Daily Roshni News

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )دنیا جانتی ہے کہ حضرت امیر خسرو رح اپنے شیخ حضرت خواجہ سید نظام الدین اولیاء محبوب الہی رح سے والہانہ محبت کرتے تھے اور جب کبھی خسرو اپنے شیخ کی زیارت کے لئے آتے تو گورنر ہونے کے باوجود ایک ہاتھ میں مٹھائی کی ٹوکری اور دوسرے ہاتھ میں پھولوں کی ڈالی تھامے سر بازار رقص کرتے ہوئے آتے  اسی بازار میں خسرو کے ایک بچپن کے ہندو دوست (ہردیو)  کی دکان تھی  یہ بچپن کا دوست خسرو کو رقص کرتے ہوئے دیکھ کر ہمیشہ خسرو کا مذاق اڑایا کرتا تھا مگر خسرو اس اس کے مذاق اور ٹھٹھہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے وخد اور مستی کے عالم میں گزر جایا کرتے تھے

ایک دن جب خسرو گزرے تو وہ ہندو دوست بہت پریشان بیٹھا تھا خسرو اس کے پاس آے اور پوچھا ہردیو میرے دوست آج تو نے میرا مذاق نہیں اڑایا کیا بات ہے دوست نے بتایا کہ وہ کچھ دنوں سے بہت پریشان ہے خسرو نے پوچھا کیا پریشانی ہے _ ہردیو بولا پریشانی نہیں بتاؤں گا میں آج تیرے شیخ کو آزماؤں گا اگر تیرے شیخ نے میرے نہ بتانے کے باوجود مجھے ترت مراد دے دی تو میں مسلمان ہو جاؤں گا اور مرید بھی ہو جاؤں گا خسرو نے کہا اے دوست تو بےشک مسلمان بھی نہ ہونا اور مرید بھی نہ ہونا   میرے ساتھ میرے شیخ کی بارگاہ اقدس میں حاضری دو میں یقین دلاتا ہوں کہ تمہاری پریشانی ضرور دور ہو جائے گی

جب اس ہندو دوست نے خسرو کے ہمراہ محبوب الہی کی قدم بوسی کی تو حضرت نے خسرو سے کہا پہلے اپنے دوست کو لنگر کھلاؤ پھر ہمارے پاس لانا – – لنگر سے فارغ ہو کر جب ہندو دوست خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا تو شیخ نے فرمایا اے ہردیو آج لنگر میں کوئی میٹھی چیز نہیں تھی آپ بازار سے حلوہ لے کر آؤ

ہردیو بازار حلوائی کے پاس پہنچا اور اسے حلوہ دینے کا کہا حلوائی نے ردی میں سے ایک کاغذ نکال کر اس میں حلوہ رکھنے کی کوشش کی تو ہردیو چلا اٹھا بھائی بھائی ٹھہرو یہ کاغذ مجھے دے دو  __ حلوائی نے وہ کاغذ ہردیو کو دے دیا اور حلوہ دوسرے کاغذ پر رکھ دیا

اب ہردیو نے ایک ہاتھ میں حلوہ اور دوسرے ہاتھ میں پھولوں کے ہار پکڑے اور خسرو کی طرح رقص کرتے ہوئے خانقاہ پہنچا

شیخ کے گلے میں ہار ڈال کر عرض کی حضور میرے باپ کی حویلی کی ملکیتی سند ( رجسٹری) گم ہو گئی تھی میں سخت پریشانی کے عالم میں کئی دنوں سے اپنے گھر میں ڈھونڈ رہا تھا مگر کسی کو بتاتا بھی نہیں تھا کہ اتنی بڑی جائداد کی ملکیت کہیں کھو نہ بیٹھوں

آپ نے اک پل میں مجھے ترت مراد دے دی اور ساری پریشانی دور فرما دی

حلوائی جس کاغذ پر حلوہ رکھنے لگا تھا وہ کاغذ میری حویلی کی سند تھی      حضرت محبوب الٰہی نے ہردیو کو مسلمان کر کے اس سے پوچھا کہ تو کیا بننا چاہتا ہے اس نئی زندگی میں؟  اس نو مسلم نے عجیب خواہش کا اظہار کر دیا   کہنے لگا حضور آپ محبوب الٰہی ہو میں آپ کی شان کے مطابق مانگوں گا آپ نے کہا دل کھول کر مانگو اس نو مسلم نے کہا میں ہندوستان کا بادشاہ بننا چاہتا ہوں    آپ نے اس کا نام ایاز احمد رکھتے ہوئے فرمایا پہلے آقا کے غلام بنو ایک دن آے گا کہ تم بادشاہ بھی بن جاؤ گے تاریخ گواہ ہے کہ وہ ایاز ہندوستان کا بادشاہ بنا    اور اسی نے کتاب نظامی بنسری لکھی جس میں یہ واقعہ درج ہے

اسی لیے حضرت علامہ اقبال لکھتے ہیں

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

Loading