نظر کی قوت
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز ا نٹرنیشنل ۔۔۔ نظر کی قوت)سوئی پانی کی سطح پر نہیں تیر سکتی لیکن اس شخص نے پانی کی تہہ میں موجود سوئی پر ایک گہری نظر ڈالی اور سوئی ملنے لگی اور آہستہ آہستہ اوپر اٹھ کر پانی کی سطح پر تیرنے لگی۔
نظر کی غیر معمولی تاثیر کی دنیا میں کتنی ہی مثالیں موجود ہیں مثلاً فرینکفرٹ کا ایک نوجوان اسٹیفن گولن شیشے کے گلاس کو چند لمحے بغور دیکھتا تو گلاس چکنا چور ہو جاتا۔ ایک بار اس نے بھرے مجمع میں ایک مضبوط ستون پر چند لمحے نگاہیں جمائیں تو اس ستون میں دراڑیں پڑ گئیں۔
جنوبی افریقہ کی ایک خاتون ہیلین اے اسٹیورٹ نگاہ کی قوت سے چھوٹے پنکھے کے پروں کو حرکت دینے کا مظاہرہ کرتی تھی ۔ مشہور ماہر نفسیات ژنگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مریضوں پر تنویمی حالت طاری کرنے کے لئے اپنی آنکھوں میں جھانکنے کی ہدایت کرتا۔ اس عمل سے وہ اپنے مریضوں پر حسب منشاء وقفہ کے لئے نیند طاری کر دیتا۔ ہپنا ٹزم میں آنکھوں کے ذریعے متاثر کر دینا معمول کی بات کبھی جاتی ہے۔
جب بھی نگاہ کی تاثیر یاقوت کا ذکر و نگلتا ہے تو یہ ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے “ نظر بد ” کے تصورات بھی سامنے آتے ہیں۔
نظر بد پر یقین رکھنے والے نظر کی قوت یا تاثیر کے لئے مختلف سائنسی وضاحتیں پیش کرتے ہیں۔ سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھنے کا عمل تدریجی طریقہ سے پورا ہوتا ہے۔
جب انسان مثبت یا منفی طور پہ کسی چیز پر یکسو ہو جاتا ہے تو اس کے دماغ کے برقی اشارے ایک زبردست چارج پیدا کرتے ہیں۔
اس چارج میں بھر پور طاقت اور تاثیر موجود ہوتی ہے اور نگاہ کی قوت سے مظاہر میں بہت سی تبدیلیاں بھی لائی جاسکتی ہیں۔ جب یہ سارے کا سارا چارج کسی انسان پر گرتا ہے تو وہ متاثر ہوتا ہے۔ اسی کو نظر لگنا کہتے ہیں۔
بعض سائنس دان بتاتے ہیں کہ ہر مادی شئے اپنا برقی مقناطیسی میدان رکھتی ہے ۔ جب ہمارے دماغ میں خیال آتا ہے تو خلیوں کے برقی مقناطیسی میدان میں ہلچل برپا ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں کرنٹ یا لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہی لہریں اعصاب کے ذریعے جسم کے حصوں میں دور کرنے لگتی ہیں ۔ ماہرین کے مطابق دماغ میں آنے والا خیال بھی برقی مقناطیسی اثر رکھتا ہے جسے سائنگ الیکٹرو میگنیٹک ویو انرجی کہا جاتا ہے۔
مابعد الطبیعات کے ماہر جارجز لیکلو وسکی George Laklovsky اپنی کتاب Secret of Life میں رقم طراز ہیں دماغ سے نہایت لطیف لہروں کا اخراج ہوتا ہے۔ دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات سے بھی لطیف برقی لہروں کا اخراج ہوتا ہے جو فضا میں نشر ہو جاتی ہیں۔ یہ لہریں سیکنڈ کے دسویں حصہ کے اندر کرہ ارض کا چکر لگا لیتی ہیں“۔ یہ لہریں گو کہ نظر نہیں آتیں مگر چیزوں پر اثر انداز ہونے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں۔ کسی کے باطن سے نکلنے والی یہ برقی مقناطیسی لہریں جب تواتر سے دوسری شئے کے برقی مقناطیسی میدان پر مرتکز ہوتی ہیں تو اس میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی شئے پر اپنی نگاہیں مرکوز کرتا ہے تو دراصل اپنی لہریں اس شئے کے برقی مقناطیسی میدان میں داخل کر دیتا ہے اور وہ شئے متاثر ہو جاتی ہے۔
Behavioral Science کے ماہرین بتاتے ہیں کہ ہر انسان میں سے مخصوص قسم کی غیر مرئی توانائی کی لہریں نکلتی ہیں جن کو Emotional Energy کہا جاتا ہے ۔ یہ توانائی جلد کے مسامات کے ذریعے جسم میں جذب ہو کر جسم کی تعمیر یا تنزلی کا باعث بنتی ہے۔ کسی خوب صورت شخص کو جب غیر معمولی حاسد جذبات کے ساتھ کوئی شخص دیکھتا ہے تو یہ انرجی دوسرے کے جسم میں داخل ہو کر خون میں میلاٹونن (Melatonin) کی تحریک غیر متوازن کر دیتی ہے جس سے جلد کی رنگت ماند پڑ جاتی ہے اس کے نتیجے میں وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، اسی کو نظر لگنا کہہ سکتے ہیں۔
روحانی علوم کے ماہرین بتاتے ہیں کہ ہر مادی جسم کے اوپر روشنیوں کا جسم موجود ہوتا ہے جسے انہوں نے جسم مثالی کا نام دیا ہے ۔ جسم مثالی میں مختلف رنگوں کی روشنیاں رد و بدل ہوتی رہتی ہیں۔ ہمارے مادی جسم میں تمام تقاضے ، جذبات اور احساسات جسم مثالی ہی سے نزول کر کے آتے ہیں۔ روشنیوں کی ترتیب خیالات و احساسات کو جنم دیتی ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے مادی جسم پر کوئی بیماری حملہ آور ہو جائے تو اس کی بنیادی وجہ بھی جسم مثالی میں روشنیوں کی ترتیب میں خلل اندازی ہوتی ہے۔ سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم برخیا اور دیگر کئی روحانی مفکرین کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ ہر مادی جسم، جسم مثالی کی وجہ سے اپنا وجود رکھتا ہے ۔ ہر شخص کے جسم مثالی کی روشنیاں دوسرے شخص سے مختلف ہوتی ہیں۔ جب کوئی شخص غیر معمولی جذبات کے ساتھ دوسرے پر توجہ مرکوز کرتا ہے تو اس کے جسم مثالی کی روشنیاں مخالف کی روشنیوں میں خلط ملط ہو کر ان کے توازن میں دخل اندازی کرتی ہیں۔ یوں اس کے جسم پر بھی اثر ہوتا ہے اور متعلقہ شخص یا شئے میں تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔ اسی کو نظر کہتے ہیں۔
نظر لگنے سے اگر کوئی بیماری ہو گئی ہے تو صرف اس بیماری کا روایتی علاج ناکافی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بیماری کے اصل سبب کے علاج کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ اس لئے روایتی علاج کے ساتھ ساتھ نظر لگنے کا علاج بھی ہونا چاہئے کیونکہ اس صورت میں تکلیف کی اصل وجہ نظر لگتا ہے، بیماری تو ضمنی تکلیف ہے۔
نظر کے قانون کی وضاحت کرتے ہوئے معروف روحانی بزرگ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی اپنی کتاب ” ٹیلی پیتھی سیکھئے“ میں تحریر فرماتے ہیں۔
آدمی در اصل نگاہ ہے۔ نگاہ یا بھارت جب کسی شئے پر مرکوز ہو جاتی ہے تو اس شئے کو اپنے اندر جذب کر کے دماغ کے اسکرین پر لے آتی ہے اور دماغ اس چیز کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور اس میں معنی پہناتا ہے۔ نگاہ کی مرکزیت کسی آدمی کے اندر قوت ارادی کو جنم دیتی ہے اور قوت ارادی سے انسان جس طرح چاہے کام لے سکتا ہے“
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ دسمبر2022