Daily Roshni News

وہ بادشاہ جس نے محبت کو سنگِ مرمر میں ہمیشہ کے لیے قید کر دیا

وہ بادشاہ جس نے محبت کو سنگِ مرمر میں ہمیشہ کے لیے قید کر دیا

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )وہ بادشاہ جس نے محبت کو سنگِ مرمر میں ہمیشہ کے لیے قید کر دیا،اور پھر اپنی زندگی کے آخری برس اسی محبت کو دور سے تکتا رہا۔شہابُ الدین محمد شاہ جہاں 1592ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہ اکبرِ اعظم کے پوتے اور شہنشاہ جہانگیر کے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ راجپوت خاندانِ مارواڑ سے تعلق رکھتی تھیں۔ بچپن ہی سے شاہ جہاں میں نظم و ضبط، ذوقِ جمال، اور اقتدار کی خواہش نمایاں تھی۔ انہوں نے ایک ایسے دربار میں پرورش پائی جو علم و فن، شاعری، مصوری اور تعمیرات کا مرکز تھا

1612ء میں ان کی شادی ارجمند بانو بیگم سے ہوئی جو بعد میں ممتاز محل کہلائیں۔ یہ تعلق محض سیاسی نہیں بلکہ حقیقی رفاقت پر مبنی تھا۔ ممتاز محل ان کی مہمات میں شریک رہتیں اور امورِ سلطنت میں مشورہ دیتی رہتیں

شہزادگی کے دور میں شاہ جہاں نے اپنی عسکری صلاحیت منوائی۔ انہوں نے دکن، میواڑ اور کانگڑا میں کامیاب مہمات کیں اور مغل سلطنت کی حدود وسیع کیں۔ مگر ان کی فطرت میں اضطراب اور بلند عزمی ہمیشہ رہی۔ 1622ء میں انہیں دربار میں اپنی حیثیت کمزور محسوس ہوئی تو انہوں نے جہانگیر کے خلاف بغاوت کی۔ بغاوت ناکام ہوئی لیکن جہانگیر نے انہیں معاف کردیا۔ 1627ء میں جہانگیر کی وفات کے بعد شاہ جہاں نے اپنے حریفوں کو شکست دی اور شاہ جہاں، یعنی “شہنشاہِ جہاں” کے لقب سے تخت نشین ہوئے

ان کا عہدِ حکومت (1628ء تا 1658ء) مغل فن و ثقافت کا نقطۂ عروج سمجھا جاتا ہے۔ سلطنت کی حدود قندھار سے بنگال اور کشمیر سے دکن تک پھیل گئیں

تجارت، زراعت اور انتظامی نظم اپنے عروج پر تھے

شاہ جہاں نے سلطنت کے ہر شعبے میں ترتیب، وقار اور حسن قائم کیا

ان کا سب سے نمایاں کارنامہ فنِ تعمیر ہے۔ تاج محل، جو ممتاز محل کی یاد میں تعمیر ہوا، محبت اور فنِ لطیف کا ابدی استعارہ بن گیا۔ دہلی کا لال قلعہ اور جامع مسجد، لاہور کے شالامار باغات، اور آگرہ کی موتی مسجد ان کے ذوقِ تعمیر کی مثالیں ہیں۔ تختِ طاؤس ان کی شان و شوکت کا مظہر تھا، جو جواہرات سے مزین ایک شاہکار تھا۔ سفید سنگِ مرمر ان کے دور کی پہچان بن گیا، جو توازن اور پاکیزگی کی علامت تھا

تاہم عظمت کے ساتھ کمزوریاں بھی آئیں۔ تعمیرات اور جنگی مہمات نے خزانہ خالی کردیا۔ تاج محل کی تعمیر دو دہائیاں جاری رہی اور اس پر بے پناہ وسائل صرف ہوئے۔ دکن کی طویل جنگوں نے عوام پر بھاری بوجھ ڈالا۔ شاہ جہاں کی سخت نظم و ضبط نے دربار کو شکوہ تو بخشا، مگر انسانی قربت کم کردی۔ ان کے عہد میں اکبر کی وسیع القلبی کے بجائے مذہبی سختی کا رجحان بڑھا

1657ء میں جب شاہ جہاں شدید بیمار ہوئے تو ان کے بڑے بیٹے دارا شکوہ کو ولی عہد نامزد کیا گیا۔ دارا علمی مزاج اور روحانیت کے دلدادہ تھے، مگر ان کے بھائیوں اورنگ زیب، شاہ شجاع اور مراد بخش نے اقتدار کے لیے تلوار اٹھالی۔ ایک خونریز جنگ کے بعد اورنگ زیب غالب آیا، دارا کو گرفتار کیا، اور 1658ء میں باپ کو اقتدار سے ہٹا کر آگرہ قلعے میں نظر بند کردیا

دارا شکوہ کی موت تاریخ کا المناک باب ہے۔ بعض متاخرہ روایات کے مطابق اورنگ زیب نے دارا کا سر قلم کروا کر شاہ جہاں کے سامنے بھیجا، لیکن معتبر مغل ماخذ مثلاً عالمگیرنامہ اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ یقینی بات یہ ہے کہ شاہ جہاں نے اپنے بیٹے کی موت کی خبر قید میں سنی اور گہرے غم میں مبتلا ہوگئے۔ اورنگ زیب جذباتی نہیں بلکہ سیاسی طور پر بے رحم انسان تھا — وہ خاندان سے زیادہ سلطنت کو مقدم سمجھتا تھا

شاہ جہاں نے اپنی زندگی کے آخری آٹھ برس آگرہ قلعے کے مُسَمّن برج میں گزارے۔ یہ برج دریائے جمنا کے کنارے تاج محل کے رخ پر واقع تھا۔ قید اگرچہ شاہانہ تھی، مگر تنہائی نے اسے ایک خاموش مزار بنا دیا۔ ان کی بیٹی جہان آرا بیگم ان کے ساتھ رہیں، ان کی خدمت اور دلجوئی کرتی رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اکثر شام کے وقت تاج محل کو دیکھتے، کبھی کبھی آئینے کے ذریعے چاندنی میں اس کے گنبد کی جھلک کو اپنے قریب لاتے

22 جنوری 1666ء کو شاہ جہاں نے قید ہی میں وفات پائی۔ اسی رات ان کی میت دریائے جمنا کے پار لے جائی گئی اور ممتاز محل کے پہلو میں تاج محل میں دفن کردی گئی

شاہ جہاں نے اپنی زندگی ایک سپاہی کی حیثیت سے شروع کی، ایک معمارِ سلطنت کے طور پر عروج پایا، اور انجام ایک قیدی کی صورت میں کیا۔ ان کی سلطنت مٹ گئی، مگر ان کا فن، ان کی محبت، اور ان کی تعمیر آج بھی زندہ ہے۔ تاریخ انہیں نہ فتوحات کے لیے یاد رکھتی ہے، نہ فہم و فراست کے لیے، بلکہ اس لیے کہ انہوں نے محبت کو سنگِ مرمر میں ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا

Loading