نوبیل امن انعام کا اعلان آج، ٹرمپ سب سےزیادہ منتظر
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )نوبیل امن انعام کےحقدارکااعلان آج ہوگا، یوں تو338 شخصیات کی نامزدگیاں کی گئی ہیں تاہم سب کی نظریں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ہیں جو خود کو اس ایوارڈ کا سب سے بڑا حقدار سمجھتے ہیں۔
صدرٹرمپ کو نوبیل امن انعام ملا تو اس میں سب سے اہم کردار پاکستان کا ہوگا کیونکہ سب سے پہلے صدر ٹرمپ کو پاکستان نے نامزد کیا تھا، اگرایوارڈ نہ ملاتو اسکا کسی حد تک ذمہ دار بھارت ہوگا کیونکہ نریندری مودی نے پاک بھارت جنگ رکوانے میں صدر ٹرمپ کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہوا ہے۔
اس طرح اگر صدر ٹرمپ کو انعام ملے تو بھی پاکستان کا فائدہ ہوگا اور نہ ملے تو بھی کیونکہ دودھ میں مینگھیں ڈالنے کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوگی۔
ڈونلڈٹرمپ کی قسمت چمکی تونوبیل امن ایوارڈ لینےوالےوہ پانچویں امریکی صدر بن جائیں گے، اس سے پہلے تھیوڈور روزویلٹ، ووڈروولسن، جمی کارٹر اوربراک اوباما یہ اعزازپاچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستمبر میں منعقد اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے خود کو اس ایوارڈ کا سب سے بڑا حقدار قرار دیا تھا، ماضی میں وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ آخر براک اوباما نے کیا ہی کیا تھا جس پرانہیں امن کا نوبیل انعام دیدیا گیا۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا متنازعہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے تو 7جنگیں ختم کرائی ہیں اور وہ دنیا میں امن کیلئے کام کررہےہیں۔
جن جنگوں کو ختم کرانے کا ٹرمپ کریڈیٹ لیتے ہیں ان میں بھارت اورپاکستان،اسرائیل اورایران،مصراورایتھوپیا،آرمینیا اورآذربائیان، کمبوڈیا اورتھائی لینڈ، کوسوواورسربیا، کانگو اور روانڈا کی جنگیں ہیں۔
تازہ یعنی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ جسے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بھی کہا جاتا ہے، اسکا کریڈیٹ بھی صدر ٹرمپ لیتے ہیں، انہی کے20 نکاتی امن منصوبے پر عرب اور مسلم ممالک نے بھی ساتھ دیا اور آخر میں حماس نے بھی اس کو بڑی حد تک قبول کرلیا۔
غزہ جنگ رکوانے کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ فرانس کے صدر عمانویل میکرون نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام اس وقت ملنا چاہیے جب وہ غزہ جنگ رکوائیں کیونکہ اسرائیل کو اسلحہ امریکا فراہم کرتا ہے۔
دیگر جنگوں میں سے بعض کو روایتی انداز سے جنگ تصور نہیں کیا جاتا یا بعض میں صدر ٹرمپ کے کردار پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تاہم مئی میں ہوئی بھارت اور پاکستان کی جنگ اس نوعیت کی تھی کہ صدر ٹرمپ کے مطابق یہ معاملہ ایٹمی جنگ میں بدل سکتا تھا اور انکی بروقت مداخلت نے جنگ بندی کرادی تھی۔
یہ بھی پڑھیں
صدر ٹرمپ نے عالمی امن کیلئے غیر متزلزل عزم دکھایا، وزیراعظم کا غزہ معاہدے کا خیر مقدم
ٹرمپ نوبیل امن انعام چاہتے ہیں تو غزہ جنگ ختم کرانا ہوگی، فرانسیسی صدر
صدر ٹرمپ نے خود کو امن کے نوبیل انعام کیلئے بہترین امیدوار قرار دیدیا
پاکستان صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس بات سے متفق ہے اور اسی لیے صدر ٹرمپ کو امن کا نوبیل ایوارڈ کا حقدار قرار دینے میں پاکستان نے پہل کی تھی، اس بات کااعلان 20 جون کو کیا گیا تھا۔
نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار کے دستخط سے خط نوبیل کمیٹی کو بھیجا گیا تھا جس میں صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام دینے کی سفارش کی گئی تھی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائیڈ لائن پر اور بعد میں واشنگٹن میں وزیراعظم شہبازشریف کی امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی تھی، واشنگٹن ملاقات میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بھی موجود تھے، اس ملاقات میں وزیراعظم شہبازشریف نے صدر ٹرمپ کو امن کا پیامبر قراردیا تھا۔
پاکستان کے برعکس بھارت ہٹ دھرمی پر تلا ہوا ہے اور یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ صدر ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ رکوائی، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور انکی حکومت کے اس رویے پر اپوزیشن کانگریس طنز کے تیر چلارہی ہے جبکہ دوستی کے دعویدار مودی کی اس حرکت سے امریکی صدر مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔
صدر ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام ملنے کی حمایت کرنیوالوں میں پاکستان کے علاوہ بھی کئی ممالک شامل ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے جولائی میں وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی اور انہیں نامزدگی کا وہ خط پیش کیا تھا جو کہ اسرائیلی حکومت نے نوبیل امن کمیٹی کو بھیجا تھا۔
کمبوڈیا کے وزیراعظم ہان مینٹ نے 7 اگست کو اعلان کیا تھا کہ وہ بھی صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کیلئے نامزد کررہےہیں، کمبوڈیا کے لیڈر نے یہ اقدام کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے درمیان ہوئی 5روزہ جھڑپوں کے بعد جولائی میں جنگ بندی ممکن بنانے پر کیا تھا، اس لڑائی میں 40 افراد ہلاک اور 3 لاکھ بے گھر ہوئے تھے۔
کمبوڈیا کے اعلان کے ایک روز ہی بعد یعنی 8 اگست کو آرمینیا اور آذربائیجان نے بھی صدر ٹرمپ کیلئے اس ایوارڈ کی حمایت کردی تھی، دونوں ملکوں کے رہ نما وائٹ ہاؤس میں مدعو تھے جہاں انہوں نے طویل دوطرفہ تنازعہ ختم کرانے پر صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کا حقدار قرار دیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام نامزدگیوں کے باوجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا اس برس ایوارڈ ملنے میں ایک رکاوٹ ہے اور وہ یہ کہ نوبیل امن کا حقدار قرار دینے کی آخری تاریخ 31 جنوری تھی جو صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی روز بعد گزر چکی۔
تاہم اس قدر نامزدگیوں کا فائدہ یہ ضرور ہے کہ صدر ٹرمپ کو اس بار ایوارڈ نہ ملا تو اگلی باران کی قسمت جاگنے کے امکانات کہیں زیادہ روشن ہوں گے۔