نہلزم
تحریر۔۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ نہلزم۔۔۔ تحریر۔۔۔۔حمیراعلیم )چکوال کے پندرہ سالہ محمد شہیر مائرز کالج میں اے لیول کےذہین ترین اسٹوڈنٹ تھے جو نہ صرف پڑھائی میں ٹاپر تھے بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے والے شہیر کو ایسا کوئی دکھ یا تکلیف نہیں تھی جو انہیں اپنے ہاتھوں اپنی جان لینے پر مجبور کر دیتی اس کے باوجود انہوں نے خود کو گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کر لیا۔پولیس کے مطابق سی سی ٹی وی کی فوٹیج میں نہ تو کوئی گھر میں آتا دکھائی دیا نہ ہی باہر نکلتا۔والدین گھر سے باہر تھے جب وہ واپس آئے تو انہوں نے خون میں لت پت شہیر کی لاش پائی۔
شہیر کی موت نہ تو کسی گیم کی وجہ سے ہوئی نہ ہی سوشل میڈیاٹرینڈ کی وجہ سے۔اس کا ثبوت ان کا سوئیسائیڈ نوٹ ہے۔جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہلسٹ تھے۔
نہلزم لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کچھ نہیں۔انسانی فطرت ہے کہ وہ زندگی کے مقصد، حقیقت اورسچائی کی تلاش میں رہتا ہے۔یہی تلاش کبھی اسے رب تک پہنچا دیتی ہے تو کبھی اسے راہ سے اس قدر بھٹکا دیتی ہے کہ وہ اپنی جان تک لے لیتا ہے۔
نہلزم کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک طالب علم جو ہر روز محنت کرتا ہے لیکن بار بار ناکام ہو جاتا ہے، اکثر سوچتا ہے: “میری یہ محنت کس کام کی؟” یہی سوچ رفتہ رفتہ نہلزم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ایک شخص اگر سوچے کہ “سچ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں، سب جھوٹ بولتے ہیں۔” تو یہ اخلاقی نہلزم کی مثال ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ “زندگی کا کوئی مقصد نہیں” تو یہ وجودی نہلزم کہلاتا ہے۔
عموما نہلزم کی وجہ مذہب اور اقدار سے دور ہوتی ہے۔جیسا کہ مغربی ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ الحاد کا شکار ہو رہے ہیں۔سائنس اور انٹرنیٹ لوگوں کو زمین کے ساتھ ساتھ بلیک ہولز،اور دیگر سیاروں کا علم تو دیتے ہیں لیکن زندگی کے مقصد کے سوال پر خاموش ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شہیر جیسے غیر معمولی ذہین لوگ بے مقصدیت کا شکار ہو کر زندگی کو لاحاصل سمجھنے لگتے ہیں۔اور اس جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں کچھ ہالی وڈ فلمیں یا گانے جو زندگی کو صرف کھیل یاعارضی خوشی کے طور پر دکھاتے ہیں۔ نوجوان جب بار بار یہی دیکھتا ہے تو اس پر اثر ہوتا ہے۔
اس کی مثال روسی ادیب دوستووسکی کے ناول Notes from Underground میں ملتی ہے ۔جس کا مرکزی کردار سب کچھ فضول اور بیکار سمجھتا ہے۔روس کی دھرتی سے جہاں ٹالسٹائی، دوستووسکی، گورکی، شولوخوف نے “جنگ اور امن”، “جرم و سزا”، “ماں” اور “اور ڈان بہتا رہا” جیسے شہرہ آفاق ناول تخلیق کیے ۔وہاں ایوان تورگنیف نے “باپ اور بیٹے” جیسا ناول لکھا۔ تورگنیف نے اس ناول میں نہلزم کا پرچار ناول کے مرکزی کردار بازروف سے کروایا ہے۔ بازروف خود ایک طالب علم ہوتا ہے اور وہ اور اس کا ایک ساتھی نہلسٹس بن کر ہر قسم کے دنیاوی اصولوں، قوانین، رویات اور مذہبی عقائد کی نفی کرتے ہیں۔
نہلزم ایسا نظریہ ہے جس کے پرچارک اور پیروکار اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ زندگی بے معنی ہے، انسان کا ہونا یا نہ ہونا کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ تمام رشتے، جذبے، مذہبی عقائد، اخلاقی اقدار، روایتی اصول و ضوابط سب انسان کے ذہن کے گھڑے ہوئے تصورات ہیں جن کی حقیقت میں کوئی بنیاد ہی نہیں۔
نہلزم کے نتیجے میں بے ایمانی، خودکشی، تشدد ، ڈپریشن، بے مقصدیت وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔نتیجتا لوگ اپنی جان لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان مذہب کی طرف رجوع کرے۔اسلام دنیاوی زندگی کو کھیل تماشہ نہیں بلکہ اخروی زندگی کے لیے تیاری بتاتا ہے۔ بحیثیت مسلمان جب ہم قرآن پڑھ، سمجھ کر اس پر عمل کرتے ہیں تو زندگی کا مقصد مل جاتا ہے یعنی رب کی عبادت و اطاعت اور مخلوق کی خدمت۔کوئی نہ کوئی ایسا مشغلہ اختیار کرنا جس سے دوسروں کابھلا ہو ہمارے لیے بھی باعث سکون بنتا ہے۔جب بندہ رب کی اطاعت کرتا ہے تو اسے ذہنی، جسمانی، روحانی طاقت حاصل ہوتی ہے جیسے بلال رضی اللہ عنہ نے ظلم کی ہر شکل برداشت کی مگر ہمت نہیں ہاری۔یہ ایمان اور مقصدیت کی بہترین مثال ہے جو نہلزم کو شکست دیتی ہے۔
نہلزم انسان کو اندھیروں میں دھکیلتا ہے۔ مگر مذہب، اخلاق اور مقصدیت کی روشنی اسے اس بحران سے بچا سکتی ہے۔ ایک طالب علم جو امتحان میں فیل ہو گیا اگر وہ نہلزم کی سوچ اپنا لے تو سب کچھ چھوڑ دے گا۔ لیکن اگر وہ یہ سمجھے کہ یہ ناکامی ایک آزمائش ہے اور اس کے بعد کامیابی ممکن ہے تو وہ آگے بڑھتا ہے۔ یہی سوچ نہلزم اور ایمان کے درمیان فرق واضح کرتی ہے۔
اس کے علاج کے لیے Cognitive Behaviour Therapy (CBT) استعمال کی جاتی ہے۔ ایک شخص جو سوچتا ہے کہ “میری زندگی بیکار ہے۔” اسے تھراپسٹ مثبت عادات اپنانے پر آمادہ کرتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کا نظریہ بدل
جاتا ہے۔
بچوں کو گھر میں اتنا پیار اور اعتماد دیا جائے کہ وہ باہر کے مسائل والدین کےساتھ ڈسکس کر کے ان کا حل تلاش کر سکیں۔ان کے انٹرنیٹ کے استعمال اور دوستوں کے ساتھ گفتگو پر چیک رکھا جائے تاکہ اگر وہ کسی بھی خاص نظریے کا شکار ہو رہے ہوں تو ان کے ساتھ گفتگو کر کے انہیں مثبت اور تعمیری مواد دکھایا جائے ۔
آج کے جدید دور میں ہمیں فکری و عملی فتنوں کا سامنا ہے۔جو ہمارے اصولوں ، روحانی اقدار اور ایمان کو کمزور کرتے ہیں۔اور شک، اضطراب اور الحاد کی طرف لے جاتے ہیں۔اس سے بچاو کے لئے ہمیں اپنے بچوں کو ایسے نظریات کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے علمی و روحانی رہنمائی کرنی ہو گی۔دوسری صورت میں کئی شہیر نہ صرف اپنی پہچان بلکہ زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔