Daily Roshni News

نہ پُوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اُس کی

نہ پُوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اُس کی

 کہیں سرِ رہ گزار بیٹھا ستم کشِ انتظار ہو گا

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)شرح:یہ شعر اقبال کی داخلی کیفیت اور اُن کی روحانی بےقراری کو نہایت پُراثر انداز میں بیان کرتا ہے۔  اقبالؔ کا ٹھکانا نہ پوچھو، کیونکہ اس وقت وہی کیفیت اُن پر طاری ہے جو جستجو اور انتظار کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ ابھی وہ کسی قرار گاہ پر نہیں، بلکہ زندگی کے کارواں میں کہیں راستے کے کنارے بیٹھے ہیں۔ وہاں اُن کی حالت ایک ایسے مسافر کی سی ہے جو ستمِ انتظار سہ رہا ہے، اور جس کے دل میں منزل کی تڑپ اور آگہی کی پیاس ابھی باقی ہے۔

یہاں “ٹھکانا” محض جسمانی قیام گاہ نہیں، بلکہ روحانی سکون اور فکری قرار کا استعارہ ہے۔ اقبال اپنے فکر و شعور میں ایک ایسی منزل کے متلاشی ہیں جو ابھی پوری طرح روشن نہیں ہوئی۔ “ستم کشِ انتظار” اُن کے اندرونی کرب اور اُس بےچینی کی طرف اشارہ ہے جو بلند تر حقیقت کے حصول کے بغیر مٹ نہیں سکتی۔ اس میں اُس عظیم فلسفیانہ احساس کی جھلک ہے کہ اقبال ہمیشہ ایک ارتقائی سفر پر ہیں؛ اُن کی نظر ہر لمحہ ایک نئی منزل کی تلاش میں ہے، اور اسی تلاش میں وہ قرار کو بےقراری پر قربان کرتے ہیں۔

یوں یہ شعر ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اقبال کی شخصیت جامد نہیں بلکہ مسلسل حرکت، تلاش اور جستجو کی علامت ہے۔ وہ مسافرِ وقت ہیں جو “منزل” کو ابھی اپنے سامنے پھیلا ہوا دیکھ رہے ہیں، اور انتظار کا یہ کرب اُنہیں مزید آگے بڑھنے کی تحریک دیتا ہے۔

#Allamaiqbal  #state #condition

Loading