکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان درندوں کی آنکھوں سے زردی مائل سبز رنگ کی ایک خاص شعاع نکلتی ہے، یہ وہ شعاع ہے جو اپنے ہدف کو حواس باختہ اور مفلوج کر دیتی ہے۔ یہ بات اکثر لوگوں کو معلوم ہے کہ بلی اور شیر وغیرہ کے علاوہ

سانپ اور اژدھے بھی جب اپنے شکار کی جانب دیکھتے ہیں تو شکار بے بس ہو کر کھڑا رہ جاتا ہے جیسے اسے کسی چیز نے باندھ دیا ہو۔ لاچار کر دینے کی یہ قوت، درندے کی آنکھوں سے خارج ہوتی ہے۔ اس طرح شکار بڑی آسانی سے اس درندے کے قابو

میں آجاتا ہے۔

ایشیاء کے صحرائی علاقوں میں ایک ایسا سانپ بھی پایا جاتا ہے جو اپنے شکار پر جھپٹنے کے بجائے اسے محض اپنی آنکھوں سے مفلوج کر دیتا ہے۔ جانوروں کی نفسیات پر ریسرچ کرنے والے ایک روسی مفکر ولاڈی میٹر ڈروف نے بہت سے تجربات سے یہ بات ثابت کی کہ جانوروں میں محض نگاہ کے ذریعہ احکامات کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ متعدد سائنسدانوں اور اخباری رپورٹروں کے اصرار پر ڈروف نے ماسکو کے چڑیا گھر میں ایک افریقی شیر کو اپنی نگاہ کے اثر سے اس قدر اکسایا کہ اس نے پنجرے میں بند شیرنی پر کسی ظاہری اشتعال کے بغیر حملہ کر دیا ڈروف نے اپنی نگاہوں کو شیر کی نگاہوں میں ڈال کر یہ پیغام دیا تھا کہ وہ شیرنی پر حملہ کر دے۔ کئی مشہور ماہرین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مریضوں پر تنویمی حالت طاری کرنے کے لئے اپنی آنکھوں میں جھانکنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس عمل سے وہ اپنے مریضوں پر حسب منشاء وقفے کے لئے نیند طاری کر دیتے ہیں۔

ایک چیک ماہر طبیعات جین ایوا نجلینا پر کین نے متعدد تجربات کے بعد یہ ثابت کیا کہ ہر شئے سے ایک خاص توانائی یا مقناطیسی کشش خارج ہوتی ہے۔ غیر معمولی نظر یا نگاہ بھی اسی خصوصیت کی مظہر ہے۔

ایسے واقعات بھی ہمیں جابجا ملتے ہیں جس میں نگاہ کی قوت سے جامد و ساکت اشیاء کو حرکت میں لایا جاسکتا ہے۔ چیکو سلواکیہ کے طبیعات کے پروفیسر اور سائنس دان کر نیسکی نے نظر کے ذریعے چیزوں کو حرکت دینے کے سلسلے میں سائنٹیفک بنیادوں پر کام کیا۔ ڈاکٹر کر نمیسکی نے اپنے تجربات کے دوران ایسی چیزوں کو حرکت میں لانے کا مظاہرہ کیا ہے جن کے آگے لکڑی یا شیشے کی کوئی رکاوٹ کھڑی کردی گئی تھی۔ ایک اور شخص جسے یہ صلاحیت حاصل تھی، اس نے ایک بڑے مجمع میں پانی کے ایک پیالے میں فولاد کی سوئی ڈال دی۔ ارشمیدس کا اصول بتاتا ہے کہ۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر 2022

Loading