نومبراقبال کامہینہ
اقبال: زندگی اور جمال کا شاعر
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اقبال سے متعلق دنیا بھر کے جلیل القدر ادیبوں، شاعروں، مفکرین اور علماء کی ہزاروں کتابیں اور مقالات منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ زبان، زمان اور مکان کی تثلیث اقبال کے حق میں مکمل بے معنی ہے۔ کہنے والوں کا دعویٰ ہے کہ اقبال کائنات کا شاعر ہے اور اُن کی حجتِ تامہ اقبال کا دیوان ہے، جو ایسا نہیں کہتے اُن کی دلیل ہنوز منظرِ عام پر نہیں آ سکی۔ حالاں کہ اقبال کے ناقدین کم از کم اتنے تو ہیں جتنے کسی عالمی عظمت کو درکار ہوتے ہیں۔
جون ایلیا نے کہا: اقبال سے مکمل نظریاتی تضاد کے باوجود ، مجھے اگر عالمی ادب کے لیے اُردو سے دو نام دینے ہوں تو غالب اور اقبال کے نام دوں گا۔مشرق کا معاملہ تو یہ ہے کہ اقبال نے ترک، عرب، افغان، ایرانی، ہندی اور وسط ایشیائی قوموں میں سے جس کی بابت شعر کہا، اُنھوں نے اُن مصرعوں کو اپنی قومی زندگی کا سرنامہ بنا کر جبین پہ سجا لیا۔ ہم آغازِ مشرق میں کھڑے انور ابراہیم سے لے کر انتہائے مشرق میں بیٹھے طیب اردوان تک ہر ایک کی زبان سے اقبال کا ذکر سنتے ہیں، کیا کسی اور شاعر کو بھی یہ مقبولیت حاصل ہے؟
اقبال پہ عالمانہ بات کرنا میرا منصب نہیں ہے تاہم میں اقبال کواس وقت سے پڑھ رہا ہوں جب اُن کے اشعار کے لفظی معانی بھی پوری طرح سمجھ میں نہیں آتے تھے۔اتنی طویل وابستگی والے ایک عام قاری کے طور پر اقبال کی شاعری کے تین پہلو ایسے ہیں جن سے مجھے خصوصی اُنس ہے:1۔ جمالیات، 2۔موضوعات اور اسالیب کا تنوع، 3۔ اسلام پر غیر متزلزل ایمان۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال ایک نظریے کے شاعر ہیں، بلکہ دنیا کے اُن چند شاعروں میں سے ہیں جن کی شاعری اول تا آخر نظریے سے منسلک ہے۔ لیکن شاعر سب سے پہلے جمال کا پیمبر ہوتا ہے، اور اُس کے بوستانِ سخن پہ نگاہ ڈالنے والا معنی کی خوشبو سے بہت پہلے لفظوں کے”گل و نرگس و سوسن ونسترن“تلاش کرتا ہے۔شعر کو کچھ بھی بننے سے پہلے حُسن کے پیکر میں ڈھلنا ہوتا ہے۔ اس میزان پہ جب ہم شعرِ اقبال کو پرکھتے ہیں تو وہ اُردو شاعری کے نخلستان میں اپنے انوکھے جلال و جمال کے ساتھ یوں ایستادہ ہے جیسے آبِ روانِ کبیر کنارے قرطبہ کی جامع مسجد۔ اقبال نے جس لفظ کو چھوا وہ آسمان ہو گیا اور جو ترکیب ایجادکی تلمیح ہو گئی اور سینکڑوں ایسے مصرعے کہے جو ضرب المثل بن گئے۔ اُردو زبان کی ساخت اور تشکیل میں اقبال کے اثرات بہت سے اساتذہ اور اہلِ زبان شعرا سے زیادہ ہیں۔
اقبال نے سنگلاخ سے سنگلاخ تر موضوع پر سانس پھلا دینے والی بحروں میں شعر کہا اور اِس اعجاز کے ساتھ کہا کہ اس کے عارضِ جمال پہ ادنی حرف بھی نہیں آنے دیا۔ اُنھوں نے اول تا آخر شاعری کے گیسوؤں کو سنوارا ہے اور اُس میں لالہ و یاسمین ٹانکے ہیں۔ اُنھوں نے اپنے جذبات اور احساسات کو اِس صداقت اور ہنر کے ساتھ صرفِ سخن کیا کہ اُن کا نشاط و سرور والا شعر سن کر پر قلب و روح ووجد میں آجاتے ہیں اور جب وہ اپنا غم و اندوہ (جو دراصل ملت اور انسانیت کا غم و اندوہ ہوتا ہے) بیان کرتے ہیں تو اقبال کے اشکِ سحر گاہی قاری کے دل میں لہو کی بوندوں کی طرح ٹپکنے لگتے ہیں۔ فیض نے اقبال کی شاعری کے بارے میں کہا:
یہ گیت مثل شعلۂ جوالہ تند و تیز
اس کی لپک سے باد فنا کا جگر گداز
شاعر کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ صحیفہ کائنات میں بکھری ہوئی آیاتِ جمال کو اپنے دیوان میں جگہ دے۔ وہ کیسی شاعری ہو گی جو منظر کشی اور وصف بیانی سے عاری ہو! اِقبال کا معاملہ یہ ہے کہ مناظرِ فطرت کو اُن کے ہاں وہ مقام حاصل ہے جو عرب شاعر کے ہاں تشبیب کو حاصل تھا۔ اُنھوں نے اپنی متعدد بڑی نظموں کا آغاز ہی تصویر کشی سے کیا ہے۔ اور تصویر کشی بھی کیسی! ذرا” خضرِ راہ“ کا یہ شعر دیکھیے:
شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویرِ آب
اور ”ایک آرزو “کا یہ سادہ سا شعر دیکھیے:
پانی کو چھو رہی ہو، جُھک جُھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
اقبال کا موضوعاتی تنوع بہت قابلِ توجہ ہے۔ جس طرح پورا فلک آنکھ کے تِل میں آ جاتا ہے بالکل اسی طرح اقبال کے دیوان میں زندگی کے ہزاروں مظاہر سما گئے ہیں۔ صرف ظاہری موضوعات دیکھیے تو دینیات، سیاسیات، تاریخِ عالم اور فلسفے میں رجحان ساز شاعری کرنے والا شاعر رام جی، گرونانک، ہمالیہ اور جگنو کے بارے میں بھی شعر کہہ رہا ہے۔عرشِ معلی پہ خدا اور فرشتوں کی باتیں ہوں، عالمِ ملکوت میں جبریل و ابلیس کا مکالمہ ہو یا پھر پاتال میں ابلیس کی مجلسِ شوریٰ، اقبال کے مرغِ تخیل کی رسائی ہر جگہ ہے، وہ سب کی باتیں سن لیتے ہیں اور سب کے موقف کو اپنے شعر میں جگہ دیتے ہیں۔اقبال کا موضوعاتی تجربہ ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے، اور ہر موضوع کے مناسب اُسلوب بھی اُن کے ہاں ارزاں ہے۔ شکوہ، جوابِ شکوہ، طلوعِ اسلام ، ساقی نامہ،ابلیس کی مجلسِ شوری، ذوق و شوق اور مسجدِ قرطبہ، آپ کو ہر جگہ ایک نیا آہنگ اور منفر اسلوب ملے گا۔ اُس پہ طرہ یہ کہ اتنی عظیم نظمیں کہنے والا شاعر ایک چھے سات سالہ بچے کی سطح پہ آ کر یہ کہنے کی قدرت بھی رکھتا ہے:
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
اقبال کا ایمان، عشق اور اُن کا تہذیبی شعور نہ صرف یہ کہ غیر متزلزل اور اٹل ہے بلکہ وہ ”بانگِ درا“ سے ”ارمغانِ حجاز“ تک مسلسل ترقی کرتا جاتا ہے۔ اقبال جس شعری روایت کے امین ہیں وہ غزل کی روایت ہے، چناں چہ وہ نظم بھی کہیں گے تو اُس سے غزل کی مہک آئے گی، اور ایک خاص نوع کا انتشار اور فطری بے ترتیبی غزل کا لازمہ ہے لیکن اِس سب کے باوجود اقبال کے ہاں پورا تہذیبی پروجیکٹ موجود ہے۔ نظام اُن کے شعر کا جزوِ اعظم ہے۔ اقبال کی اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل سے جو امیدیں وابستہ ہیں وہ صرف شاعرانہ خواب نہیں بلکہ مضبوط استدلالی اساس پہ استوار ہیں۔ شاعر کے ضمیر پہ خدا، انسان اور تاریخ کا باہمی ربط روشن ہے، وہ عروج و زوال کے ضابطوں کو جانتا ہے اور قوموں کے مقدر کی بہت سی لکیریں اُس نے پڑھ رکھی ہیں۔
اقبال کی اسلام پسندی سطحی اور جذباتی نہیں ہے جس کی کوکھ سے قومی تعصب کے سوا کچھ جنم نہیں لیتا۔ اُن کے ہاں عقیدت کی فراوانی ضرور ہے اور ہونی بھی تھی مگر اتنی نہیں کہ روحِ اسلام سے شعوری وابستگی ہی کو زائل کر دے۔ اُن کی فکر کا منبع غارِ حرا ور مسجدِ نبوی ہے، اُن کا اصرار ہے کہ اُنھوں نے قرآن کےسوا ایک حرف نہیں کہا۔ وہی قرآن جو یا ایہا الناس اور یا بنی آدم جیسے آفاقی کلماتِ ندا کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اول درجے میں اقبال کا موضوع انسان اور انسانیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احمد فراز نے اقبال کو خطاب کرتے ہوئے کہا:
عروجِ عظمتِ آدم تھا مدعا تیرا
مگر یہ لوگ نقوشِ فنا ابھارتے ہیں
کس آسماں پہ ہے تو اے پیمبرِ مشرق!
زمیں کے زخم تجھے آج بھی پکارتے ہیں
ابو الحسین آزاد
#allamaiqbalpoetry #allamaiqbal #rumipoetry #iqbal #iqbalpoetry
![]()

