Daily Roshni News

”نفرت اور پاکستان“

”نفرت اور پاکستان“

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوزانٹرنیشنل )نفرت ایک جذبہ ہے، اور پاکستانی قوم اس جذبہ کو ضرورت سے زیادہ محسوس کرتی ہے دوسرے نظریات، اقلیت، ممالک اور مذاہب کے لیے، تو کیا اس میں پاکستانی قوم کا قصور ہے؟؟ ہرگز نہیں!

نفرت فطرت کی طرف سے دیا گیا ایک بہت ہی کارآمد جذبہ ہے، اسکا کام بری، نقصان دہ اور بیکار چیزوں کو ہٹانا ہے۔ لیکن اسکا استعمال انسان اکثر اپنے درد سے بھاگنے کے لیے بھی کرتے ہیں۔ بحیثیت قوم ہم نے غلامی بھی دیکھی ہے، ملکی حالات اچھے نہیں اور کوئی امید کی کرن بھی نہیں، ایسے میں جب انسان کو درد اور ٹروما ہو تو وہ نفرت کرکے اپنے درد سے اپنا دھیان ہٹاتا ہے۔  اور اکثر حکومتی ادارے اور سیاستدان عوام کا دھیان ہٹانے کے لیے نفرت کا کھلونا پکڑا دیتے ہیں اور پھر عوام نفرت کرنے میں مصروف ہوجاتی ہے۔

اکثر بیرونِ ملک رہنے والے میرے کلائنٹ مجھ سے کہتے ہیں کہ پاکستان کی عوام میں برداشت، اخلاقیات، اقدار، قول کا پکا ہونا ان سب چیزوں کی کمی ہے، ہم جاہل اور گنوار ہیں، لیکن غلامی، درد اور ٹروما سے گزری قوم سے آپ کیا امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ کس طرح کا رویہ رکھے؟؟

جب لوگ ٹروما میں ہوتے ہیں تو انہیں صحیح غلط، صحت مند اور غیر صحت مند رویوں کی پہچان نہیں رہتی۔ ٹروما میں رہنے والی عورتیں/مرد ایسے لوگوں کا چناؤ کرتے ہیں جو ان کو مزید درد دیتے ہیں اور ان کے ٹروما کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ فرد ہو یا قوم، جو بھی شرمندگی (شیم) اور ذلت سے گزرے گا، جسکی خود-توقیری (سیلف-اسٹیم) کم ہوگی وہ نفرت بھی کرے گا، اقدار اور اخلاقیات کی بھی اس میں کمی ہوگی۔

سائیکالوجی نفرت کو دو جذبات کا ملاپ بتاتی ہے، محبت اور جارحیت، محبت اپنے نظریات اور جارحیت دوسروں کے نظریات کی جانب۔

اس کے علاوہ نفرت ”پروجیکشن“ (جذبات کو باہر/دوسروں پر پھینکنے کا عمل) کو بھی استعمال کرتی ہے، فرض کریں کہ میں ندا اپنے متعلق بہت برا محسوس کرتی ہوں، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میری کوئی اہمیت نہیں، کوئی مستقبل نہیں، میں کسی قابل نہیں، مختصراً مجھے ٹروما ہے، تو میں لاشعوری طور پر اپنے اندرونی احساسات کو دوسروں پر پھیکنے کے لیے پروجیکشن کا استعمال  کروں گی، میں لوگوں سے نفرت کروں گی، انہیں برا بھلا کہوں گی، یہ سگمنڈ فرائیڈ کے نفسیات کے دفاعی طریقہ کار میں سے ایک طریقہ ہے۔ اسکا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔

اکثر لوگوں کو لگتا ہے کہ انہوں نے سائنس، سیلف ہیلپ یا کسی خاص نظریہ یا فلسفہ کی چار کتابیں پڑھ لیں اور اب وہ بہت ذہین فطین ہوچکے ہیں، انہیں دنیا کی سمجھ آگئی ہے لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ اصل سمجھ دنیا سے زیادہ اپنے جذبات کی ہوتی ہے جسے ”جذباتی ذہانت“ (ایموشنل انٹیلیجنس) کہتے ہیں، جو محض کتابوں سے نہیں آتی اور نہ ہی آپ کو اسکول، کالج گھر میں یہ سب سکھایا گیا اور نہ ہی کبھی سکھایا جائے گا۔

جذبات کو سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام آپ کے ”جذبات“ (لمبک کیپیٹل-ازم)  پر منافع بناتا ہے، حکومتی ادارے اور سیاستدان بھی ”جذبات“ کو نشانہ بناتے ہیں۔ میری وڈیوز اور آرٹیکل جن میں اکثر جذبات کا ذکر ہوتا ہے وہ اس لیے تاکہ آپ کو ان کی بہتر طور پر سمجھ آئے اور آپ اس نظام کا فائدہ اٹھا سکیں نہ کہ نظام آپ کا!

اس آرٹیکل میں ہم بات کریں گے کہ نفرت کو آپ انفرادی سطح کیسے کم کرسکتے ہیں اور کیوں اسے کم کرنا ضروری ہے آپ کے لیے؟؟

نفرت کو کیوں کم کرنے کی ضرورت ہے؟

صحت:

آپ جب بھی ملک، اداروں، مذہب، ملحد، مولوی، سرمایہ دار، سوشلسٹ یا کسی انسان سے نفرت کریں تو ایک بار یہ ضرور سوچ لیں کہ اسکا سیدھا اثر آپ کی صحت پر ہورہا ہے اور انہیں کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ نفرت ایک ایسا زہر ہے جو آپ کے جسم میں قوتِ مدافعت کے نظام کو متاثر کرسکتا ہے اگر اسے پراسس نہ کیا جائے۔ نفرت اور کڑواہٹ سے کچھ حاصل نہیں ہورہا البتہ آپ اپنی صحت کھو رہے ہیں۔

نفرت کی جڑ:

اپنی نفرت کی جڑ میں جائیے اور دیکھیے کہ کیا درد ہے؟ ملک کے حالات سے زیادہ درد ہمیں گھر کے حالات دیتے ہیں۔ گھر سب سے چھوٹا یونٹ ہے معاشرے کا لیکن ہماری خوشی اور دکھ کا براہِ راست تعلق اسی سے ہے، آپ کو نفرت کرنا گھر سے سکھایا گیا، یا پھر آپ نے اپنے درد سے نمٹنے کے لیے نفرت کا سہارا لیا، یا اداروں نے اپنے مفاد کے لیے آپ میں نفرت کا بیج بو دیا، آپ کو جڑ میں جاکر دیکھنا ہوگا تاکہ اس نفرت کو آپ اپنے جسم میں پراسس کرسکیں۔ کیونکہ نفرت سے آپ کا وقت ضائع ہورہا ہے نفرت کرنے میں لیکن اسکا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہورہا اور آپ کی زندگی کا معیار گرتا جارہا ہے۔

نفرت کو کم کیسے کرنا ہے؟

۱- صحت کی فکر:

جب بھی آپ کو نفرت محسوس ہو تو خود کو یاد دلائیں کہ اس جذبہ سے آپ کی صحت تباہ ہورہی ہے، شعوری طور پر نفرت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے منطقی ذہن کا استعمال کرتے ہوئے اس جذبہ کو جسم میں گھل جانے دیں۔ شعور ہونا پہلا قدم ہوتا ہے، اسے ”کگنیٹو بہیورئل تھراپی“ کہتے ہیں۔

۲- نفرت کی گہرائی میں درد:

آپ کاپی پین کا سہارا لے کر اپنے جذبات کو لکھ سکتے ہیں اور اپنی نفرت کی گہرائی میں جاسکتے ہیں، معلوم کرنا ضروری ہے کہ آپ کو حکومتی اداروں اور گھر والوں کی سکھائی ہوئی نفرت کو کیسے کم کرنا اور ”اَن- لرن“ (یعنی کہ جو سکھایا اسے اَن سیکھا کرنا ہے) کرنا ہے، اس میں وقت لگ سکتا ہے کیونکہ جذبات پیچیدہ ہوتے ہیں۔

۳- عملی اقدامات:

اپنے درد کو کم کرنے کے لیے جو عملی اقدامات کرسکتے ہیں وہ ضرور کریں۔ آپ ملک یا اس کے حالات نہیں بدل سکتے لیکن اپنے ذہنی حالات اور باہر کے حالات اپنے چھوٹے چھوٹے عمل سے ضرور درست کرسکتے ہیں۔

حکومت کے پاس آپ کے لیے سوچنے کا وقت نہیں ہے، ان کے سامنے مسائل کا انبار ہے، رائتہ پھیلا ہوا ہے، ذاتی مفاد ہیں اور حکومت سے وہ نہیں سمیٹا جارہا۔ لیکن آپ کو زندگی ایک بار ملی ہے اور اسے اپنے لیے آسان اور پرسکون بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنا آپ کا فرض ہے، حکومت آپ کے لیے نہیں کرے گی یہ سب، آپ کو خود کرنا ہوگا ۔

۴-  جس سے نفرت اسے جاننا:

جانکاری آپ کی نفرت کو ختم کردیتی ہے۔ جن نظریات اور لوگوں سے نفرت ہے انہیں جانیے، آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ بھی آپ کی طرح مسائل میں گھرے لوگ ہیں۔

میں جب گیارہویں جماعت میں تھی تو اپنے کالج میں ایک ہندو لڑکی (مجھے علم نہیں تھا کہ وہ ہندو ہے) کی بوتل سے غلطی سے پانی پینے پر دو دن اس شش و پنج میں رہی کہ میرا ایمان خراب ہوگیا ہے(جی ہاں! میں بھی اسی معاشرے کی ہوں) اور آج جب ہندو فلسفہ کو پڑھا اور جوتش سیکھا تو اندازہ ہوا کہ ہر مذہب کے پاس دانش ہے، اور کسی بھی مذہب سے کچھ سیکھنا گناہ نہیں اور نہ ہی کسی ہندو کی بوتل سے پانی پینا۔

ہندو مذہب سے نفرت مجھے گھر اور ملک دونوں نے کرنا سکھائی، والدین کو آگاہی نہیں تھی البتہ حکومتی اداروں کا مفاد ہوتا ہے عوام کو نفرت سکھانے میں، جب قوم خالی، ناامید اور درد میں بیٹھی ہو تو ”نفرت“ کا جھنجھونہ ایسی قوم کا دھیان بٹانے کے لیے کام آتا ہے۔

جس سے نفرت ہے اسے جانیے، آپ کی نفرت گھل جائے گی۔

ادارے اور سیاستدان ہمیشہ کوئی نہ کوئی کھلونا آپ کو دیتے رہیں گے تاکہ ان سے سوالات نہ پوچھے جائیں اور آپ جذبات میں بہہ کر اپنی توانائی اور وقت ضائع کرتے رہیں۔ عوام بیوقوف جبکہ سیاستدان اور ادارے بہت ذہین اور منطقی ہوتے ہیں، جب عوام شعور یافتہ ہونے لگتی ہے تب سیاستدان اور ادارے بھی سمجھنے لگتے ہیں کہ عوام کا بیوقوف بنانا اب آسان نہیں۔ آپ کو ذہانت محض سیلف ہیلپ کتابوں یا فلسفہ سے نہیں ملے گی، آپ کو ذہانت اپنے جذبات کو سمجھ کر ملے گی، کیونکہ دنیا اور اس میں رہنے والے انسان ”جذبات“ پر چلتے ہیں اور طاقتور یہ بات بخوبی جانتے ہیں

Loading