Daily Roshni News

نیدرلینڈز بہت ہی پیارا ملک ہے۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )نیدرلینڈز بہت ہی پیارا ملک ہے۔ جتنا پیارا ملک ہے اتنا ہی پیارا یہاں پر ہونیوالا یہ تجربہ تھا جس میں پورا شہر گھوم کر باہر نکل جانے کے بعد ایک ڈرائیور نے واپس شہر پہنچایا تھا۔

دراصل مجھے ایمسٹرڈیم شہر کے اندر ہی ایک اور سٹاپ پر جانا تھا گوگل کیا تو پتا چلا کہ جو ٹرین وہاں جا رہی ہے اس کی ٹکٹ سات یورو کی ہوگی۔ لیکن وہیں پر  ایک بس جو ذرا گھوم کر جائے گی وہ فقط نوے سینٹ میں پڑے گی۔

سو بس لی، اس نے شہر سے کئی کلومیٹر باہر اس نہر و نہر روڈ پر سفر شروع کر دیا۔

اتنی پیاری نہر دیکھ کر جہاں سکون ملنا شروع ہوا وہیں دل میں بے چینی بھی ہونا شروع ہوگئی کیونکہ جس سٹاپ پر جانا تھا وہاں سے اگلی منزل کے لئے بس فقط چالیس منٹ میں نکلنا تھی۔

ایک بس سے اتر کر دوسری کا انتظار کرنے کے لئے بس سٹاپ میں بیٹھ گئے لیکن وہ بیٹھنا مہنگا پڑ گیا کیونکہ نیدرلینڈ کے اصول کچھ ایسے ہیں کہ اگر سٹاپ پر کوئی بیٹھا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس بس میں نہیں بیٹھنے والا بلکہ اگلی کسی اور کا انتظار کر رہا ہے۔

اتنے میں مطلوبہ بس تیز رفتاری میں پاس سے گزر گئی اور میں کھڑا ہوا تو ڈرائیور نے سمائیل کے ساتھ گڈ کا اشارہ کیا۔ اس گڈ کا مطلب یہی سمجھ آیا کہ “ہور چوپو”مطلب اور بیٹھے رہو۔ اس سبق کے ملنے کے بعد اب کھڑے ہو کر انتظار شروع کر دیا۔

اگلی بس بہت رینڈم تھی اس کی منزل کا علم نہیں تھا۔ لیکن کھڑا دیکھ کر ڈرائیور رک گیا اور اس نے دروازہ کھولا، اور پوچھا کہاں جانا ہے؟ اس کو سٹاپ کا بتایا تو کہنے لگا میں نہیں جا رہا، پھر اس نے حتمی منزل کا پوچھا، اور اس کے بعد کہنے لگا تم نے غلطی کی ہے میٹرو پر ہی وہاں جانا چاہیے تھا۔

مجھے شرم آ رہی تھی کہ ڈرائیور نے میرے لئے بس میں بیٹھی سواریوں کو اتنا روکا ہوا تھا۔ وہ دو تین منٹ ایسے ہی گائیڈ کرتا رہا میں نے کہا سوری میں اتنی تکلیف دے رہا ہوں تو کہنے لگا بس میں بیٹھ جاؤ آگے جہاں اترنا ہوا میں خود بتاؤنگا تمہیں کوئی تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

آرام سے بیٹھ کر اسی نہر کنارے ایمسٹرڈیم سنٹرل سٹیشن کا سفر شروع کیا۔ یہ سفر بھی حسین تھا لیکن ٹینشن تھی کہ اگلی فلکس بس نا پکڑی گئی تو پلان وڑ سکتا ہے۔ لیکن اطمینان سے انتظار کیا۔ دس پندرہ منٹ کے بعد وہ سٹیشن آگیا جہاں اترنا تھا۔ یہ سنٹرل سٹیشن ہے۔ اتنا حسین کہ کوئی مثال نہیں سنٹرل سٹیشن کے سامنے جہاں ساحل ہے تو پیچھے تاریخی عمارتیں، یہ سٹیشن اپنی مثال آپ ہے۔

اس سٹئشن کے سامنے موجود ساحل پر آپ گھنٹوں ٹھنڈی ہوا میں بیٹھ کر نظاروں کے مزے لے سکتے ہیں۔ اور میں دراصل سب انجوائے کر چکا تھا اس لئے اب واپسی پر یہ ساحل بس پانی کا تالاب لگ رہا تھا۔ اب اس کو رخصت کرنا تھا۔

بس ڈرائیور نے بس روکی، مجھے اشارہ کیا کہ سامنے آؤ، ابھی اترنے ہی لگا تھا کہ اس نے پھر روکا اور کہنے لگا اس بار میٹرو پکڑو، بالکل ایک فلور نیچے ہوگی۔ اور یہ میٹرو سیدھا منزل پر پہنچا دے گی۔ اور کوئی اور سوال ہے تو بتا دو ورنہ گڈ بائے۔

میں نے اوکے کہا اور دل میں اوکے باس کہا اور اس کو گڈ بائے بولا اس نے بھی نیک تمنائیں دیں اور بس کو چلا کر آگے چل دیا۔

مجھے ڈرائیور کا یہ انداز بہت پیارا لگا کہ کیسے اس نے میری مدد کی خاطر بس روکی تھی اور کیسے اب ہر سٹیپ بتا کر رخصت کر رہا ہے۔ یورپئین اس معاملے میں بہت اچھے ہیں کہ اگر آپ کسی سے مدد مانگتے ہیں تو وہ اپنا وقت نکال کر آپ کو الف سے لے کر ی تک سب بات سمجھا کر ہی جاتا ہے اور اس کو یہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یوں آگے کا سفر جاری رہا۔

لیکن مجھے پھر بھی میٹرو کی چھ یورو والی ہی ٹکٹ لینا پڑی سو چھ بچاتے بچاتے سات لگا کر وہیں سے سفر دوبارہ شروع کر دیا۔ 

ضیغم قدیر

Loading