وہ بھی ایک دور تھا
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )1990 تک کی ذاتی مشاہدہ کی تاریخ میں ہم اور ہمارے بزرگ اور آس پاس کے لوگ دوری میں اس طرح چٹنی بنا کے تندوری کی روٹی کھا لیا کرتے تھے۔ یہ چٹنی بنانے کے لئے دھنیا، پودینہ، کیچ میچ کے پتے، سبز مرچ، نمک، انگور کی بیل کے نرم کولے پتے وغیرہ زیادہ تر استعمال ہوتے تھے ۔۔ ٹماٹر کا استعمال بہت کم ہوتا تھا۔
یہ بھی دیکھا کہ لوگ پورے پیاز کو چارپائی کے پاوے پہ رکھ کے اوپر سے مکا مار کے توڑتے اور اس کے ساتھ تندور کی روٹی کھا لیتے تھے ۔۔۔ اگر سبزیوں میں کوئی چیز موجود نہ ہوتی تو اچار یا گڑ کے ساتھ روٹی کھا لیتے۔ سالن زیادہ تر تب ہی بنتا تھا جب مقامی گاؤں میں سبزی اُگنا شروع ہوجاتی تھی ۔۔۔ دکانوں پہ سبزی دستیاب نہیں ہوتی تھی ۔۔۔
ہمارے گاؤں کے دو ویہڑے (محلے) تھے ۔۔۔ ہیٹھلا ویہڑا اور اُتلا ویہڑہ ۔۔۔
دونوں محلوں میں کل ملا کے دو دکانیں تھیں ۔۔۔ جہاں سے گڑ، چینی دالیں وغیرہ دستیاب ہوتی تھیں ۔۔۔
گوشت تب ملتا تھا جب کسی کا جانور حلال ہوتا تھا ۔۔۔ جانور تب حلال ہوتا تھا جب وہ بیمار ہوتا تھا ۔۔۔ ورنہ گاؤں میں شادی اور عید پہ گوشت ملتا تھا ۔۔۔ یا پھر کسی مہمان کے آنے پر میزبان مسجد کے امام سے چوچا ذبح کروا لاتے تھے اور وہ پکایا جاتا تھا۔
توے پہ روٹی بہت کم بنتی تھی، ہر گھر کا طرزِ رہائش ایک طرح کا ہی ہوتا تھا ۔۔۔ حتہٰ کہ گھروں کی بناوٹ بھی ایک طرح کی ہوتی تھی ۔۔۔
کچے کھوٹے کچی چاردیواریاں یا پھر سوکھی جھاڑیوں کی باڑ ۔۔۔
مزے کی بات یہ ہے کہ تب لوگ آج کے لوگوں سے زیادہ خوش ہوتے تھے ۔۔۔ فکر معاش کا مسئلہ نہ تھا ۔۔۔ تمام گاؤں کو کھانا مل جاتا تھا ۔۔۔ چاہے جیسے بھی ۔۔۔ گاؤں میں فقیر نہیں ہوتے تھے بلکہ مدرسے کے بچے صرف شام کو روٹی مانگنے آتے تھے ۔۔۔
ہم خود ۔۔۔ اچھو، اکرو، عیسیٰ موسیٰ عطاء اللہ، تابو، شوکو، لیاقو، باؤ ۔۔۔ جھاؤ، ظلو ۔۔۔ تاری بشیرو ۔۔۔ اور نہ جانے کتنے ۔۔۔ تھے ۔۔۔
دوپہر کو کسی بیر، جامن، امردو، آم شہتوت کے درخت پہ حملہ آور ہوتے اور پیٹ بھر کے فروٹ کھا لیتے ۔۔۔ گھنے چُوپ لیتے، مالٹے کھا لیتے، یہاں تک کہ کیکروں سے نکلنے والی گوند کھاتے تھے ۔۔۔ کچی سبزیاں کھاتے ۔۔۔ چھلیاں بھون کے کھا جاتے ۔۔۔
لیکن کھانا زیادہ تر صرف دو وقت ملتا تھا ۔۔۔ بھتے ویلے یعنی دس گیارہ بجے یا پھر شام ڈھلے ۔۔۔ اندھیرا ہونے سے پہلے ۔۔۔
لیکن آج کا وقت بہت بدل گیا ہے ۔۔۔ ہمارا بچپن تاریخ کے اوراق میں کہیں دب گیا ہے ۔۔۔
کبھی کبھار کوئی اس طرح کی تصویر نظر آتی ہے تو وہی دور دوبارہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے
بقول پروفیسر ڈاکٹر عطاء اللہ عطاء کے
رام دیالا تیرے پچھوں ۔۔۔
اچے اچے چن چبارے
اچیاں اچیاں مڑھیاں
ون پونے ککر کنڈے
ولیں کدھیں چڑھیاں
چڑھیا جیٹھ تے کچڑے کوٹھے
چا چدھرانی لِمے
گجے بدل سون تے بھدرو
ویہڑے نمے نمے
اک سمندر منجیاں کنکاں
وا وگے تے ڈولے
دنداں ہیٹھ خدائ شربت
گنے پولے پولے
ٹوٹے ہویا دیس غضب دا
خلقاں اگیں سڑیاں
تیرے پچھوں رام دیالا