والد بچوں کے لئے مضبوط حصار
تحریر۔۔۔مشکور الرحمنٰ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ والد بچوں کے لئے مضبوط حصار۔۔۔ تحریر۔۔۔مشکور الرحمنٰ)جہاز بادلوں میں پرواز کر رہا تھا، اچانک اس کا توازن بگڑا اور وہ بری طرح ڈگمگانے لگا۔
ہر مسافر خوف زدہ تھا، سب نے مختلف آیات کا ورد شروع کر دیا، چیخنے چلانے لگے۔ مگر ایک چھوٹا سا بچہ نہایت اطمینان سے، اپنے کھلونوں کے ساتھ کھیلنے میں مگن رہا۔ تھوڑی دیر بعد جہاز کا توازن مشکو بحال ہو گیا، اور پھر وہ اپنے مقررہ وقت پر بحفاظت زمین پر بھی اتر گیا۔ ایک شخص نے اس بچے سے سوال کیا بیٹا! جہاز میں ہر شخص ڈرا ہوا تھا، چیخ چلا رہا تھا، آپ اتنے اطمینان سے اپنے کھلونوں سے کیسے کھیل رہے تھے؟ بچے نے نہایت معصومیت اور پورے اعتماد سے جواب دیا ” اس جہاز کے پائلٹ میرے ہا ہا ہیں، اور مجھے پورا یقین تھا کہ وہ ہمیں بحفاظت نیچے اتار لیں گے۔“
بلاشبہ اولاد کے لیے اگر ماں کی ممتا، اینگرو قربانی، چاہت و الفت بے مثل و انمول ہے، تو باپ کی شفقت اور عنایات کا بھی کوئی حساب کتاب، کوئی شمار قطار نہیں۔ وہ جو سیگمنڈ فرائیڈ نے کہا تھا کہ بچے کے لیے دنیا میں باپ کے ہونے کے احساس سے زیادہ قیمتی شے اور کوئی نہیں۔“ تو سو فی صد درست ہی کہا تھا۔ بچپن سے لے کر خود کھانے کمانے کی عمر تک کیا کوئی ایک بھی مادی خواہش ایسی ہوتی ہے، جس کی تکمیل کے لیے نگاہیں باپ کی طرف نہیں اٹھتیں۔ وہ باپ ہی ہوتا ہے ناں، جس کے صرف اک ” ہونے“ کے احساس ہی سے ساری دنیا ایک محفوظ پناہ گاہ، مضبوط فصیل معلوم ہونے لگتی ہے۔ سر پر اس کا گھنا، چھتار سایه، پشت پر بھاری بھر کم ہاتھ ، کاندھے پر گرم و مضبوط لمس ہو تو دنیا بھر کے حوادث، بلائیں، آفات خود بخود ہی ملتی چلی جاتی ہیں۔ جب ہی تو کسی نے کہا تھا کہ کرپنی زندگی میں دو لوگوں کا بے حد خیال رکھنا، ایک وہ جس نے تمہاری جیت کے لیے اپنا سب کچھ ہار دیا یعنی تمہارا باپ اور ایک وہ جس کی دعاؤں سے تم سب کچھ جیتنے کے قابل ہوئے، یعنی تمہاری ماں۔“ اور یہ کہ “باپ کی ڈانٹ ڈپٹ بھی اولاد کے لیے اسی طرح ہے۔ جس طرح کھیتوں کے لیے پانی۔ باپ کا ادب و احترام ، اہمیت و فضیلت بھی کسی
طور کم نہیں۔ وہ کسی نے کہا ہے ناں کہ “عزیز تر مجھے رکھتا تھا، وہ گر جاں سے …. یہ بات کی ہے، میرا باپ کم نہ تھا ماں سے۔ ” مرد ہونے کے سبب، بظاہر کچھ سخت اور بے لچک نظر آنے کے باعث، یہ جو باپ کو ہر لطیف و خوبصورت جذبے، دل گداز احساس سے یک سر عاری تصور کر لیا گیا ہے، حقیقتا ایسا ہر گز نہیں ہے۔ باپ اپنی اولاد کے لیے اپنی ہستی، مٹی، ذات کو فتا کرتا ہے۔ جب ہی تو ایک چینی کہاوت کے مطابق ایک اکیلا باپ دس بچے پال لیتا ہے، لیکن دس بچے مل کر بھی ایک باپ کا سہارا نہیں بن پاتے۔ وہ جو ، اپنی اولاد کے لیے پورا جیون تیاگ دیتا ہے۔ دن بھر کا تھکا ماندہ گھر لوتا ہے، تو محض بچوں کی خوشی کی خاطر کبھی گھوڑا بن جاتا ہے، تو کبھی گونیا، کبھی کہانیاں گھڑتا ہے، تو کبھی پینے بننے لگتا ہے۔ اولاد کے ہر پہلے عمل پہلی مسکراہٹ، پہلے لفظ، پہلے قدم، پہلی جوٹ، پہلی لڑائی ، اسکول، مدرسے کے پہلے دن، پہلی شکست، پہلی کامیابی اور نجانے کتنے ہی پہلے …. پہلے …. پہلے سے لے کر اپنی آخری ہمتوں، توانائیوں تک، اسے کچھ بنا لینے، قدموں پر کھڑا کر دینے تک، جو جو کر سکتا ( اور کبھی کبھار تو جو نہیں بھی کر سکتا ) سب کر گزرتا ہے۔
آج دنیا ”عالمی یوم والد ” منا رہی ہے۔ ہمارا مقصد ایک مغربی روایت“ کو رواج دینا یا جلا بخشا ہرگز نہیں کہ ہمارا تو ہر دن ہی ہمارے ماں باپ کا ہے، مگر بات صرف اتنی سی ہے کہ ماؤس کو تو سارا سال یاد قتافوقتا ان کی چاہتوں ، قربانیوں کے باوصف کسی نہ کسی صورت ( کبھی گلے میں بانہیں ڈال دیں، کبھی گود میں سر رکھ لیا، کبھی بے اختیار ہی ساتھ لپٹ گئے،
کبھی چہرہ چوم لیا) خروج محبت و تحسین پیش کیا جاتا رہتا ہے، لیکن باپ کو غالباً مرد (صنف قوی) ہونے کے سبب یا اس کے ظاہری طور پر تو نگر ہونے کے باعث اپنائیت کے اظہار کی کوئی خاص ریت روایت نہیں۔ ہر باپ اپنی جوانی سے بڑھاپے تک کا سفر جہد مسلسل کی طرح طے کرتا ہے۔ جوانی میں جوش سے بھرا اور کچھ کر دکھانے کی خواہش رکھنے والا نوجوان، جب ایک باپ کی ذمہ داری اٹھاتا ہے، تو اس کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہے۔ پہلے اس کی زندگی کا مقصد کیریئر بنانا ہوتا ہے، تو والد بنتے ہی یہ محور تبدیل ہو کر اولاد کی اچھی پرورش اور تعلیم و تربیت ہو جاتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی باپ ہو، بادشاہ ہو کہ فقیر، امیر ہو یا غریب، امیر بزنس مین ہو یا پھر غریب سبزی فروش، اس کی سب سے بڑی خواہش اور آرزو یہی ہوتی ہے کہ اس کی اولاد فرمانبردار ہو اور بڑے ہو کر دنیا میں اس کا نام روشن کرے۔ سڑک کے کنارے بیٹھا مٹر دور دن رات خون پسینہ ایک کر کے جب گھر لوٹتا ہے، تو بچوں کے چہرے دیکھتے ہی اس کی ساری تھکن اتر جاتی ہے اور ذہن و دل کے دریچے پر مستقبل کے سہانے خواب دستک دینے لگتے ہیں۔ وہ باپ ہی تو ہے، جو پیسا کمانے کے لے سات سمندر پار کا سفر طے کرتا ہے، بے وطنی، تنہائی کا بوجھ اٹھاتا ہے، مگر صرف اولاد کی محبت کی خاطر سب کچھ ہے جاتا ہے۔
ایک ماں کا عمومی تصور نرم اور شفیق ہستی کا ہوتا ہے، تو باپ کا سخت گیز فرد کا، لیکن اس سختی کے پیچھے بھی اک محبت، اک چاہت چھپی ہوتی ہے، جس کا مقصد اپنے جگر گوشوں کو دنیا کے ہر سرد و گرم سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ جو اولاد والدین، خصوصا باپ کی یہ سختی سہہ جاتی ہے، وہ مستقبل میں پیش آنے والے کٹھن حالات کا مقابلہ کرنا سیکھ لیتی ہے۔ باپ کا یہ شفقت بھرا ہاتھ اس وقت تک بچوں کی رہنمائی کرتا ہے، جب تک ان کی نیا پار نہیں لگ جاتی اور وہ زندگی کی دوڑ میں وکٹری اسٹینڈ تک نہیں پہنچ جاتے۔ ماں اور باپ کی تربیت کا توازن، بچوں کی زندگی میں بھی توازن کو جنم دیتا ہے اور اسے بر قرار رکھنے کا سہرا بھی عموما باپ ہی کے سر بندھتا ہے۔ اپنے بچوں کی من پسند خواہشات کو غیر محسوس طریقے سے اس طرح مکمل کرنا کہ انہیں احساس بھی نہ ہو اور محبت کا حق بھی ادا ہو جائے ، یہ صرف باپ ہی کا وتیرہ ہے۔ اولاد کی قدم قدم پر رہنمائی کرنے والے، انہیں دنیا میں کامیاب انسان دیکھنے کی خواہش رکھنے والے باپ، بے شک ماں کی طرح راتوں کی نیند حرام نہیں کرتے، لیکن دن بھر محنت و مشقت کر کے کئی طرح کی سختیاں ضرور اٹھاتے ہیں۔
ممتاز ماہر نفسیات، کیرول کلیگن Carol) (Gilligan کے مطابق باپ کی تمام تر توجہ انصاف، عدل اور ڈیوٹی پر ہوتی ہے، جن کی بنیاد اصولوں پر مبنی ہے، جبکہ ماں کی محبت، شفقت اور ہمدردی پر۔ باپ نظم و ضبط اور سختی سے تمام اصول و قواعد کا نفاذ چاہتا ہے ، توماں چاہت ہمدردی اور نرمی کے جذبات مد نظر رکھتی ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جہاں کہیں بچوں کی حفاظت کا معاملہ آتا ہے تو والد کی اہمیت صحیح معنوں میں واضح ہوتی ہے ۔ باپ اپنی زندگی کے آخری سانس تک اولاد کے لیے ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر حصار کی حیثیت رکھتا ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2016