وہ اُسی درخت کے نیچے ہارتے انداز میں بیٹھی خالی راہوں کو تکنے لگی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )تیز روشنی سے گزرتے اُسکے قدم اندھیری رہ پر ٹہرے ہی تھے جب اُس نے سامنے بنی اُس اونچی عمارت کے دروازے سے منہ پر ہاتھ رکھے ایک لڑکی کو بھاگ کر باہر آتے دیکھا۔۔۔۔دُبلی پتلی سی وہ لڑکی جسکے بال کاندھے تک آتے باب کٹ تھے ایک پل کو اُسے ازاہ کا گمان گزرا۔۔۔۔لیکن یہ آرمی ایریا تھا جہاں مردوں کے علاوہ کئی خواتینں بھی تھیں جو سولجر تھیں جن کے بال عموماً اتنے چھوٹے ہی ہوتے اور پھر ہر چھوٹے بالوں والی لڑکی ازاہ تو نہیں ہو سکتی تھی نا۔۔۔
کسوہ نے دیکھا وہ لڑکی کچھ فاصلے پر ایک بڑے سے درخت کے نیچے اُسکی طرف پیٹھ پھیرے کھڑی ہو گئی۔۔۔اُسکے دونوں ہاتھ اب بھی اُسکے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھے۔۔۔وہ شاید رو رہی تھی۔۔۔کسوہ کچھ پل رُک کر اُسے دیکھتی پھر آگے بڑھی یہ کسوہ کا مسلہ نہیں تھا کہ وہ اس وقت آخر کیوں رو رہی تھی۔۔۔
لیکن دوسرے پل اُسکے قدم رک گئے،، دل دھڑکنے لگا،،لب مسکرانے لگے،،،آنکھوں کی چمک تیز ہو گئی۔۔۔کیوں کہ اُسکی ان انکھوں نے اُسی دروازے سے اب صمیان کو باہر آتے دیکھا۔۔۔
ہاتھوں میں گلاب مضبوطی سے پکڑے اُس نے صمیان کا نام پکارنا چاہا ہی تھا جب اُسکا دل دھک سے رہ گیا۔۔۔
صمیان باہر آتا اب اُس لڑکی کی طرف بڑھ رہا تھا جو درخت کے نیچے کھڑی رو رہی تھی۔۔۔۔
کسوہ نے صدمے سے پھیلی آنکھوں اور ایک پل کو سانس سینے میں روکے اب صمیان کو اُس لڑکی کے قریب جاتے روکتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔وہ شاید اُس سے اب کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔۔
رونے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔تمہیں یہ بہت پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ تمہارے بابا کتنے بڑے آفسر ہیں جتنا بڑا پہاڑ ہوتا ہے اُسکی پریشانیاں بھی پہاڑ جتنی ہوتیں ہیں اور برف بھی اونچی جگہوں پر گرتی ہیں۔۔۔۔
تمہیں اُنکے لیے دعا کرنی چاہیے کہ وہ جلد ٹھیک ہو جائیں۔۔۔۔صمیان غُصہ پیتے ضبط سے نظریں جھکا کر بول رہا تھا۔۔۔
اور دور کھڑی کسوہ کو سانس لینا بہت مُشکِل لگا وہ بھیگی آنکھوں سے اُسے ایک ٹک اُسے دیکھ رہی تھی اُسکا وجود اب ہلکا ہلکا لرزنے لگا۔۔۔۔اُسکا سمی جس سے وہ بے انتہا محبت کرتی تھی اتنی محبت کہ اُسکی نفرت بھی اُسکے دل کے آگے گٹھنے ٹیک گئی وہ رات کے اس پہر ایک انجان لڑکی کے ساتھ تھا۔۔۔۔۔
جس کے لیے اُسنے سارا کام چھوڑا اپنی میٹنگز تک کی پرواہ نہیں کی اُسکے لیے کھانا بنایا خود کو سجایا نیند کی قربانی دیتی بھوکی پیاسی جاگتی رہی یہاں تک اُس سے ملنے اُسے لینے اکیلی آرمی میس تک چلی آئی وہ اپنا فون بند کئے بنا اُسے انفورم کئے ایک لڑکی کے ساتھ تھا۔۔۔۔اکیلے اتنی رات گئے؟؟؟ کسوہ لڑکھڑاتی دو قدم پیچھے جاتی گرتی گرتی بچی۔۔۔۔
ازاہ جرنل ذیشان۔۔۔ابھی وہ اتنا بولا ہی تھا جب ازاہ تڑپ کر اپنے کئے پر ذلت اور شرمندگی محسوس کرتی اُسکا ہاتھ تھام کر سر جھکاتی رو دی۔۔۔۔مجھے معاف کر دو۔۔۔میرے بابا کو بچا لو۔۔۔۔بچوں کی سی کیفیت میں گھری وہ بری طرح روتی اُس سے کہہ رہی تھی۔۔۔
صمیان جھٹکے سے سر اٹھاتا اُسکی اس حرکت پر دم بخود بے حس و حرکت کھڑا دیکھتا رہ گیا۔۔۔اور وہیں اندھیرے میں کسی کی حسین آنکھوں کا خواب ٹوٹ گیا۔۔تیز دھڑکتا دل ساکت رہ گیا۔۔اور آنکھوں کی باڑھ توڑتے موتی قطروں کی صورت گالوں پر پھسلنے لگے۔۔۔۔
اس سے پہلے صمیان جھٹکے سے اپنا ہاتھ واپس کھینچتا اُس کی نظریں دور کھڑے اُس وجود پر پڑی جو ہلکی ہلکی روشنی میں اپنی بے قدری کی داستان بیان کر رہی تھی۔۔۔۔اب کہ صمیان پر بجلی سی گری۔۔۔سکتے کے علم میں وہ ایسے کھڑا تھا کہ کاٹو تو خون نہیں۔۔۔۔
کسوہ۔۔۔جب اُسکے منہ سے ایک درد بھری آہ کی صورت وہ لفظ ادا ہوا۔۔۔اور اُسکے ساتھ بے اختیار ازاہ نے سر اٹھاتے صمیان کی طرف درد بھری نظروں سے دیکھا۔۔۔۔
آہ یہی تو وہ نظر تھی جس کی اُسے چاہ تھی۔۔۔یہی وہ محبت تھی جس کی اُسے طلب تھی۔۔۔ایک دِن اُسنے کسوہ کو بتایا تھا کہ وہ انسان کبھی کبھی اُسے پتھر جیسا سخت لگتا ہے لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ جس سے وہ یہ سب کہہ رہی ہے وہ انسان تو اُس دیوی کا پوجاری تھا اُس کا اسیر جو محبت کا کشکول لیے اُسکے در پر ادھر اُدھر بھٹک رہا تھا۔۔۔۔۔پھر کیسے اُسکی نظروں میں کسی اور کی محبت سماتی۔۔۔۔اُسکا روم روم کسی اور کی محبت کا پیاسا تھا وہ کیسے اُسکی طلب جان پاتا۔۔۔۔ازاہ بے بس نگاہیں لئے درد سے مسکراتی خود اُسکا ہاتھ ایسے چھوڑ گئی جیسے اُسکی محبت سے خود کو آزاد کیا ہو۔۔۔
کسوہ۔۔۔صمیان اب حیرت سے زیرِ لب پُکارتا اُسکی طرف ایسے لپکا جیسے وہ اُسکی زندگی ہو اور وہ خود موت کے آخری دہانے پر کھڑے زندگی کو بھاگ کر پکڑ لینا چاہتا ہو۔۔۔۔جیسے وہ مرنا نہیں بلکہ جینا چاہتا ہو۔۔۔
تبھی کسوہ کے ہاتھ سے پھول چھوٹ کر نیچے اُسکے پیروں میں جا گرا وہ تیزی سے پلٹی اُسکا کچھ نہیں بچا تھا وہ زندگی میں دوسری بار محبت کے ہاتھوں بہت بری طرح توڑی گئی تھی۔۔۔منہ پر ہاتھ رکھتے اُسنے خود کو سختی سے رونے سے باز رکھا۔۔۔لیکن آنکھ سے آنسوں تیزی سے بہتے ہی چلے جا رہے تھے۔۔۔
اب وہ تیز تیز بھاگنے لگی اُسے پیچھے صمیان کی رُک جانے کی صدائیں سنائی دینے لگی لیکن وہ رُکی نہیں اگر رُکتی تو ریزہ ریزہ بکھر جاتی ٹوٹ جاتی۔۔۔اُسکے قدم صمیان کی آوازوں کے ساتھ مزید تیز ہونے لگے وہ بہت بار منہ کے بل گرتے گرتے بچی لیکن رُکی نہیں۔۔۔۔
صمیان متحیر سا اُسکے پیچھے اُسے آوازیں دیتا بھاگ کر آنے لگا کسوہ کا اچانک یہاں آنا اور پھر ازاہ کا اُسی وقت اُسکا ہاتھ تھامنا سب کچھ گڑبڑ کر گیا تھا۔۔۔۔اُسنے حیران نظروں سے زمین پر پڑے اُس گلاب کے پھول کو دیکھا۔۔۔۔اُسکا دل دکھ اور افسوس سے بھر گیا۔۔۔ جُھک کر پھول اُٹھاتا وہ سیدھا ہوا اور پھر کسوہ کی طرف بھاگنے لگا۔۔۔
کسوہ بے دردی سے آنسو گالوں سے پونچھتی دروازے سے باہر آئی۔۔۔۔وہ سولجر جس نے کچھ دیر پہلے اُسے بڑا خوش باش اندر جاتا دیکھا تھا اتنی جلدی واپس آنے پر حیران رہ گیا۔۔۔رات کے اندھیرے میں وہ اُس کے چہرے پر پھیلے آنسوں کو زیادہ غور سے دیکھ نا سکا۔۔
میم آپکا کارڈ۔۔۔پیچھے سے آواز لگاتا وہ بولا۔۔۔ جب اُسنے کسوہ کو تیزی سے اپنا آئی کارڈ بنا لئے گاڑی میں بیٹھتا دیکھا تو بے حد حیران ہوا۔۔۔
ارے اپنا کارڈ تو لے جاؤ۔۔۔۔2 قدم چل کر کہتا ابھی اُسکے نزدیک جانے ہی لگا تھا جب اُسنے طوفان کی تیزی سے میجر کو بھاگ کر آتے اُس لڑکی کی کار کے پاس جاتے دیکھا تو اپنی جگہ تھم گیا۔۔۔۔
کسوہ پلیز میری بات سنو دیکھو تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔شیشے پر زور زور سے ہاتھ مارتا تو کبھی گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش میں ہلکان ہوتا وہ اس پل اُسکی منتیں کر رہا تھا کہ کیسے بھی کر کے بس وہ رُک جائے۔۔۔۔
کسوہ کی آنکھوں سے آنسو اب تیزی سے بہنے لگے اُسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔جبکہ ہاتھوں کی کپکپاہٹ کی وجہ سے اُس سے گاڑی بھی سٹارٹ نہیں ہو پا رہی تھی۔۔۔۔اوپر سے صمیان کی انکساریاں۔۔۔وہ بری طرح پھنسی تھی اس جال میں۔۔۔اُس نے غصے سے اسٹیئرنگ پر ہاتھ مارا۔۔۔۔۔پھر دونوں ہاتھوں کی مدد سے گاڑی کی چابی گھمانے کی کوشش کی جس سے گاڑی فوراً سٹارٹ ہو گئی۔۔۔۔
اب صمیان نے سرد وجود صامت نگاہوں سے رُک کر کسوہ کو دیکھا جب اُسی پل کسوہ نے بھی اپنی آنسو بھری آنکھوں جن میں بہت کُچھ ٹوٹنے کا احساس تھا اُسکی طرف دیکھا اور گاڑی زن سے آگے بڑھا گئی۔۔۔۔
کسوہ نہیں۔۔اب نہیں۔۔۔میں تمہارا مزید خود سے اور دور جانا آفورڈ نہیں کر سکتا۔۔۔۔میں اب کسی بھی قیمت پر ان غلط فہمیوں کو ہمارے بیچ نہیں آنے دونگا۔بہت ہوگیا اور بہت برداشت کرلیا میں نے۔۔۔تمہیں یقین کرنا ہوگا اس بار۔۔۔مٹھیوں کو سختی سے کستے اُسنے جبڑے پیس کر اپنی سخت نظروں سے سامنے کی طرف دیکھا جہاں اُسکی گاڑی دور جاتی دکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔
وہ جلدی سے پلٹا جب اُسنے مورت بنے پھٹی آنکھوں سے اپنی طرف حیرانی سے دیکھتے اُس سولجر کو دیکھا۔۔۔جس نے اپنے آئیڈیل سولجر کو پہلی بار کسی لڑکی کے پیچھے نہ صرف بھاگتے ہوئے دیکھا تھا بلکہ اُسکی التجائیں کرتے تڑپتے بھی دیکھا۔۔۔۔وہ لڑکی جو خود کو میجر کا قریبی رشتے دار بتا رہی تھی وہ رشتے میں تو نہیں ہاں البتہ میجر کے دل کے قریب ضرور معلوم ہو رہی تھی۔۔۔۔
صمیان باس کی طرح غصے سے چل کر اُسکے پاس آیا اور اُسکے ہاتھ سے کسوہ کا کارڈ جھپٹتا غصے سے اُسے گھورتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔اُسکے جاتے ہی سولجر کنفیوزڈ سا سر کھجاتا واپس اپنی جگہ چلا گیا۔۔۔
ازاہ اب بھی وہیں کھڑی تھی جب اُس نے صمیان کو لمبے لمبے ڈاگ بھرتے واپس آتے اور بلڈنگ کے اندر جاتے دیکھا۔۔اُسکے ہاتھ میں سُرخ گلاب دیکھتے ازاہ ٹھر سی گئی۔۔۔۔کچھ ہی دیر ہوئی جب وہ واپس آیا اور اُس کے سامنے بنا کچھ کہئے تیزی سے گزرنے لگا۔۔۔۔
محّبت کرتے ہو اُس سے؟؟ اس کے بڑھتے قدم وہیں رُک گئے۔۔۔جب ازاہ کی آس سے بھری آواز اُسکے عقب سے آئی۔۔۔
محّبت کرتا تو کب کا چھوڑ دیتا۔۔۔محبت کرتا تو اس طرح اُسکے در پر پڑا اُسکی ایک نگاہِ کرم کو کبھی نہ ترستا۔۔۔محبت کرتا تو مجھ سے بڑا شاید سنگ دل کوئی نہ ہوتا۔۔۔محبت کرتا تو یوں نا اسکی تڑپ پے تڑپتا۔۔۔مگر سچ تو یہ ہے کہ محبت ہی تو نہیں کی میں نے۔۔۔دور خلا میں دیکھتا وہ گہرا احساس لیے بولا جس سے ازاہ کی سانس سینے میں تکلیف سے ابھرنے کم ہونے لگی۔۔۔
یہ تو عشقِ کی علامت ہے کہ عاشق اپنی تلخ آزمائش سے لطف اندوز ہوتا ہے۔۔۔محبوب کی اطاعت کرتا ہے ۔۔اُسے منزلوں سے غرض نہیں ہوتی وہ تو محبوب کی راہوں کی خاک ہونا بھی عظیم سمجھتا ہے۔۔۔۔اور یہ میرا اُس سے عشقِ ہی تو ہے کہ اب تک اُسکی ساری تلخی میں ہنس کر سہہ جاتا ہوں۔۔
عشق محبت سے ایک قدم آگے ہوتا ہے۔۔۔محبت ہر ایک سے ہو جاتی ہے کسی کی صورت کسی کی آواز تو کسی کی خوبی یا پھر کسی ادا سے لیکن عشقِ صرف ایک شخص سے ہوتا ہے۔۔عشق کے بعد کوئی آپشن نہیں ہوتا کوئی شخص کی گنجائش نہیں نکلتی۔۔۔عشق خوبصورت اور پاکیزہ تعلق ہے۔۔۔عشق کی ایک ڈیمانڈ بس محبوب میسر ہو تو تاحیات کے لیے۔۔۔عشق کرنے کے بعد یا تو آپ ادھورے رہ جاتے ہیں یا مکمل ہو جاتے ہیں۔۔۔کیوں کہ عشقِ کرنے کے بعد محبوب کے علاوہ کسی اور کی طلب ہی نہیں رہتی۔۔۔۔ ۔۔بنا پلٹے اُس سے کہتا وہ تیز قدم چلتا ازاہ کی نظروں سے دور بہت دور چلا گیا۔۔۔۔
ازاہ روتی آنکھوں سے ہنس دی۔۔۔اُس کی ہنسی میں بے پنہا درد تھا تکلیف تھی۔۔۔۔آہ یہ محبت۔۔جسکو مل جائے اُسکا دل جنت کے باغ سا کھلا دے اور جو محروم لوٹا دیا جائے اُسکا دل وجود کسی پُرانے کھنڈر میں بدل دے۔۔۔عجیب ہے محبت ضدی بچے کی طرح محبوب کو بس مانگتا ہے جو اُسکی دسترس میں ہے ہی نہیں۔۔۔مانتاہی نہیں بہلتا ہی نہیں۔۔۔حسین آنکھیں اُجاڑ دیتا ہے۔۔۔زندگیاں ویران کر دیتا ہے۔۔۔ محبت عذاب بن جاتی ہے جسے محسوس کرنا نہیں جینا بھی پڑتا ہے۔۔۔محبت آگ جیسی ہوتی ہے جسکے دامن میں لگ جائے اُسے خاک کئے بنا نہیں چھوڑتی اور جو خاک ہو جائے اُسے دوبارہ کون بنائے۔۔۔۔
وہ اُسی درخت کے نیچے ہارتے انداز میں بیٹھی خالی راہوں کو تکنے لگی جہاں سے محبت بہار بنِ کر تو نہیں لیکن عذاب بنِ کر اُسکے لیے زور لوٹ کر آنے والی تھی ۔۔
https://novelistan.pk/2024/09/26/muhabbat-qalb-e-sakoon-by-maryam-kanwal/