Daily Roshni News

نوجوان شادی شدہ جوڑوں کے اندر یہ رجحان دیکھا ھے کہ۔۔۔

نوجوان شادی شدہ جوڑوں کے اندر یہ رجحان دیکھا ھے کہ۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )نوجوان شادی شدہ جوڑوں کے اندر یہ رجحان دیکھا ھے کہ وہ شروع میں دونوں خاندانوں کے درمیان بنا کر رکھنے، دونوں کے ساتھ مل جل کر چلنے کے خواہش مند ھوتے ہیں۔ خاص طور پہ جہاں ارینج میرج ھوتی ھے، وہاں ایسے نوجوان جوڑے جذباتی گھٹن بھی برداشت کرتے ہیں، اور اپنی پرائیویسی کی قربانی دینے پہ تیار ھوتے ہیں۔ مگر اپنے اردگرد، سب سے ذیادہ شرپسندی لڑکے کی ماں اور بڑی بہن یا چھوٹی غیر شادی شدہ بہنوں کی طرف سے دیکھنے کو ملی۔ لڑکا اگر “کماؤ پوت” ھے تو اس کی شادی کے بعد ماں اور بہنوں کی طرف سے possessiveness اور اجارہ داری کی خواہش بے قابو ھوتی دیکھی ھے۔

زارا نامی لڑکی کا قتل اس کنٹرول کی خواہش اور حسد کا کلائمیکس ھے۔ جو لوئیر مڈل کلاس اور مزدور طبقے کے نوجوان بیرون ملک کام کر رہے ہیں، اور پیچھے ان کی بیویاں ان کے ماں باپ، خاص طور ماں اور بہنوں کے ساتھ رہ رہی ہیں، ان سے پوچھیں کہ اپنی مرضی کی بہو اور بھابھی ولیمے کے دو ہفتے بعد کیسے اچانک “چڑیل” بن جاتی ہیں؟ وہ سارا دن یہاں محنت مزدوری کرتے ہیں، اور رات کو ماں اور بہنوں کے قصے سنتے ہیں، اور سٹریس ھوتے ہیں۔ نا ان کے پاس مالی وسائل ہیں کہ بیوی کو باہر بلا لیں، نا خاندان اور سماج کے سامنے اتنی جرات کہ بیوی کو الگ رکھیں! کیونکہ الگ رکھنے پہ الزام بیوی کے سر آتا ھے کہ کلموہی آئی اور ہمارا بیٹا/بھائی چھین کر لے گئی!

یہاں بے شمار کہانیاں ہیں، لوگوں کو پارکنگ لاٹس میں فون پہ روتے دیکھا ھے، ماں باپ کی فرمانبرداری میں اپنا گھر تباہ کرتے دیکھا ھے۔ راولپنڈی کا ایک کیس میرے پاس آیا۔ لڑکا باہر تھا، اس کی ماں نے طلاق دلوانے کیلئے، رات کو ایک بندہ سے کہا کہ ان کے گھر کی دیوار پھلانگے، اور پھر بھاگ جائے۔ جب وہ صحن میں اترا تو انہوں نے شور مچا دیا کہ ہماری بہو کے پیچھے اس کا “یار” آیا تھا! آپ مجھ سے اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن میں نے اپنے اردگرد بہت قریب سے دیکھا ھے کہ عموما بڑی عمر کی عورتیں فتنہ و فساد اور گھر برباد کرنے میں طاق ہیں! گھر کو محلاتی سیاست و سازشوں کا مرکز بنانے میں ان پھپھے کٹنیوں کا ہاتھ ھوتا ھے۔ اکثر مرد اس معاملے میں ان عورتوں کے مقابلے میں بے بس ہیں یا اس ٹریپ کا شکار ہیں کہ جی ماں باپ سب سے پہلے ہیں!

 ایک قریبی جاننے والی کا قصہ سنیے۔ پچھلی دو دہائیوں سے ملک سے باہر کما رہا ھے، میرا ہم عمر ھے، ماں نے پہلی شادی بھی اپنی مرضی سے کی، اور پھر طلاق کروا دی، پھر دوسری شادی بھی اپنی مرضی سے کروائی اور دوسری کو بھی سال پہلے طلاق دلوا دی۔ وجہ کیا ھے؟ مہینے کا ڈیڑھ دو لاکھ روپیہ! اس کی شادی شدہ بہن اپنے میاں اور بچوں کو لے کر ماں کے پاس رہتی ھے، ماں خود سر اور ضدی عورت ھے۔ بیٹا فرمانبرداری میں عقل سے پیدل! 40 سال کی عمر ھو گئی، پیچھےبھائی، دو بہنیں اور ان کے بچے تک پال رہا ھے اور حالات یہی بتا رہے ہیں کہ نا اس کا گھر بسنا ھے نا اس نے زندہ واپس گھر جانا ھے!

ایک اور لڑکے کی سنئیے! ماں نے اس کی اور اس کے باپ کی سنی ان سنی کر کے خود ہی اس کی منگنی اور پھر شادی بھی طے کر دی۔ اور شادی کے تین مہینے بعد اپنے بیٹے کو کہا کہ اپنی بیوی کو طلاق دو۔ اس نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی میری ضد ھے! انوکھی لاڈلی_____ کھیلن کو مانگے طلاق! جو لوگ یہاں مشترکہ خاندانی نظام کے فوائد پہ بات کرتے ہیں یا اپنی مثال دیتے ہیں، یا تو وہ انتہائی خوش قسمت ہیں کہ ایسے خاندان سے ہیں جہاں واقعی بہو کو پرائی بیٹی نہیں سمجھا جاتا یا پھر ان کو جوائنٹ فیملی میں بھی پرائیویسی کسی حد تک میسر ھے!

شادی کرنی ھے تو مرد کو “Mommy’s Boy” کے بجائے مرد بننا ھو گا۔ شادی اسی وقت کرے جب الگ رہنا افورڈ کر سکتا ھو، اور اس لڑکی کے ساتھ کرے جو مالی حالات کو سمجھ کر ساتھ چل سکے، بلکہ وقت آنے پہ معاونت بھی کر سکے۔ سب سے پہلی ترجیح شادی کی پلاننگ میں یہ رکھیں کہ کیا الگ رہنا افورڈ کر سکتے ہیں؟ یا اگر ایک چھت تلے رہنا ھے تو اپنی شادی شدہ زندگی کے اردگرد ایک دائرہ کھینچ سکتے ہیں کہ جس میں آپ کی ماں، بہنیں مداخلت نا کر سکیں؟ لڑکی بھی “پاپا کی پرنسز” کے بجائے شوہر کے ساتھ “پارٹنر” بننے پہ تیار ھے؟ لڑکیاں ویسے جذباتی اور حساس ھوتی ہیں، شروع میں اکثر شوہر کیلئے سب کچھ کرنے پہ تیار ھوتی ہیں (اگر لڑکی کی ماں فل ٹائم کنسلٹنٹ نا لگی ھو)، لیکن جب گھر میں لڑکے کی ماں اور بہنیں، حسد و سازش کی گیم ڈالتی ہیں، تو وہ بھی ضد میں آ جاتی ہیں۔

جو بیرون ملک ہیں اور بیویاں پاکستان میں ماں باپ کے حوالے ہیں، ان کیلئے واقعی ہی نفسیاتی و جذباتی کشمکش ھے، ان کے ریال، ڈالرز ہی ان کی قیمت و اوقات ہے، بس اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں۔ معاشرہ اس وقت جس پاتال میں گرا ھوا ھے، اس کا کریڈٹ کئی حوالوں سے بزرگ نسل کو جاتا ھے، ان کے معاملے میں حسن ظن کے ساتھ، ان کی کہانیوں اور قصوں کو ضرورت سے سنجیدہ نا لیں۔ خاص طور پہ ان عورتوں کو جن کے پاس کچھ کرنے کو نہیں اور ان کی ہر قسم کی ضروریات پوری ھو رہی ہیں۔

نوٹ: یہ پوسٹ ان کیلئے نہیں ھے جو جوائنٹ فیملی کے ثمرات سے لطف اندوز ھو رہے ہیں!

کیا آپ بھی ایسی کسی کہانی سے واقف ھیں

تو براۓ مہربانی سنا دیجۓ

منتخب

Loading