۔۔۔۔۔ وہ سب بھول گیا تھا ۔۔۔۔۔
انتخاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میاں عمران
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ وہ سب بھول گیا تھا ۔۔۔ انتخاب ۔۔۔۔۔ میاں عمران)چھے سال کا وہ چھوٹا سا بچہ سہما سا ہاتھ اوپر کیے کلاس میں سزا میں کھڑا تھا ۔دو بچوں کے بعد اسکی باری تھی ۔وہ ویسے بھی کلاس میں ڈرا ڈرا رہتا تھا ۔خاموش نہ کسی سے زیادہ بات کرتا نہ کچھ کہتا بس سارا دن اداس کسی سوچ میں ڈوبا رہتا ۔ایک ہلکی سی آواز بھی اسی چونکانے کے لیے بہت تھی ۔اسکی باری آچکی تھی ۔وہ کپکپاتا آگے بڑھا اور ٹیچر کو دیکھنے لگا جو ہاتھوں میں چھڑی پکڑے اسکا انتظار کر رہی تھی ۔اسے بازو سے تھام کر ایک جھٹکا دیا ۔” بتاؤ مجھے ہوم ورک کیوں نہیں کیا !وہ ایسے چیخی کے اسکی روح تک کانپ گئی ۔اسے رونا آرہا تھا ۔” ٹی۔۔۔ٹیچر وہ ۔۔۔۔ہوم ورک نہیں ہوا مجھ سے سمجھ ۔۔۔۔نہیں آرہا تھا ! میں نے تو کروایا تھا ۔اور اسی کے ساتھ دو چھڑیاں اسکے نازک موم سے ہاتھوں پر مار دیں ۔
” وہ۔۔۔۔بب بھول گیا تھا !”
” یہی تو بیماری ہے تمہیں سب بھول جاتے ہو پتہ نہیں کونسی سے دنیا میں کھوئے رہتے ہو ماں باپ پڑھائی کا نہیں پوچھتے !”
” نن۔۔۔نہیں ہر وقت لڑتے رہتے ہیں چیختے چلاتے رہتے ہیں کبھی مجھ پر کبھی ایک دوسرے پر ماما پاپا لڑ رہے تھے نہیں کر پایا ہوم ورک ….اسکے ہونٹوں سے کپکپاتے بس یہی نکلا تھا اور پھر وہ کتنی ہی دیر ہاتھ اوپر کیے کھڑا رہا ۔
گھر آنے پر کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی ۔اسکے ماں باپ لڑ رہے تھے ۔
” اسکے سکول سے فون آیاتھا یہ پڑھتا نہیں ہے کھیلتا بھی نہیں ہے کیا کرتا رہتا ہے یہ سارا دن ! اسکا باپ اسکی ماں پر چلا رہا تھا ۔
” مجھے کیا پتہ میں گھر کے کام دیکھو تمہیں دیکھو یا اسے تم خود تو کچھ کرتے نہیں ہو کام سے آکے ایسے گدھے گھوڑے بیچ کر سوتے ہو جیسے مر گئے ہو !”
” زبان سنبھال کر بات کرو ! اسکے باپ نے اسکے سامنے اسکی ماں پر ہاتھ اٹھایا تھا ۔وہ سہم کر دروازے سے جالگا تھا ۔اسکی ماں روتی ہوئی کمرے میں چلی گئی ۔
” اور تم آئیندہ اگر سکول سے شکایت آئی تو ٹانگیں توڑ دوں گا ! اور اسکا ڈر سے پیشاب نکل گیا ۔مگر اسے نہیں دیکھا گیا ۔باپ غصہ نکال کر باہر اور ماں کمرے میں رونے میں مصروف اور وہ ڈرا کتنی ہی دیر وہاں کھڑا رہا ۔اس سے کسی نے نہیں پوچھا بیٹا کیا بات ہے پڑھتے کیوں نہیں دوست کیوں نہیں بناتے اداس خاموش کیوں رہتے ہو نمبر کم کیوں آتے ہیں نہیں انھیں بس یہ یاد تھا کہ وہ جھگڑیلو میاں بیوی ہیں جو اپنے کاموں کو۔لیکر روتے رہتے ہیں یہ نہیں کہ کسی بچے کے پہلی درسگاہ بھی ہے ۔وہ ٹھنڈا کھانا کھا کر بیٹھ گیا پڑھنے مگر لفظ گھوم رہے تھے ۔شور ہورہا تھا کیونکہ اسکی ماں کچن میں برتن اٹھا اٹھا کر مار رہی تھی ۔وہ پڑھیں لکھی نہیں تھی ۔میتھ کی کتاب پکڑے وہ اپنے سگریٹ پیتے باپ کے پاس گیا کہ اسے کام کروا دے ۔اسنے پہاڑے یاد کرنے کو دیے ۔وہ نہیں کر پایا اور باپ کا تھپڑ کھا کر بستر پر لیٹ گیا ۔اسکا ذہن تھکا ہوا تھا لڑائی سے جھگڑے سے کلاس فیلو کے تنگ کرنے سے اور تھکا دماغ کہاں پڑھ پاتا ہے ۔ماں نے آکے پروسا کھانا دیا مگر وہ سونے کا بہانہ کرکے لیٹا رہا اور تھوڑی دیر بعد وہی لڑنے جھگڑنے کی باتیں اسنے تنگ آکر کانوں پر تکیہ رکھ لیا مگر شور کم نہ ہوا اگلے دن پھر سکول سے مار پڑی اور وہ ذہنی طور پر کمزور ہوگیا اور آہستہ آہستہ اسنے اپنے آپ کو اکیلا کرلیا ۔خاموش رہنا پڑھ نہ پانا ڈرتے رہنا ۔گھٹنوں میں سر دیے کئی کئی گھٹنے ہلتے رہنا ۔پھر ایک دن اسکی ماں نے کچھ محسوس کیا اور اسکے لیے گھر پر ایک نفسیاتی ڈاکٹر بلایا گیا۔وہ زمین پر بیٹھا سر گھٹنوں میں دیے ہل رہا تھا جب ڈاکٹر اسکے قریب آئی ” وحید ! مگر و ہلتا رہا ” وحید ! وہ زور سے چلائی تو اسنے چونک کر اسے دیکھا اور منہ پر انگلی رکھ لی ” ششششش !!! شور مت مچاؤ ورنہ ماما پاپا پھر لڑیں گے وہ لڑتے ہیں تو میں پڑھ نہیں پاتا مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا سکول ٹیچر بھی مارتی مجھے نہیں جانا کہیں مجھے نہیں جانا ماما پاپا لڑتے ہیں مجھے کچھ نہیں بتانا وہ پھر لڑیں گے میری وجہ سے ! اور۔نفسیاتی ڈاکٹر افسوس سے اسے دیکھتی رہ گئی ۔ایک بے سکون اور انتشار پسند پہلا درس ایک گھر ایک بچے کو نفسیاتی مریض بنا گیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپکو لگتا ہے کہ گھر میں ہونے والے جھگڑوں کا گالی گلوچ کا بچوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کوئی نفسیاتی ہوجاتا ہے کوئی عادی تو کوئی بے حس میری درخواست ہے لڑ میاں بیوی بن کرلیں مگر ایک بچے کے سامنے ماں باپ بن کر رہے تاکہ اسکا گھر اسکی جنت بن سکے ۔۔