Daily Roshni News

وظیفہ اور ہم…تحریر۔۔۔ حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹر نیشنل ۔۔۔ تحریر ۔۔۔حمیرا علیم )ایک زمانہ تھا جب میں صرف نماز روزے کو ہی دین سمجھتی تھی۔ابن کثیر کی تفسیر تو پڑھ رکھی تھی مگر کسی استاد سے قرآن، حدیث فقہ نہیں سیکھا تھا۔لہذا کسی بھی حاجت کے لیے کسی کا بھی بتایا ہوا وظیفہ جھٹ سے کر لیتی تھی۔زیادہ تر وظائف فجر یا عشاء کی نماز کے بعد کیے جاتے تھے۔اور عموما آدھ گھنٹے سے دو گھنٹے کے ہوتے تھے۔اور کم سے کم تیس دن اور زیادہ سے زیادہ نوے دن کے ہوتے تھے۔

   یقین مانیے بالکل سچ بتا رہی ہوں کہ کئی سال ایسے وظائف کیے مگر ایک بھی کام نہیں ہوا وجہ کچھ بھی رہی ہو لیکن ایک فیکٹر یہ بھی تھا کہ کبھی کسی نے کوئی ایسا وظیفہ نہیں بتایا جو حاجت کے مطابق ہو جب ترجمہ پڑھا تو معلوم ہوا کہ آیت تو اس حاجت کے لیے تھی ہی نہیں ۔    پھر اللہ کے کرم سے قرآن و حدیث کا کورس کیا تو دین کا درست علم حاصل کیا اور پہلے ہی پارے کی آیت واستعینو بالصبر والصلوہ کا وظیفہ پکڑ لیا کہ اللہ تعالی خود سکھا رہے ہیں میری مدد مانگو نماز اور صبر کے ساتھ۔اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ہر مشکل، حاجت، شکرانے کے لیے دو رکعت نفل پڑھ کر دعا کی۔وہ دن اور آج کا دن کوئی دعا رد نہیں ہوئی۔

   ایک دن یو کے سے بھانجی، کزن کی بیٹی جو کہ میری ہم عمر ہے،کا فون آیا کہ کسی کام کے لیے پیر صاحب نے وظیفہ بتایا ہے کہ روزانہ دو ہزار بار چاروں قل پڑھنے ہیں اور نوے دن تک پڑھنے ہیں۔میں تو نماز بھی کم کم ہی پڑھتی ہوں اتنا لمبا وظیفہ تو پڑھنا مشکل ہے ایسے کریں آدھا آپ پڑھ دیں آدھا ہم سب گھر والے مل جل کر پڑھ لیں گے۔

   میں اس معاملے میں ذرا منہ پھٹ واقع ہوئی ہوں چنانچہ اس سے پوچھا:” کبھی بھوک لگی ہو اور سامنے باربی کیو، پیٹزا، کیکس، کافی وغیرہم موجود ہوں تومجھے آفر کرو گی کہ آدھا آپ کھا لیں آدھا میں کھا لوں گی میرا پیٹ بھر جائے گا؟” جواب ملا نہیں۔

اگلا سوال کیا:” کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی تکلیف کے لیے ڈاکٹر نے میڈیسن دی ہو اور تم نے گھر والوں سے کہا ہو میڈیسنز زیادہ ہیں آئیے سب مل کر کھا لیتے ہیں میں ٹھیک ہو جاوں گی؟” جواب پھر نفی میں ہی تھا۔

   جس پر میں نے سوال کیا:” اگر بھوک تمہیں لگی ہے اور کھانا دوسرا کھائے، بیماری تمہیں ہے میڈیسن کوئی اور کھائے تو تمہاری بھوک اور بیماری ختم نہیں ہوتی تو کیا خدانخواستہ دین اتنا ہی گیا گزرا ہے کہ اذکار اور قرآن کے جتنے مرضی حصے کر لو تمہارا کام ہو جائےگا۔

   جب حاجت تمہاری ہے پیر صاحب نے وظیفہ تمہیں بتایا ہے تو سارا خاندان وظیفہ کیوں کرے؟ تم خود کیوں نہ کرو؟” جس پر کچھ ناراض ہو کر فون بند کر گئیں۔میرا ماننا تو یہ ہے کہ جیسے اپنے دنیاوی کام کرنے کے لیے ہم خود کوشش کرتے ہیں ویسے ہی اللہ تعالٰی سے کسی حاجت روئی کے لیے خود دعا کیوں نہیں کر سکتے؟؟؟؟ پیپر کتنا بھی مشکل کیوں نہ ہو خود ہی دیتے ہیں کسی بڑے یا دوسرے کو نہیں بھیجتے کیونکہ جانتے ہیں کہ اس صورت میں رسٹیکیٹ ہو جائیں گے۔دنیا کے ایک سرٹیفیکیٹ یا ڈگری کے لیے تو اتنی احتیاط اور دین کے لیے اتنی ہی لاپرواہی۔

   قرآن کی پہلی سورت میں ہم دعوی کرتے ہیں یا اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورتجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں ۔جس پر اللہ تعالٰی نے بتا دیا کہ میری حمدوثنا کرو اور مجھ سے ہی مانگو میں شہ رگ سے زیادہ قریب ہوں اور ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔اور مانگنا کیسے ہے نماز پڑھ کر اور پھر جلدی نہ مچانا کہ ہفتے سے تو پانچ وقت کی نماز پڑھ رہی ہوں اورنفل بھی اور دعا پوری ہی نہیں ہو رہی۔صبر کرنا اور اگر زیادہ ہی جلدی ہو تو تہجد میں دعا کرنا کہ میں خود روزانہ آسمان دنیا پر آ کر پوچھتا ہوں کوئی ہے جو مجھ سے مانگے اور میں دوں؟

    میں بارہا اپنی تحاریر میں یہ ذکر کر چکی ہوں کہ میں نے جب سے نماز تہجد کا آغاز کیا ہے الحمد للہ الحمد للہ کوئی دعا رد نہیں گئی۔اس لیے میں تو تمام لمبے لمبے وظائف چھوڑ کر بس ان دو وظائف پر ہی عمل پیرا ہوں۔ویسے بھی قرآن پڑھیں تو جتنے بھی انبیاء کا ذکر ہے کسی نے بھی تیس سے نوے دن کا وظیفہ نہیں کیا بس ایک بار دعا مانگی اور اللہ تعالٰی نے قبول فرما لی۔خصوصا زکریا علیہ السلام جب مریم علیہ السلام کو دیکھتے ہیں تو ان سے یہ نہیں کہتے کہ آپ میرے لیے دعا کریں یا مجھے وہ دعا بتا دیں جس سے میں بھی مانگوں۔بلکہ خود نمازپڑھ کر دعا کرتے ہیں اور اسی وقت یحیی علیہ السلام کی بشارت پاتے ہیں۔یہ لمبے لمبے لاکھوں ہزاروں کے وظیفے تو ہندووں کے ہاں رائج ہیں۔

    پھر ہم کیوں ایسا نہیں کر سکتے؟؟؟؟ کیا گھنٹوں لمبے وظیفے مشکل ہیں یا صرف دو نفل؟؟؟ ویسے بھی عمل کے لیے شرط یہ ہے کہ قرآن کا واضح حکم ہو یا صحیح حدیث تبھی عمل کیا جائے تو مقبول ہوتا ہے۔اور قرآن میں تمام انبیاء کرام کی ہر موقعے کے لیے دعا موجود ہے پھر کسی وظیفے کی کیا ضرورت ہے؟ ویسے بھی وظیفے کا لفظ قرآن و حدیث میں اذکار کے لیے مستعمل نہیں ہے۔

   اور اکثر ہم لوگ وظائف دنیاوی حاجات، بزنس، جاب،مالی وسائل،  شادی، اولاد، گھریلو سکون وغیرہم کے لیے ہی کرتے ہیں کبھی کسی نے شہادت کی موت یا جنت کے لیے تو کیا نہیں۔اور جب ان وظائف کی مشقت کے باوجود کام نہیں ہوتا تو بہت سے لوگ نماز قرآن پڑھنا بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ کام تو ہوا نہیں کیا فائدہ۔کوئی انہیں سمجھائے کہ بھئی آپ سےکس نے کہا کہ نماز اور قرآن صرف وظائف کے لیے پڑھیں تو ہی فائدہ ہو گا؟؟؟ یہ تو بالکل ایسے ہی فرض ہے جیسے ہم سانس لیتے ہیں۔میڈیسن کھانے کے لیے ڈاکٹر کا پریسکیپشن بار بار پڑھتے ہیں اور اسے فالو کرتے ہیں کہ کہیں غلط نہ ہو جائے ۔

   جب ایک موجد کوئی مشین ایجاد کرتا ہے تو ساتھ ایک کتابچہ دیتا ہے جو ہدایات دیتا ہے کہ یوں استعمال کیجئے تورزلٹ حسب منشاء ہو گا دوسری صورت میں مشین جل بھی سکتی ہے۔بالکل ایسے ہی اللہ تعالٰی نے انسان تخلیق کیا اور قرآن ہدایات کی کتاب دی کہ یہ کر لو تو دنیا و آخرت سنور جائے گی ورنہ یہاں بھی مشکل اور آگے بھی۔

    ہم نے اس ہدایات کی کتاب کو بار بار دہرانے، دیواروں،  گلے میں لٹکانے، دلہن کے سر پر سایہ کرنے کے یے مختص کر لیا اور اصل مقصد کے لیے استعمال ہی نہیں کیا۔تو پھر ہمیں فائدہ کیسے دے؟ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جس گھر میں جنوں کی موجودگی یا سحر کا گمان ہو وہاں سورہ البقرہ کی تلاوت کا کیوں کہا جاتا ہے؟ اس لیے کہ ہم سے یہ مقصود ہے کہ ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور اس پر عمل کریں۔جب البقرہ کی دہرائی کی جاتی ہے تو انسان برائیاں چھوڑ کر اچھائیاں اپناتا ہے اور جہاں یہ عمل ہو گا وہاں سے برائی خود ہی دور ہو جاتی ہے۔صرف دہرائی کبھی سودمند نہیں ہو گی۔

   اور پیر فقیر حضرات تو ویسے بھی ایسے عمل بتاتے ہیں جو کہ آسانی سے ہو ہی نہ پائیں۔مجھےیاد ہے ایک بار میرے شوہر کو آفس میں کچھ مسئلہ تھا ایک اجنبی سفید ریش نورانی چہرے والے بزرگ نے انہیں میڈیکل اسٹور پر مخاطب کر کے پوچھا بیٹا کوئی پریشانی ہے۔صاحب نے جھٹ مسئلہ بیان کر دیا کہ وہ پیروں فقیروں کے خاصے متقعد ہیں۔اب وہ گھر پہنچ گئے مجھے بلایا اور فرمانے لگے:” یہ اگربتیاں ہیں ان پر روزانہ سورہ البقرہ،  یسین، حم السجدہ، الواقعہ،  الرحمن، اور چاروں قل آٹھ آٹھ بار پڑھ کر دم کر کے گھر میں سلگائیں تو مشکل حل ہو جائے گی۔”

   میں نے انہیں بتایا کہ محترم میں انسان ہوں ٹیپ ریکارڈر نہیں کہ اتنی سورتیں اتنی بار پڑھ کر اگربتیاں سلگاوں۔مجھے گھر کے کام، بچوں کو پڑھانا اور دیگر کام بھی کرنے ہوتے ہیں۔آپ یہ سارے وظائف صاحب کو دیجئے نا جن کا مسئلہ ہے تو صاحب اور پیر صاحب دونوں کا منہ بن گیا ۔فرمانے لگے :” ان کے لیے تو مشکل ہے وہ جاب کرتے ہیں اور نماز کی پابند بھی ممکن نہیں اور آپ تو نماز قرآن باقاعدگی سے پڑھتی ہیں۔اس لیے آپ کر لیجئے۔” میں نے معذرت کی کہ میں بھی فارغ نہیں بیٹھی ہوتی۔اور پہلے نماز کی پابندی کروا لیجئے پھر وظیفہ بھی ہو جائے گا۔” جس پر کمال فیاضی سے پیر صاحب نے وظیفہ اپنے ذمے لے لیا۔اور میری جان چھوٹی۔

   یہ عقدہ تو بعد میں کھا کہ اس خدمت خلق کے انہوں نے ہزاروں بٹورے اور کام بھی نہیں ہوا۔

    تو جناب اللہ تعالٰی نے دین اسلام نازل فرما کے کہا کہ ہم نے ان کی گردنوں میں پڑے طوق اتار دئیے۔جب کہ ہم نے آج بھی اپنے آپ کو مشقت میں ڈال رکھا ہے۔دو نفل اور پانچ وقت کی نمازتو بیگار لگتی ہےاور وظائف آسان۔چلیے پڑے رہیے مشقت میں مگر دوسروں کو تواپنے ساتھ نہ گھسیٹیں خود وظیفے کیجئے خواہ سوا لاکھ یا تین لاکھ دوسروں کو یہ کہہ کر گناہ گار نہ کیجئے کہ آج یہ آیت یا درود شریف اتنی بار پڑھنا ہے اسے شیئر کیجئے۔ہر شخص کو اپنے روزمرہ کے اذکار آسانی سے کرنے دیجئے پابند نہ کیجئے۔

   یاد رکھیے ایک سنت کا احیاء سو شہداء کے برابر ثواب رکھتا ہے۔اس لیے وہ اعمال کیجئے جوسنت نبوی ہیں۔اللہ تعالٰی ہم سب کو دین پڑھنے اسے سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

Loading