ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔واقعہ کربلا ۔۔۔تحریر۔۔۔حمیرا علیم )نوٹ:یہ تحریر میری کمپائل کی ہوئی ہے۔مختلف علماء کی آراء ہیں۔اس لیے اعتراض ہو تو ان کتب کو کھول کر پڑھیے۔قرآن مستند حدیث سے دلیل دیجئے ورنہ خاموش رہیے۔آپ مجھے گالیاں دے کر مجھ پر ذاتی حملے کر کے کچھ بھی نیا نہیں کریں گے۔نوح علیہ السلام سے لے کر نبیﷺ تک مخالفین، مشرکین نےیہی کیا ہے۔اگر مسلمان ہیں اور نبیﷺکے پیروکار ان کی آل کے محب توقرآن پر عمل کرتے ہوئے غوروفکر کر کر سمجھیے عمل کیجئے۔شکریہ
ماتم کرنے کا شرعی حکم ، ماتم کی ابتداء کب سے ہوئی
مصیبت پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اپنی مصیبت یا مصائب اہل بیت کو یاد کرکے ماتم کرنا یعنی ہائے ہائے، واویلا کرنا، چہرے یا سینے پر طمانچے مارنا، کپڑے پھاڑنا، بدن کو زخمی کرنا، نوحہ و جزع فزع کرنا، یہ باتیں خلاف صبر اور ناجائز و حرام ہیں۔ جب خود بخود دل پر رقت طاری ہوکر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں اور گریہ آجائے تو یہ رونا نہ صرف جائز بلکہ موجب رحمت و ثواب ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات بل احیاء ولٰکن لاتشعرون ۔ ترجمہ : اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں (سورۃ البقرہ آیت 154)
ماتم تو ہے ہی حرام، تین دن سے زیادہ سوگ کی بھی اجازت نہیں ہے۔
ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو فرماتے ہوئے سنا۔ “جو عورت اﷲ اور آخرت پر ایمان لائی ہو، اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ سوگ کرے۔ البتہ اپنے خاوند کی (موت پر) چار ماہ دس دن سوگ کرے۔”
بخاری حدیث 299، الکتاب الجنائز، مسلم، حدیث 935، مشکوٰۃ حدیث 3471 کتاب الجنائز
امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں : لیس لاحد ان یعداً اکثر من ثلاثۃ ایام الا المراۃ علی زوجہا حتی تنقضی عدتہا ۔ ترجمہ : کسی مسلمان کو کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا سوائے عورت کے کہ وہ عدت کے ختم ہونے تک اپنے خاوند کی موت پر سوگ کرسکتی ہے۔” (شیعہ کتاب من لایحضرہ الفقیہ ج 1)
اس حدیث سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے جو ہر سال امام حسین رضی اﷲ عنہ کا سوگ مناتے ہیں اور دس دن سینہ کوبی کرتی ہیں۔ چارپائی پر نہیں سوتے، اچھا لباس نہیں پہنتے اور کالے کپڑے پہنتے ہیں۔ ہاں ایصال ثواب کرنا ان کی یاد منانا اور ذکر اذکار جائز ہے، یہ سوگ نہیں ہے۔
عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ زینب بنت رسول اﷲﷺ فوت ہوئیں تو عورتیں رونے لگیں تو عمر رضی اﷲ عنہ نے انہیں کوڑے سے مارنے کا ارادہ کیا تو انہیں حضورﷺ نے اپنے ہاتھ سے ہٹایا اور فرمایا: اے عمر چھوڑو بھی پھر فرمایا: اے عورتوں شیطانی آواز سے پرہیز کرنا پھر فرمایا:
مہما یکن من القلب والعین فمن اﷲ عزوجل ومن الرحمۃ ومہما کان من الید واللسان فمن الشیطان ۔ ترجمہ : جس غم کا اظہار آنکھ اور دل سے ہو، وہ اﷲ کی طرف سے ہے اور رحمت ہے اور جو ہاتھ اور زبان سے ہو، وہ شیطان کی طرف سے ہے ۔”(مشکوٰۃ کتاب الجنائز باب البکاء علی المیت 1748) احمد حدیث 3093)
عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
لیس منا من ضرب الخد وشق الحیوب ودعا بدعوی الجاہلیۃ
وہ ہم میں سے نہیں جو منہ پیٹے، گریبان پھاڑے اور ایام جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے۔” (بخاری حدیث 1297، مسلم حدیث 103، مشکوٰۃ حدیث 1725، کتاب الجنائز باب البکاء،چشتی)
یعنی میت وغیرہ پر منہ پیٹنے، کپڑے پھاڑنے، رب تعالیٰ کی شکایت، بے صبری کرنے والی ہماری جماعت یا ہمارے طریقہ والوں سے نہیں ہے۔ یہ کام حرام ہیں۔ ان کاکرنے والا سخت مجرم۔ یہ عام میت کا حکم ہے لیکن شہید تو بحکم قرآن زندہ ہیں، انہیں پیٹنا تو اور زیادہ جہالت ہے۔
ابو مالک اشعری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
“میری امت میں زمانہ جاہلیت کی چار چیزیں ہیں جن کولوگ نہیں چھوڑیں گے، حسب و نسب پر فخر کرنا، دوسرے شخص کو نسب کا طعنہ دینا، ستاروں کو بارش کا سبب جاننا اور نوحہ کرنا اور نوحہ کرنے والی اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو اسے قیامت کے دن گندھک اور جرب کی قمیص پہنائی جائے گی۔” (مسلم حدیث 934، مشکوٰۃ حدیث 1727، کتاب الجنائز باب البکائ) (شیعوں کی معتبر کتاب، حیات القلوب، ملا باقر مجلسی جلد 2، ص 677)
میت کے سچے اوصاف بیان کرنا ندبہ ہے اور اس کے جھوٹے بیان کرنا نوحہ ہے۔ ندبہ جائز ہے نوحہ حرام ہے۔ گندھک میں آگ بہت جلد لگتی ہے اور سخت گرم بھی ہوتی ہے اور جرب وہ کپڑا ہے جو سخت خارش میں پہنایا جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے نائحہ پر اس دن خارش کا عذاب مسلط ہوگا کیونکہ وہ نوحہ کرکے لوگوں کے دل مجروح کرتی تھی تو قیامت کے دن اسے خارش سے زخمی کیا جائے گا۔ (مراۃ جلد 2، ص 503)
دو کفریہ کام
ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:اثنتان فی الناس ہما بہم کفر: الطعن فی النسب والنیاحۃ علی المیت ۔ ترجمہ : لوگوں میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ کفر میں مبتلا ہیں، کسی کے نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا۔” (مسلم حدیث 67، کتاب الایمان)
اس حدیث میں میت پر نوحہ کرنے کو کفر قرار دیا گیا ہے اور اس کی توجیہ یہ ہے کہ حلال سمجھ کر میت پر نوحہ کرنا کفر ہے اور اگر اس کام کو برا سمجھ کر کیا جائے تو یہ حرام ہے۔
دو ملعون آوازیں : انس رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:صوتان ملعونان فی الدنیا والاخرۃ مزمار عند نعمۃ ورنۃ عند مصیبۃ ۔ ترجمہ : دو آوازوں پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی ہے۔ نعمت کے وقت گانا بجانا اور مصیبت کےوقت چلا کر آواز بلند کرنا یعنی نوحہ اور ماتم وغیرہ۔” (بزار حدیث 795، ترغیب امام منذری کتاب الجنائز حدیث 5179)
ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: نوحہ کرنے والی عورتوں کی جہنم میں دو صفیں بنائی جائیں گی۔ ایک صف ان کے دائیں طرف اور ایک صف ان کے بائیں طرف تو وہ عورتیں دوزخیوں پر کتوں کی طرح بھونکیں گی۔” (طبرانی فی الاوسط ترغیب امام منذری کتاب الجنائز حدیث 5182،چشتی)
ماتم کی ابتداء کس نے کی تھی ؟ : سب سے پہلے ابلیس نے ماتم کیا تھا: علامہ شفیع بن صالح شیعی عالم لکھتے ہیں کہ شیطان کو بہشت سے نکالا گیا تو اس نے نوحہ (ماتم) کیا۔
حدیث پاک میں ہے کہ غناء ابلیس کا نوحہ ہے۔ یہ ماتم اس نے بہشت کی جدائی میں کیا۔ اور رسول اﷲﷺ نے فرمایا: ماتم کرنے والا کل قیامت کے دن کتے کی طرح آئے گا اور آپ نے یہ بھی فرمایا: کہ ماتم اور مرثیہ خوانی زنا کا منتر ہے۔” (شیعہ کی معتبر کتاب مجمع المعارف حاشیہ حلیۃ المتقین، ص 142، ص 162، اور حرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید)
امام حسین رضی اﷲ عنہ کا پہلا باقاعدہ ماتم کوفہ میں آپ کے قاتلوں نے کیا (جلاء الیون ص 424-426 مطبوعہ ایران)
پھر دمشق میں یزید نے اپنے گھر کی عورتوں سے تین روزہ ماتم کرایا۔ (جلاء العیون ص 445 مطبوعہ ایران)
ابن زیاد نے حسین رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو کوفہ کے بازاروں میں پھرایا۔ کوفہ کے شیعوں نے رو رو کر کہرام برپا کردیا۔ شیعوں کی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوفہ والوں کو روتا دیکھ کر سیدنا امام زین العابدین نے فرمایا:ان ہولاء یبکون علینا فمن قتلنا غیرہم ۔ ترجمہ : یہ سب خود ہی ہمارے قاتل ہیں اور خود ہی ہم پر رو رہے ہیں ۔(احتجاج طبرسی، جلد 2، ص 29)
سیدہ طاہرہ زینب نے فرمایا: کہ تم لوگ میرے بھائی کو روتے ہو؟ ایسا ہی سہی۔ روتے رہو، تمہیں روتے رہنے کی کھلی چھٹی ہے۔ کثرت سے رونا اور کم ہنسنا۔ یقینا تم رو کر اپنا کانا پن چھپا رہے ہو۔ جبکہ یہ بے عزتی تمہارا مقدر بن چکی ہے۔ تم آخری نبی کے لخت جگر کے قتل کا داغ آنسووں سے کیسے دھو سکتے ہو جو رسالت کا خزانہ ہے اور جنتی نوجوانوں کا سردار ہے۔ (احتجاج طبرسی ج 2، ص 30)
اسی طرح شیعہ کی کتاب مجالس المومنین میں لکھا ہے کہ کوفہ کے لوگ شیعہ تھے۔ (مجالس المومنین ج 1، ص 56،چشتی)
کیا شیعوں نے امام حسین رضی الله عنہ کو چھوڑ دیا تھا ؟ امام حسین رضی اﷲ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے فرمایا: کہ مجھے خبر ملی ہے کہ مسلم بن عقیل کو شہید کردیا گیا ہے اور شیعوں نے ہماری مدد سے ہاتھ اٹھالیا ہے جو چاہتا ہے ہم سے الگ ہوجائے، اس پر کوئی اعتراض نہیں ۔(جلاء العیون ص 421، مصنفہ ملا باقر مجلسی، منتہی الاعمال مصنفہ شیخ عباس قمی ص 238)
مذکورہ بالا خطبہ سے معلوم ہوگیا کہ قاتلان حسین شیعہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ علمائے شیعہ نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے۔ ملا خلیل قدوینی لکھتا ہے: ان کے (یعنی شہدائے کربلا کے) قتل ہونے کا باعث شیعہ امامیہ کا قصور ہے تقیہ سے۔ (صافی شرح اصول کافی)
ملا باقر مجلسی 150 خطوط کا مضمون بایں الفاظ تحریر کرتا ہے۔ ایں عریضہ ایست بخدمت جناب حسین بن علی از شیعان وفدویان و مخلصان آنحضرت)
ترجمہ: یہ عریضہ شیعوں فدیوں اور مخلصوں کی طرف سے بخدمت امام حسین بن علی رضی اﷲ عنہ۔ (جلاء العیون ص 358)
ان تمام بیانات سے معلوم ہوا کہ امام حسین کے قاتل بھی شیعہ تھے اور ماتم کی ابتداء کرنے والے بھی شیعہ تھے اور ان ماتم کرنے والوں میں یزید بھی شامل تھا۔ اب اگر امام حسین کے غم میں رونے یا ماتم کرنے سے بخشش ہوجاتی ہے تو بخشش کا سرٹیفکیٹ کوفیوں کو بھی مل جائے گا اور یزیدیوں کو بھی مل جائے گا۔
بارہ اماموں کے عہد تک موجودہ طرز ماتم کا یہ انداز روئے زمین پر کہیں موجود نہ تھا۔ چوتھی صدی ہجری 352ھ میں المطیع اﷲ عباسی حکمران کے ایک مشہور امیر معزالدولہ نے یہ طریق ماتم و بدعات عاشورہ ایجاد کیں۔ اور دس محرم کو بازار بند کرکے ماتم کرنے اور منہ پر طمانچے مارنے کا حکم دیا اور شیعہ کی خواتین کو چہرہ پر کالک ملنے، سینہ کوبی اور نوحہ کرنے کا حکم دیا۔ اہل سنت ان کو منع کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے، اس لئے کہ حکمران شیعہ تھا۔ (شیعوں کی کتاب منتہی الاعمال، ج 1، ص 452، اور اہلسنت کی کتاب، البدایہ والنہایہ، ج 11، ص 243، تاریخ الخلفاء ص 378)
بے صبری کا انجام کتب شیعہ کی روشنی میں : علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:
ینزل الصبر علی قدر المصیبۃ ومن ضرب یدہ علی فخذیہ عند مصیبۃ حبط عملہ ۔
ترجمہ : صبر کا نزول مصیبت کی مقدار پر ہوتا ہے (یعنی جتنی بڑی مصیبت اتنا بڑا صبر درکار ہوتا ہے) جس نے بوقت مصیبت اپنے رانوں پر ہاتھ مارے تو اس کے تمام اچھے اعمال ضائع ہوگئے۔ (شیعوں کی معتبر کتاب، نہج البلاغہ، ص 495، باب المختار من حکم امیر المومنین حکم 144) (شرح نہج البلاغہ لابن میثم ج 5، ص 588)
بے صبر کے پاس ایمان نہیں : امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ نے فرمایا : الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد ولاایمان لمن لا صبر لہ ۔ ترجمہ : صبر کا مقام ایمان میں ایساہے جیسا کہ سر کاآدمی کے جسم میں، اس کے پاس ایمان نہیں جس کے ہاں صبر نہیں ۔(جامع الاخبار مصنفہ شیخ صدوق، ص 132 الفصل 71، فی الصبر)
فرمان امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ : الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد فاذا ذہب الراس ذہب الجسد کذالک اذا ذہب الصبر ذہب الایمان ۔ ترجمہ : صبر کا ایمان سے ایسا تعلق ہے جیسا کہ جسم انسانی کے ساتھ سر کا، جب سر نہ رہے، جسم نہیں رہتا، اسی طرح جب صبر نہ رہے، ایمان نہیں رہتا۔ (اصول کافی جلد 2، ص 87، کتاب الایمان والکفر باب الصبر)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
عن ابی عبداﷲ علیہ السلام قال قال رسول اﷲﷺ ضرب المسلم یدہ علی فخذہ عند المصیبۃ احباط لاجرہ ۔ ترجمہ : امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنے ہاتھ رانوں پر مارنا اس کے اجر وثواب کو ضائع کردیتا ہے۔ یعنی ماتم سے نیکیاں برباد ہوتی ہیں۔ (فروع کافی جلد سوم، کتاب الجنائز باب الصبر والجزع)
کسی کا بھی ماتم جائز نہیں : نبی کریمﷺ نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو فرمایا ۔ اذا انامت فلا تخمشی علی وجہا ولاتنشری علی شعراً ولا تنادی بالویل والعویل ولاتقیمی علی نائحۃ ۔
ترجمہ : بیٹی جب میں انتقال کرجاوں تو میری وفات پر اپنا منہ نہ پیٹنا، اپنے بال نہ کھولنا اور ویل عویل نہ کرنا اور نہ ہی مجھ پر نوحہ کرنا ۔(فروع کافی، جلد 5، ص 527، کتاب النکاح باب صفۃ مبایعۃ النبیﷺ، حیات القلوب، ج 2،ص 687، جلاء العیون ص 65)
نبی کریمﷺ کی وفات پر علی رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا : لولا انک امرت بالصبر ونہیت عن الجزع لانفدنا علیک ماء الشئون ۔
ترجمہ : یارسول اﷲ! اگر آپ نے ہمیں صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور ماتم کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ کا ماتم کرکے آنکھوں اور دماغ کا پانی خشک کردیتے۔ (شرح نہج البلاغہ لابن میثم شیعہ، ج 4، ص 409، مطبوعہ قدیم ایران،چشتی)
کربلا میں امام حسین رضی اﷲ عنہ کی اپنی بہن کو وصیت : یااختاہ اتقی اﷲ وتعزی بعزاء اﷲ واعلمی ان اہل الارض یموتون واہل السماء لایبقون جدی خیر منی وابی خیر منی وامی خیر منی واخی خیر منی ولی ولکل مسلم برسول اﷲﷺ اسوۃ فعزاً مابہذا ونحوہ وقال لہا یا اخیۃ انی اقسمت علیک فابری قسمی لاتشقی علی جیباً ولا تخمشی علی وجہا ولاتدعی علی بالویل والثبور اذا اناہلکت
ترجمہ : امام حسین رضی اﷲ عنہ نے کربلا میں اپنی بہن سیدہ زینب کو وصیت کی فرمایا۔ اے پیاری بہن! اﷲ سے ڈرنا اور اﷲ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تعزیت کرنا، خوب سمجھ لو۔ تمام اہل زمین مرجائیں گے اہل آسمان باقی نہ رہیں گے، میرے نانا، میرے بابا، میری والدہ اور میرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے۔ میرے اور ہر مسلمان کے لئے رسول اﷲﷺ کی زندگی اورآپ کی ہدایات بہترین نمونہ ہیں۔ تو انہی کے طریقہ کے مطابق تعزیت کرنا اور فرمایا: اے ماں جائی میں تجھے قسم دلاتا ہوں۔ میری قسم کی لاج رکھتے ہوئے اسے پورا کر دکھانا۔ میرے مرنے پر اپنا گریبان نہ پھاڑنا اور میری موت پر اپنے چہرہ کو نہ خراشنا اور نہ ہی ہلاکت اور بربادی کے الفاظ بولنا۔ (الارشاد للشیخ مفید ص 232، فی مکالمۃ الحسین مع اختہ زینب، اعلام الوریٰ ص 236 امرالامام اختہ زینب بالصبر، جلاء العیون جلد 2، ص 553 فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران، اخبار ماتم ص 399)
ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں: کہ امام حسین نے میدان کربلا میں جانے سے پہلے اپنی بہن زینب کو وصیت فرمائی، اے میری معزز! بہن میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں اہل جفا کی تلوار سے عالم بقاء میں رحلت کرجاوں تو گریبان چاک نہ کرنا، چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور واویلا نہ کرنا ۔(جلاء العیون جلد 2، ص 553، فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران)
شاعر نے امام حسین رضی اﷲ عنہ کی وصیت کو اپنے انداز میں پیش کیا :اﷲ کو سونپا تمہیں اے زینب و کلثوم
لگ جائو گلے تم سے بچھڑتا ہے یہ مظلوم
اب جاتے ہی خنجر سے کٹے گا میرا یہ حلقوم
ہے صبر کا اماں کے طریقہ تمہیں معلوم
مجبور ہیں ناچار ہیں مرضی خدا سے
بھائی تو نہیں جی اٹھنے کا فریاد وبکاء سے
جس وقت مجھے ذبح کرے فرقہ ناری
رونا نہ آئے نہ آواز تمہاری
بے صبروں کا شیوہ ہے بہت گریہ و زاری
جو کرتے ہیں صبر ان کی خدا کرتا ہے یاری
ہو لاکھ ستم رکھیو نظر اپنے خدا پر
اس ظلم کا انصاف ہے اب روز جزاء پر۔
قبر میں ماتمی کا منہ قبلہ کی سمت سے پھیر دیا جائے گا : ایک روایت میں ہے رسول اﷲﷺ نے فرمایا: کہ سات آدمیوں کا قبر میں منہ قبلہ کی طرف سے پھیر دیا جاتا ہے۔ شراب بیچنے والا، شراب لگاتار پینے والا، ناحق گواہی دینے والا،جوا باز،سود خور، والدین کا نافرمان،ماتم کرنے والا۔ (شیعہ کی معتبر کتاب، مجمع المعارف حاشیہ برحلیۃ المتقین ص 168، درحرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید)(ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
گانا گانے والے اور مرثیہ خواں کو قبر سے اندھا اور گونگا کرکے اٹھایا جائے گا : رسول اﷲﷺ سے منقول ہے کہ غنا کرنے والا اور مرثیہ خواں کو قبر سے زانی کی طرح اندھا اور گونگا کرکے اٹھایا جائے گا۔ اور کوئی گانے والا جب مرثیہ خوانی کے لئے آواز بلند کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ دو شیطان اس کی طرف بھیج دیتا ہے جو اس کے کندھے پر سوار ہوجاتے ہیں۔ وہ دونوں اپنے پاوں کی ایڑھیاں اس کی چھاتی اور پشت پر اس وقت تک مارتے رہتے ہیں۔ جب تک وہ نوحہ خوانی ترک نہ کرے ۔(شیعہ کی معتبر کتاب: مجمع المعارف حاشیہ برحلیۃ المتقین ص 163، درحرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید)
حضورﷺ نے فرمایا: میں نے ایک عورت کتے کی شکل میں دیکھی۔ کہ فرشتے اس کی دبر (پاخانے کی جگہ) سے آگ داخل کرتے ہیں اور منہ سے آگ باہر آجاتی ہے۔ اور فرشتے گرزوں کے ساتھ اس کے سر اور بدن کو مارتے ہیں۔ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے پوچھا۔ میرے بزرگوار ابا جان مجھے بتلایئے کہ ان عورتوں کا دنیا میں کیا عمل اور عادت تھی کہ اﷲ تعالیٰ نے ان پر اس قسم کا عذاب مسلط کردیا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: کہ وہ عورت جو کتے کی شکل میں تھی اور فرشتے اس کی دبر میں آگ جھونک رہے تھے۔ وہ مرثیہ خواں، نوحہ کرنے والی اور حسد کرنے والی تھی۔ (شیعہ کی معتبر کتاب، حیات القلوب جلد 2، ص 543، باب بست و چہارم در معراج آنحضرت، عیون اخبار الرضا جلد 2، ص 11، انوار نعمانیہ جلد 1، ص 216)
کیا ماتم سننے کی بھی ممانعت ہے؟
نہ صرف ماتم کرنے بلکہ سننے کی بھی ممانعت ہے : ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ : لعن رسول اﷲﷺ النائحۃ والمستمعۃ
رسول اﷲﷺ نے نوحہ کرنے والی اور سننے والی پر لعنت فرمائی۔ (ابو دائود حدیث 3128، مشکوٰۃ حدیث 732، کتاب الجنائز باب البکائ)
کیونکہ اکثر عورتیں ہی نوحہ کرتی ہیں اس لئے مونث کا صیغہ استعمال فرمایا تو جو مرد ہوکر نوحہ کرے تو وہ مرد نہیں زنانہ ہے۔
شیعہ حضرات کے شیخ صدوق نقل کرتے ہیں : نہی رسول اﷲ عن الرنۃ عند المصیبۃ ونہی عن النیاحۃ والاستماع الیہا ۔ ترجمہ : رسول اﷲﷺ نے بوقت مصیبت بلند آواز سے چلانے، نوحہ و ماتم کرنے اور سننے سے منع فرمایا۔ (من لایحضرہ الفقیہ ج 4، ص 3)
شیعہ کی ماتم کے متعلق دلیل : فرشتوں نے
ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی بشارت دی۔فاقبلت امراتہ فی صرۃ فصکت وجہہا ۔ ترجمہ : آپ کی بیوی چلانے لگیں، پس اپنا منہ پیٹ لیا۔ (شیعہ ترجمہ) معلوم ہوا کہ ماتم کرنا سارہ علیہ السلام کی سنت ہے۔
اس کا جواب : کوئی شیعہ اس آیت سے سارہ علیہا السلام کا ماتم کے لئے پیٹنا ہرگز ثابت نہیں کرسکتا کیونکہ قدیم ترین شیعہ مفسر علامہ قمی کے مطابق مصکت پیٹنے کے معنی میں نہیں ہے۔ غطت ڈھانپنے کے معنی میں ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ سارہ عورتوں کی جماعت میں آئیں اور حیا سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا کیونکہ جبریل علیہ السلام نے انہیں اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تھی۔ (تفسیر قمی ج 2، ص 330،چشتی)
اگر اب بھی تسلی نہ ہوئی تو شیعہ صاحبان کو چاہئے کہ ماتم شہداء کی بجائے بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری سن کر کرنا چاہئے تاکہ اپنے خیال کے مطابق سنت سارہ پر عمل پیرا ہوسکیں۔ اہل بیت کرام نے رسول اﷲﷺ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے صبر کا مظاہرہ فرمایا۔ نہ خود ماتم کیا اور نہ کرنے کا حکم دیا اور ہم محب اہل بیت ہیں اور ان کے قول و فعل کو اپناتے ہوئے صبر کا اظہار کرتے ہیں اور جو رسول اﷲﷺ اور ائمہ کرام کے فرمان کو نہ مانے اور بے صبری کا مظاہرہ کرے وہ محب اہل بیت نہیں ہوسکتا ۔
عشرہ محرم میں سیاہ لباس پہننا اور مہندی، پنجہ، گھوڑا اور تعزیہ نکالنے کا شرعی حکم : مہندی، پنجہ، گھوڑا ار تعزیہ نکالنا یزیدیوں کے کرتوتوں کی نقل ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ کربلا میں قاسم بن حسن رضی اﷲ عنہ کی شادی ہوئی تو قاسم نے مہندی لگائی مروجہ رسم مہندی نکالنے کی اسی کی نقل ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت مخفی نہیں کہ کربلا کا معرکہ خونی شادی کا موقع ہرگز نہ ہوسکتا تھا۔ نیز مہندی پانی میں ملا کر لگائی جاتی ہے اور اہل بیت کے لئے تو پانی بند تھا۔ یونہی پنجہ و گھوڑا نکالنا اور مروجہ تعزیہ بنانا یہ سب بدعت باطلہ اور انصاب میں داخل ہیں۔ ائمہ اہل بیت سے ان چیزوں کی قطعا کوئی سند نہیں ملتی۔ فی الحقیقت یزیدیوں نے صرف ایک دفعہ اہل بیت پر مظالم ڈھا کر کوفہ و دمشق کے بازاروں میں گھمایا تھا لیکن یہ لوگ ہر سال یزیدیوں کے کرتوتوں کی نقل بناکے گلی کوچوں میں گھماتے پھرتے ہیں۔ پھر اس پر دعوت محبت بھی۔ اﷲ ہدایت دے۔
عشرہ محرم میں سیاہ لباس پہننا ممنوع ہے : مذہب مہذب اہل سنت و جماعت میں علی العموم سیاہ لباس پہننا محض مباح ہے۔ نہ تو اس پر کسی قسم کا ثواب مرتب ہوتا ہے، نہ گناہ۔ البتہ ماتم کی غرض سے سیاہ کپڑے پہننا شرعا ضرور ممنوع ہے۔ شیعہ اثناء عشریہ کے مذہب میں ماتم کا موقع ہو یا نہ، ہر حال میں سیاہ لباس سخت گناہ و ممنوع و حرام ہے۔ پھر اسے ثواب جاننا بالکل الٹی گنگا بہانا اور شیعہ مذہب کے مطابق ڈبل گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ چنانچہ شیعہ لٹریچر کی انتہائی مستند کتب سے دلائل ملاحظہ ہوں۔
” علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا : لا تلبسوا لباس اعدائی ۔ ترجمہ : میرے دشمنوں کا لباس مت پہنو اور میرے دشمنوں کے کھانے مت کھاو اور میرے دشمنوں کی راہوں پر مت چلو، کیونکہ پھر تم بھی میرے دشمن بن جاو گے جیسا کہ وہ میرے دشمن ہیں۔” اس کتاب کا مصنف (شیخ صدوق شیعی) کہتا ہے کہ رسول اﷲﷺ کے دشمنوں کا لباس، سیاہ لباس ہے ۔ (شیعہ کتب عیون اخبار الرضا، شیخ صدوق باب 30، الاخبار المنشور حدیث 51)
شیعہ حضرات کے یہی صدوق رقم طراز ہیں : علی رضی اﷲ عنہ نے اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : لا تلبسوا السواد فانہ لباس فرعون ۔ ترجمہ : سیاہ لباس نہ پہنا کرو کیونکہ سیاہ لباس فرعون کا لباس ہے۔ “(من لایحضرہ الفقیہ، شیخ صدوق باب یصلی فیہ من الثیلب حدیث 17)
مشہور شیعہ محدث جعفر محمد بن یعقوب کلینی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ : امام جعفر صادق نے فرمایا : انہ لباس اہل النار ۔ ترجمہ : بے شک وہ (سیاہ لباس) جہنمیوں کا لباس ہے۔ (الکافی کلینی کتاب الزی والتجمیل باب لباس السواد)
شیعوں کے مشہور محدث شیخ صدوق لکھتے ہیں کہ امام جعفر صادق سے سیاہ ٹوپی پہن کر نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا:لاتصل فیہا فانہا لباس اہل النار ۔ ترجمہ : سیاہ ٹوپی میں نماز مت پڑھو بے شک وہ (سیاہ لباس) جہنمیوں کا لباس ہے۔ (من لایحضرہ الفقیہ باب ما یصلی فیہ حدیث 19765، حلیۃ المتقین ملا باقر مجلسی باب اول در لباس پوشیدن فصل چہارم در بیان رنگہائے،چشتی)
کربلا جانے والے اہل بیت کی تعداد : امام حسین کے تین صاحبزادے :علی اوسط امام زین العابدین (، علی اکبر ، علی اصغر رضی اﷲ عنہم۔ اور ایک بیٹی سکینہ رضی اللہ عنہاجن کی عمر سات سال تھی۔ دو بیویاں بھی ہمراہ تھیں شہربانو اور علی اصغر کی والدہ۔ امام حسن کے چار صاحبزادے : قاسم ، عبداﷲ ، ابوبکر ، عمر رضی اﷲ عنہم کربلا میں شہید ہوئے۔ علی رضی اﷲ عنہ کے پانچ بیٹے عباس ،عثمان،عبداﷲ ، جعفر ، محمد اصغر (ابوبکر) رضی اﷲ عنہم
علی کی کل اولاد (۲۷) ہیں، ان میں سے پانچ کربلا میں شہید ہوئے ۔
(کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ 440/1)
عقیل رضی اللہ عنہ کے (۴) فرزندوں سے امام مسلم پہلے ہی شہید ہوچکے تھے۔ اور تین کربلا میں شہید ہوئے ۔ عبداﷲ ، عبدالرحمن ، جعفر رضی اﷲ عنہم۔
زینب امام حسین کی بہن کے دو بیٹے عون اور محمد رضی اﷲ عنہم ۔ان کے والد کا نام عبداﷲ بن جعفر رضی اﷲ عنہ کربلا میں شہید ہوئے۔ اہل بیت کرام میں سے کل سترہ افراد آپ کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے۔ (سوانح کربلا، طبری خطبات محرم جلال الدین امجدی، ص 378)
شیعہ نہ اہل بیت کو مانتے ہیں اور نہ شہداء کربلا کو، امام حسن کے صرف ایک بیٹے قاسم کا نام لیتے ہیں۔ عبداﷲ، ابوبکر اور عمر رضی اﷲ عنہم تین کا نام نہیں لیتے۔کیونکہ وہ ان تین کے نام والے صحابہ کرام سے بغض رکھتے ہیں۔جب کہ علی رضی اللہ عنہ ایسا نہیں کرتے تھے تبھی ان کے بچوں کے نام صحابہ کے ناموں پر ہیں ۔
اگر شیعہ شہداء کربلا کا نام لے لیں تو ان کا عقیدہ ختم ہوجاتا ہے کہ اہل بیت کا صحابہ کرام سے پیار تھا۔ اس لئے انہوں نے اپنی اولاد کے نام خلفائے راشدین کے نام پر رکھے۔ اہل سنت چاروں کا نام لیتے تو حقیقت میں شہداء کربلا کو ماننے والے سنی ہیں، شیعہ ان کے منکر ہیں۔
شیعہ علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کے بھی منکر ہیں۔ پانچ شہداء کربلا میں صرف ایک کا نام لیتے ہیں۔ عباس، ان کا علم بھی لگاتے ہیں، باقی چار کا نام تک نہیں لیتے حالانکہ عباس، عثمان، عبداﷲ اور جعفر کے سگے بھائی ہیں۔ ان کی والدہ کا نام ام البنین بنت حرام ہے اور محمد اصغر (ابوبکر) بن علی کا نام بھی نہیں لیتے ان کی والدہ کا نام لیلی بنت مسعود تھا۔ تو شہداء کربلا اور اہل بیت کا منکر کون اور محب کون؟
شیعہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد کو امام مانتے ہیں جو کربلا میں شہید بھی نہیں ہوئے اور آپ کے سگے بھائی امام حسن رضی اللہ عنہ اولاد کو امام نہیں مانتے جو کربلا میں شہید ہوئے ہیں۔ کتنی ناانصافی ہے اور علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کو بھی امام نہیں مانتے جو کربلا میں شہید ہوئے ہیں۔
اہل بیت کی تین قسمیں ہیں (۱) اہل بیت سکونت یعنی ازواج (۲) اہل بیت ولادت (۳) اہل بیت نسب پہلی قسم اہل بیت سکونت یعنی (۱۱) ازواج میں سے صرف ایک زوجہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو مانتے ہیں۔ باقی سب کا انکار کرتے ہیں بلکہ ان کو گالیاں دیتے ہیں حالانکہ قرآن نے ان کو اہل بیت اور مومنوں کی ماں فرمایا ہے۔ اہل سنت سب کو مانتے ہیں۔
دوسری قسم اہل بیت ولادت چار بیٹیوں میں سے صرف ایک بیٹی کو مانتے ہیں لہذا اہل بیت کے منکر ہوئے بلکہ یہ علی رضی اللہ عنہ کی بیویوں کے بھی منکر ہیں۔ ان کی ایک بیوی کا نام امامہ تھا۔ یہ نبی کریمﷺ کی نواسی تھیں۔ زینب رضی اللہ عنہ کی بیٹی اگر نبی کریمﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی تھی۔ فاطمہ رضی الله عنہا پھر علی رضی اللہ عنہ بیوی امامہ بنت زینب بنت رسول اﷲ کہاں سے آگئیں۔ معلوم ہوا کہ اہل سنت ہی اہل بیت اور شہداء کربلا کے محب ہیں ۔