Daily Roshni News

نگاہوں کو زباں دل کو نظر دی جائے۔۔۔ تحریر۔۔۔۔نفیسہ شاکر

نگاہوں کو زباں دل کو نظر دی جائے

تحریر۔۔۔۔نفیسہ شاکر

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ نگاہوں کو زباں دل کو نظر دی جائے۔۔۔ تحریر۔۔۔۔نفیسہ شاکر)بڑھاپے کو ضعیفی سمجھا جاتا ہے جب کہ ہمارے سامنے ایسی مثالیں ہیں کہ جو لوگ اللہ کی محبت میں ، خدمت خلق یا کسی تعمیری مقصد کے تحت زندگی گزارتے ہیں، وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں، ضعیف نہیں ہوتے ۔ ضعف در اصل ارادہ کی کم زوری ہے۔

فطرت اور خوشی ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ہم فطرت میں موجود خوشی کی اہمیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس سے فطرت مغلوب ہو کر جبلت غالب ہو جاتی ہے۔ جبلت بیرونی عناصر سے مشروط ہے ، فطرت کا تعلق باطن سے ہے۔ ہم خوشی کو فطری عمل کے بجائے رد عمل کے طور پر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خوشی کسی عمل کے نتیجہ میں ملتی ہے جیسے ملازمت میں ترقی ، شادی ہونا، من پسند شے اور نتائج کا حصول یا مالی حیثیت میں اضافہ ہونا۔ تجربہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان چیزوں سے ملنے والی خوشی دھندلی یاد داشت بن جاتی ہے کیوں کہ یہ عمل نہیں ، رد عمل کے طور پر ملی ہے۔ اور یہ خوشی نہیں، خوشی کے پردہ میں دکھ اور تکلیف ہے جس کے لئے شاعر نے کہا ہے،

ہر خوشی اک وقفہ تیاری سامان غم

 ہر سکوں مہلت برائے امتحان و اضطراب

عمل میں خوشی پہلے ہے پھر دوسرے نتائج حاصل ہوتے ہیں جب کہ رد عمل میں دیگر عوامل کو اولیت اور خوشی کو ان کے نتائج سے منسلک کر کے ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ پہلا طریقہ پائیدار اور دوسرا نا پائیدار ہے۔ خوشی کو بنیاد بنا کر کام کیا جائے تو غیر مشروط خوشی حاصل ہوتی ہے کیوں کہ ذہن نتیجہ سے بے پروا ہو جاتا ہے۔ یہ مسرت ماند نہیں ہوتی ، ہمیشہ ساتھ رہتی ہے۔ بیرونی عناصر اس جذبہ کو کم یا زیادہ نہیں کر سکتے بلکہ غیر مشروط مسرت بیرونی عناصر پر محیط ہو جاتی ہے اور فرد ہر شے کو اندر کی آنکھ سے دیکھتا اور سکون محسوس کرتا ہے۔ فہم کا دائرہ وسیع ہونے سے خوشی جذب کرنے والی شے کے طور پر سامنے آتی ہے جو ہر شے میں جذب ہورہی ہے اور ہر شے کو اپنے اندر جذب کر رہی ہے۔

فطرت میں موجود خوشی کو سمجھا جائے تو معاشرہ میں رائج خوشی کی عمومی تعریف غیراہم ہو جاتی ہے کیوں کہ یہ توقعات ، لالچ اور تکلیف کی پیداوار ہے جو ہمیں عدم استحکام میں مبتلا کرتی ہے۔ جو لوگ دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق ان کی زندگی میں سے سکون نکل جاتا ہے۔ مال اور اولاد کی محبت فتنہ بن جاتی ہے۔

دستاویزی فلم ” دا سیکرٹ بہت مشہور ہوئی۔ یہ کشش کے قانون پر مبنی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ خیالات ہماری زندگی پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ بعد میں اس پر کتاب بھی لکھی گئی جس کا 50 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ دستاویزی فلم میں بتایا گیا ہے کہ آپ جس شے کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس کی تکرار شروع کر دیں، وہ شے کائنات میں جہاں ہے، آپ کی طرف کچھی چلی آتی ہے۔ البتہ فلم میں جن خواہشات کی عکس بندی کی گئی ہے، ان میں تقریباً سب مادی ہیں۔ بلا شبہ شے کے حصول میں کشش اور تکرار کا قانون اہم ہے لیکن جن چیزوں کی ہم تکرار کرتے ہیں وہ تغیر پذیر ہیں۔ تغیر کی حامل شے مستقل خوشی کیسے دے سکتی ہے؟

ہم خوش رہنا چاہتے ہیں اور خوشی کے پردہ میں ناخوشی اپناتے ہیں۔ ایسا معاشرہ جس کی بنیاد خوشی کا تعاقب کرنا ہو، کیا وہاں کوئی فرد سچی خوشی سے واقف ہو سکتا ہے۔؟ خوشی تو فطرت میں موجود ہے پھر تعاقب کرنا کیا ہے؟ ہم خوشی سے واقف نہیں اور ناخوشی کو خوشی سمجھتے ہیں ۔ ناخوشی وہ لبادہ ہے جس کے تار فرد کے اغراض سے بنے ہوئے ہیں ۔ جب تک مطلب حاصل ہورہا ہے، وہ شے اچھی ہے ، مطلب ختم ، شے کی اہمیت ختم ! جس کو ہم خوشی کہتے ہیں، وہ ہماری غرض ہے۔ خواہشات رکھنا غلط نہیں ہے، خواہشات میں خود غرضی شامل ہونا غلط ہے ۔

سمجھنا بہت اہم ہے کہ ہم خوشی کو عمل نہیں، ردعمل کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ جب کہ خوشی عمل اور ناخوشی رد عمل ہے ۔ عمل یہ ہے کہ قدرت کی طرف سے جو شے ملتی ہے اسے قبول کریں، اس سے قدرت کا عمل فرد کی رضا بن جاتا ہے۔

قدسی نفس خواتین و حضرات کے لئے ارشاد ہے، میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہوں اور ان کے کان، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں۔ پھر وہ میرے ذریعے سنتے ہیں ، میرے ذریعے دیکھتے ہیں اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ہیں۔“

حقیقی خوشی سے واقف ہونے کے لئے ہمیں مسئلہ کی بنیاد تک پہنچنا ہو گا یعنی ہماری سوچ ، جس کے تحت ہم حالات اور چیزوں کو دیکھتے ہیں ۔ زندگی خواہشات پر نہیں گزرتی ، اس کے اپنے مدارج اور تقاضے ہیں جس سے گزرنے کا ہر فرد پابند ہے۔ کوئی بوڑھا ہونا نہیں چاہتا لیکن بوڑھا ہو جاتا ہے۔ بڑھاپے کو ضعیفی سمجھا جاتا ہے جب کہ ہمارے سامنے ایسی مثالیں ہیں کہ جو لوگ اللہ کی محبت میں، خدمت خلق یا ۔ کسی تعمیری مقصد کے تحت زندگی گزارتے ہیں، وہ ڈ بوڑھے ہو جاتے ہیں، ضعیف نہیں ہوتے۔ ضعف و در اصل ارادہ کی کم زوری ہے۔ ذہن تھک جائے تو جسم تھک جاتا ہے۔ اگر روح سرشار ہو تو جسم کی تھکن کے با وجود آدمی تو انا اور جوان رہتا ہے۔ ادوار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو آدمی عمومی طور پر خوشی کو بچپن اور جوانی سے منسوب کرتا ہے۔ یہ تنگ نظری ہے۔ ہم غیر فطری اصولوں پر زندگی گزارتے ہیں اس لئے بڑھاپے میں ضعیف ہو جاتے ہیں۔ بڑھاپے میں بھی وہی روح فرد کے اندر موجود ہے جو جوانی اور بچپن میں ہے۔ ایسے لوگ ہیں جو بڑھاپے میں جوانوں سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ دراصل ہم فطرت کے برخلاف اصولوں پر عمل کر کے جسم کو نقصان پہنچاتے ہیں لیکن اپنے عمل کو برا سمجھنے کے بجائے بڑھاپے کو برا کہتے ہیں۔ لہذا خوشی کے لئے سوچ بدلنے اور چیزوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

گہرائی میں دیکھنے سے فہم میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ شے اندر ، باہر، ظاہر اور باطن پر مشتمل ہے۔ صرف اندر ظاہر دیکھ کر کیسے قیاس کر لیا جائے کہ وہ کیا ہے ؟ اندر دیکھنے سے باہر دیکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ کیا سمندرصرف سطح کا نام ہے۔؟ سمندر کے باطن میں ایک دنیا آباد ہے۔ اندر جانے والا پانی کو پھر الگ نظر سے دیکھتا ہے کیوں کہ پانی میں جب تک خدو خال ظاہر نہ ہوں، ڈائی مینشن مغلوب رہتی ہے۔ حقیقی خوشی اندر میں دیکھنا ہے، یہاں سے زندگی نیا موڑ لیتی ہے۔

موجودہ دور میں غیر مشروط خوشی کا تصور ناپید ہے کیوں کہ خوشی کو رد عمل سے جوڑا جاتا ہے جو زیادہ تر مادی یا معاشرتی مفاد سے متعلق ہوتا ہے۔

میں خوشی کو ویسے ڈھونڈتی تھی جیسے اردگرد موجود لوگ ڈھونڈتے ہیں یعنی مادی اشیا میں ۔ البتہ کیسا ہی بہترین لباس پہنا ، شان دار اور لذیذ کھانا کھایا یا کوئی کام یابی ملی، میرے اندر کمی اور کسی شے سے دوری کا احساس موجود تھا۔ تلاش نے راستہ دکھایا کہ میں اپنے اندر

اطمینان بڑھا کر اس کمی کو دور کرسکتی ہوں ۔

 غم سے غم ہو نہ خوشی سے ہو خوشی کا احساس

ایسی تدبیر بھی اے دل کوئی کر دی جائے

 تب کہیں جا کے ملے منزل عرفاں کا نشاں

 جب نگاہوں کو زباں دل کو نظر دی جائے

 ادھورے پن کا احساس انوکھا نہیں، سب اس سے گزرتے ہیں اور گزررہے ہیں مگر وجو ہات پر غور نہیں کرتے۔ ٹیکنالوجی میں جدت آنے سے دنیا سمٹ رہی ہے لیکن ہماری سوچ منتشر ہو رہی ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ ٹیکنالوجی میں جدت کے ساتھ ہمارے ذہن کی اپیس بھی وسیع ہو، اس کے برعکس یہ روز بروز تقسیم ہورہی ہے۔ ذہن کی اسپیس پر بنجر زمین کی مانند جگہ جگہ دراڑیں آگئی ہیں ، پانی خشک ہورہا ہے، پلیٹوں کی حرکت تیز ہوگئی ہے اور سطح کھل رہی ہے۔ زمین ذہن کی ہو یا فرش کی سیرابی کی ضرورت ہے اور سیرابی کا انحصار آسمان سے نازل ہونے والے پانی یعنی لاشعور کی اطلاع کو قبول کرنے پر ہے۔

ایک شخص سکون حاصل کرنے خانقاہ میں داخل ہوا۔ جانے کا وقت آیا تو خود کو پہلے سے بہتر ، پُر سکون اور مطمئن پایا مگر دل میں انجانی خلش موجود تھی۔

درویش نے کہا کہ تم چاہو تو جانے سے پہلے اپنی کیفیت کے بارے میں کسی سے بات کر سکتے ہو۔ اس شخص نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا، میں نے یہاں آپ سے بہتر کوئی طالب علم نہیں دیکھا۔ آپ استاد ہیں لیکن علم کی طلب میں مشغول رہتے ہیں۔ جانے سے پہلے میں جانا چاہتا ہوں کہ آپ سکون کیسے حاصل کرتے ہیں؟ درویش نے کہا، میں yes (ہاں) کہتا ہوں۔ جو حالات پیش آتے ہیں، میں ہمیشہ ”ہاں“ کہتا ہوں۔ اس شخص نے درویش کی آنکھوں میں غور سے اپنا عکس دیکھا اور سلام کر کے وہاں سے رخصت ہوا۔ اسے پرسکون رہنے کا قانون سمجھ میں آ گیا تھا۔

اولیاء اللہ خواتین میں سے ایک بی بی فاطمہ بنت المثنی ہیں ۔ وہ فرماتی ہیں ، لوگ اللہ کی محبت کا دعوی کرتے ہیں اور روتے پھرتے ہیں۔ اللہ کی قربت اور محبت یہ ہے کہ وہ جس حال میں رکھے، بندہ خوش رہے۔“ قدرت کی طرف سے ہمارے لئے جو مقرر ہے، بیش تر تکالیف اور زیادہ تر مصائب اس پر مزاحمت سے آتے ہیں۔ ہم زندگی سے لڑتے ہیں جب کہ زندگی ہماری دوست ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، “ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں کو ہم جانتے ہیں۔ ہم اس کی رگ جاں سے زیادہ اس سے قریب ہیں ۔ “ (ق: ۱۲) زندگی ہمیں جو کچھ پیش کرتی ہے، اگر ہمیں پسند نہیں تو ہم رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں نتیجہ میں تکلیف سے گزرتے ہیں۔ جب ہم زندگی کو ”ہاں“ کہنا سیکھ لیں گے ، خود کو قدرت کی رضا کے سپرد کریں گے اور کہیں گے کہ ٹھیک ہے ، ان حالات میں میرا رویہ کیا ہونا چاہئے تو یہ وہ مرحلہ ہے جب ہمیں اپنی سکت کا ادراک ہوتا ہے۔ خوشی کا راز راستہ کے مناظر قبول کرنے میں ہے۔ موسم خراب ہے، آپ اسے مسترد کر کے ذہن کو بوجھل کر سکتے ہیں، موسم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ موسم سے لڑیں نہیں، قبول کر لیں۔ زندگی رواں رہنے والی شے ہے،

اس کو روکنے کی کوشش مت کریں۔ مزاحمت سے تکلیف آپ کو نہوگی ، زندگی جاری رہے گی۔۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

Loading