وہ کھڑوس سا
از۔۔۔ ماہوش عروج
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )”یہ کیا طریقہ ہے۔۔؟”
وہ رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی جب وہ کچن میں اس کے سر پہ آ کھڑا ہوا۔
“کیا۔۔۔؟”
ایمان نے ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھا اور پھر واپس اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔
“میری طرف دیکھو۔۔۔”
غزنوی نے اسکی لاپروائی پہ کھولتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی جانب کیا۔اسکی سخت گرفت ایمان کو درد سے دوچار کر گئی۔
“مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔”
ایمان نے جھٹکے سے اپنا بازو اسکی گرفت سے آزاد کیا۔
“لیکن مجھے کرنی ہے۔”
غزنوی نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ایمان نے ایک پل کو اسکے چہرے پہ چھائے غصے کے بادلوں کو دیکھا اور بولی۔
“میں آپ سے پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ اب میرے اور آپ کے بیچ ایسا کچھ نہیں ہے جس پہ بات کی جائے۔”
اسکی آواز دھیمی تھی مگر لہجے میں سختی صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
“تم کون ہوتی ہو اسکا فیصلہ کرنے والی؟”
ایمان کا انداز اسے آگ بگولا کرنے میں بھرپور کردار ادا کر رہا تھا۔ایک تو وہ اسے اپنی بات کہنے کا موقع تک نہیں دے رہی اور نہ ہی خود اس موضوع پر بات کو تیار تھی۔دوسری جانب اعظم احمد اور عقیلہ بیگم نے بھی اس معاملے میں اسکے ساتھ سرد مہری سے کام لیا تھا۔وہ جب سے آیا تھا ان سے بات کرنے کی تگ و دو میں تھا مگر وہ اسے موقع ہی نہیں دے رہے تھے۔انہوں نے اگلی صبح ہی خلع کے کاغذات اسے دستخط کرنے کے لئے دے دیئے تھے۔اسکا جی تو چاہا کہ اسی وقت، ان کے سامنے اس آزادی کے پروانے کو پھاڑ دے مگر احترام آڑے آ گیا۔
صرف شمائلہ بیگم اور ملائکہ ہی تھیں جو اسے اپنے ارادے پہ قائم رہنے کا مشورہ دے رہی تھیں۔انہی کی بات پہ عمل کرتے ہوئے وہ بار بار ایمان کے سامنے جا کھڑا ہوتا مگر وہ اس کی کسی بھی بات کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔
“ٹھیک ہے۔۔۔لیکن میری ایک بات یاد رکھو کہ تم جو چاہتی ہو۔۔میں وہ ہونے نہیں دوں گا۔”
وہ دو ٹوک انداز میں بولا۔
“میں چاہتی ہوں ایسا۔۔؟؟”
ایمان کی سوالیہ نظریں اسکی جانب اٹھی ہوئیں تھیں۔
“تو اور کون چاہتا ہے۔۔۔؟؟ داجی یا شاہ گل۔۔۔؟؟ انہوں نے تو صرف کاغذات تیار کروائے تھے لیکن فیصلے کا حق تو تمھیں دیا تھا اور تم۔۔۔تم مادام تو جیسے دستخط کرنے کو اوتاولی ہوئی جا رہی تھی۔۔جھٹ کر دیئے۔۔تو کون چاہ رہا تھا ایسا۔۔تم، میں یا وہ دونوں۔۔یوں جلدی دستخط کر دیئے جیسے اسی دن کا تو تمھیں انتظار تھا کہ کب تمھیں موقع ملے اور کب تم کر گزرو۔”
وہ چبھتے ہوئے لہجے میں بولا۔۔اسکے طنزیہ لفظوں کی کاٹ ایمان کو اپنے دل کو چیرتی محسوس ہوئی۔
“میں نہیں بلکہ آپ ایسا چاہتے تھے۔”
وہ رخ پھیر کر سرد لہجے میں بولی۔۔اب وہ اس کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔
“میں۔۔۔؟؟ میں نے کب تم سے ایسا کہا کہ میں تم سے علیحدگی چاہتا ہوں۔”
غزنوی نے اسکا رخ اپنی جانب کیا۔
“بے شک زبان سے نہ کہا ہو مگر اپنے رویے سے آپ نے بارہا یہ باور کرایا ہے کہ آپ مجھے ایک ناپسندیدہ بوجھ سمجھتے ہیں اور یہ کہ آپکی نظروں میں میری کوئی وقعت نہیں۔”
ایمان نے اپنے آنسووں کو پیچھے دھکیلا جو سمندر کی منہ ذور لہروں کیطرح باہر آنے کو بیتاب تھے۔
“واہ واہ۔۔۔آپکی عقل کو تو میرا سلام ہے ایمان بی بی۔”
ایمان کے ہر بات خود سے اخذ کر لینے پر وہ مزید چڑ گیا۔
“مجھے آپکے ساتھ نہیں رہنا۔”
یہ کہہ کر وہ تیزی سے وہاں سے چلی گئی۔۔ایمان کو وہ سراسر اسکا مذاق اڑاتا محسوس ہوا تھا جبکہ غزنوی نے غصے سے بھپرتے ہوئے سامنے پڑے شیشے کے گلاس کو فرش پہ دے مارا۔کانچ ٹوٹنے کی آواز سن کر کچن کی طرف آتی شمائلہ بیگم دوڑی آئیں تھیں۔ابھی کچھ دیر پہلے وہ کچن میں آئیں تھیں مگر ایمان اور غزنوی کو بات کرتے دیکھ کر واپس پلٹ گئی تھیں۔
“کیا ہوا۔۔۔یہ گلاس۔۔۔؟؟”
شمائلہ بیگم نے فرش پہ پڑے کانچ کے ٹکڑوں کو دیکھا۔۔
“کچھ نہیں۔۔۔”
وہ کڑے تیور لیے کچن سے نکلا۔۔شمائلہ بیگم گھبرا کر اسکے پیچھے بھاگیں تھیں۔غزنوی کو کمرے کی طرف بڑھتا دیکھ کر ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔انہیں خوف نے آ لیا کہ کہیں وہ کچھ الٹا سیدھا نہ کر دے۔حالات ویسے بھی اسکے خلاف جا رہے تھے۔
“غزنوی۔۔۔بیٹا رکو۔۔بتاو تو سہی آخر ہوا کیا ہے؟”
وہ ہانپتی ہوئی اسکے پیچھے آ رہی تھیں جبکہ وہ تیز قدموں سے اپنے کمرے میں داخل ہوا۔اسکے اسطرح دھڑام کی آواز سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے پر ایمان بوکھلا گئی۔۔
وہ تیزی سے اسکی جانب بڑھا۔
وہ الماری کے پاس کھڑی تھی۔۔ایمان کی آنکھوں میں خوف نک8 نک8ےلگے انگڑائی لی۔غزنوی نے ایک پل کو اسکی خوف سے پھیلتی آنکھوں میں جھانکا اور پھر اسے پکڑ کر الماری کے سامنے سے ہٹایا۔۔
ایمان نے پیچھے مڑ کر ایک نظر دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی شمائلہ بیگم کی طرف دیکھا۔ایمان کو ان کی موجودگی نے کچھ حوصلہ دیا تھا۔
اس دوران غزنوی نے الماری کھول کر اس میں سے خلع کے پیپرز نکالے اور الماری بند کر کے اسکے سامنے آیا۔
“یہ رہی تمھاری آذادی۔۔۔۔”
غزنوی نے خلع کے پیپرز اسکی آنکھوں کے سامنے پُرزے پُرزے کر دیئے اور پھر وہ وہاں رکا نہیں۔۔
ایمان دم سادھے کھڑی تھی۔۔اس نے پیروں میں بکھرے کاغذ کے ٹکڑوں کو دیکھا۔
شمائلہ بیگم کو غزنوی سے اس حرکت کی امید قطعی نہیں تھی۔
غزنوی کے جانے کے بعد وہ اسکے پاس آئیں۔
“تم پریشان مت ہو۔۔آئے گا تو میں سمجھاوں گی اسے۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔”
انہوں نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا جسکی آنکھوں میں ڈولتی نمی اب پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر آ کر اسکا چہرہ بھگو رہی تھی۔اس کی آنکھوں میں دِکھتا سوال شمائلہ بیگم کو نگاہ چرانے پر مجبور کر گئی۔
❇️
“کہاں تھے تم۔۔؟”
رات کے تقریبا گیارہ بجے وہ گھر میں داخل ہوا تھا۔لاؤنج سے کمرے تک فاصلہ وہ بنا ادھر ادھر دیکھے طے کر رہا تھا کہ مکرم احمد کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی۔اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ صوفے پر بیٹھے یقینا اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ان کے ساتھ شمائلہ بیگم بھی موجود تھیں۔
دونوں کی آنکھوں میں غصے کی بجائے سرد مہری تھی۔
“السلام و علیکم بابا۔۔۔!!”
وہ موبائل پینٹ کی جیب میں ڈالتا قریب آیا۔
“وعلیکم السلام۔۔۔!! کہاں تھے۔۔تمھاری ماں کب سے تمھیں فون کر رہی ہے لیکن تمھارا فون بند جا رہا تھا۔”
وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔
“فون آف ہو گیا تھا۔”
وہ مختصرا بولا۔
“ہیم۔۔۔روم میں آو تم سے بات کرنی ہے۔”
وہ اسے گھورتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔
“امی۔۔۔!!”
شمائلہ بیگم نے بھی ان کے پیچھے ہی قدم بڑھائے تھے مگر غزنوی نے انہیں روک دیا۔
“غزنوی۔۔۔بیٹا جو معاملات آرام سے بیٹھ کر سلجھانے والے ہیں تم نے اپنے غصے کی بدولت انہیں مزید گھمبیر کر دیا ہے۔تمھیں میں نے کتنا سمجھایا تھا کہ ایمان کو نرمی سے سمجھاو اسے اپنے ساتھ کا احساس دلاو۔۔۔مگر تم۔۔۔۔تم صرف مجھے بار بار اسکے سامنے شرمندگی سے دوچار کر دیتے ہو؟”
وہ نہایت افسردگی سے اسکی طرف دیکھ رہی تھیں۔
“امی۔۔۔!! وہ ایسی حرکتیں کرتی ہی کیوں ہے جن سے مجھے غصہ آتا ہے۔۔وہ خود کیوں نہیں سمجھ لیتی کہ اگر میں اسے چھوڑنا چاہتا تو اتنا وقت کیوں برباد کرتا۔”
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح سب تک اپنی بات پہنچائے۔۔
“معاف کرنا بیٹا۔۔تم نے اسے اپنایا بھی تو نہیں۔۔”
انہوں نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
“آپ نے اسکا رویہ نہیں دیکھا۔۔”
وہ دھیرے سے بولا۔
“بیٹا۔۔۔!! کسی سے اپنا رویہ اتنا سخت نہیں رکھنا چاہیئے کہ جب وہ پلٹ کر آپ کے سامنے آئے تو آپ اسے سہل نہ کر پاو۔۔زندگی گزارنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ورنہ رشتوں کی ڈور بہت نازک ہوتی ہے۔۔صرف ایک جھٹکا کافی ہوتا ہے ٹوٹنے کے لئے۔۔جہاں تک میں جانتی ہوں ساری غلطی تمھاری ہے۔۔تم نے شروع ہی سے اپنے اور اسکے بیچ انا کی دیوار تعمیر کر رکھی ہے۔اب جبکہ وہ تھک چکی ہے اور پیچھے ہٹنا چاہتی ہے تو تم اسے پیچھے ہٹنے بھی نہیں دے رہے ہو۔”
انہوں نے اسے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی۔
“اگر وہ تھک گئی ہے تو کہہ نہیں سکتی۔”
وہ اب بھی جھکنے کو تیار نہیں تھا۔
“شاباش بیٹا۔۔۔تم ایک عورت سے یہ امید کر رہے ہو کہ وہ آگے بڑھ کر تم سے کہے کہ تمھارے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک گئی اور تمھارا ساتھ، تمھارا سہارا چاہتی ہے۔۔ایسے معاملوں میں عورت تھک تو جاتی ہے مگر ہار نہیں مانتی۔۔اگر داجی اور شاہ گل اس علیحدگی کے مدعے کو نہ اٹھاتے تو وہ کبھی اپنے منہ سے نہ کہتی۔۔یونہی تمھارے پیچھے بھاگتی رہی۔”
وہ سر دائیں بائیں ہلاتی پلٹ کر جانے لگیں۔انہیں لگ رہا تھا کہ وہ دیوار سے سر پھوڑ رہی ہیں۔
“آپ میری ماں ہیں یا اسکی۔۔۔جب دیکھو اسی کی ڈھال بنی کھڑی رہتی ہیں۔”
اسکا دل کہہ رہا تھا کہ غلطی اسی کی ہے مگر دماغ اسے صحیح قرار دے رہا تھا۔
“میں تم دونوں کی ماں ہوں لیکن تم میری تربیت کا پاس رکھنے میں ناکام رہے غزنوی۔۔اب چل کر اپنے بابا کی بات سن لو۔۔وہ انتظار کر رہے ہوں گے۔”
شمائلہ بیگم یہ کہہ کر پلٹ گئیں۔۔وہ بھی خاموشی سے ان کے پیچھے چلنے لگا۔
“اب ایک اور لیکچر سننا پڑے گا۔”
یہ سوچ کر ہی وہ کوفت میں مبتلا ہونے لگا تھا۔
شمائلہ بیگم کے پیچھے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا تو مکرم احمد کھڑکی کے قریب چیئر پر بیٹھے کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے۔کھڑکی کھلی ہوئی تھی اور تازہ ہوا کے جھونکے کھڑکی کے پردے سے ٹکرا کر کمرے کے اندر اپنا احساس دلا رہے تھے۔
شمائلہ بیگم تو بیڈ کی جانب بڑھ گئیں جبکہ غزنوی ان کے سامنے آ کھڑا ہوا۔وہ پوری طرح سے کتاب میں محو دکھائی دے رہے تھے یا پھر دکھائی دینے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔وہ سامنے کھڑا تھا اور وہ اس سے مکمل طور پر لاپروائی برت رہے تھے۔یہ بات اسے کَھلنے لگی۔
“بابا۔۔۔!! آپ کو کچھ بات کرنی تھی۔”
مجبوراً اسے انہیں متوجہ کرنا پڑا۔
“شمائلہ بیگم۔۔!! دیکھا تم نے۔۔زرا سی اگنورنس اس سے برداشت نہیں ہو رہی۔”
مکرم احمد نے کتاب گود میں رکھی اور شمائلہ بیگم کی طرف دیکھا۔
وہ بچہ نہیں تھا کہ ان کی بات کے پیچھے چھپے مفہوم کو نہ جان سکتا۔
“برخوردار۔۔۔یہی لاپروائی تم نے اس بچی سے بھی برت رکھی ہے۔داجی اور شاہ گل نے جو بھی فیصلہ کیا۔۔پہلے تو میں اس کے حق میں نہیں تھا مگر اب میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔”
اب وہ اسکی طرف دیکھ رہے تھے۔
“بابا۔۔۔پلیز۔۔۔!! میں ایسا کچھ بھی نہیں چاہتا۔۔ٹھیک ہے میں مانتا ہوں کہ میری کچھ غلطیاں ہیں۔۔جنھیں میں ٹھیک کرنا بھی چاہتا ہوں۔۔لیکن کوئی میری بات سُنے تب نا۔۔۔اوپر سے آپکی بہو۔۔۔وہ تو چار ہاتھ آگے ہے آپ سب سے۔۔۔میری بات ہی نہیں سُنتی۔”
غصہ ایک بار پھر عود کر آیا تھا۔
“یہ اچھی بات ہے کہ تم اب اپنی غلطی کو سُدھارنا چاہتے ہو۔۔لیکن اس کے لئے تمھیں ایمان سے معافی مانگنی ہو گی۔”
وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
“معافی۔۔۔۔؟؟ کس بات کی معافی۔۔۔؟؟”
وہ بمشکل اپنا لہجہ دھیما کر پایا تھا ورنہ ان کی بات نے آگ پہ تیل کا کام کیا تھا۔
“جو رویہ تم نے اسکے ساتھ روا رکھا تھا۔۔اس کی ذات کی نفی کرتے رہے۔۔اس رویے کی معافی۔۔”
وہ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا بغور معائنہ کرتے ہوئے بولے تھے۔وہ جانتے تھے کہ وہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پاتا۔۔اور ایمان اس کے مزاج کے اس رخ سے اچھی طرح واقف ہے۔
“معاف کیجئے گا بابا۔۔۔میں اس سے اپنے کیے کی معافی مانگ چکا ہوں اور آپ سب کا مجھ سے مزید معافیوں کی توقع رکھنا عبس ہے۔۔آپ لوگ علیحدگی کے ٹاپک کو ختم کیجیئے اور ایمان کو میرے ساتھ بھیجیں۔۔وہاں میرے کام کا حرج ہو رہا ہے۔”
وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوا۔
“ٹھیک ہے۔۔۔کیوں کہ تمھاری ماں یہ سب نہیں چاہتی۔۔اس لئے میں داجی اور شاہ گل سے صبح اس بارے میں بات کروں گا کہ تمھیں ایک موقع اور دیں۔۔جاؤ اب آرام کرو۔۔۔صبح بات ہو گی۔”
وہ بیڈ کی جانب بڑھ گئے۔شمائلہ بیگم نے ان کی بات سن کر سکون کا سانس لیا اور مسکرا کر اسے جانے کا اشارہ کیا۔وہ بھی کمرے سے نکل آیا اور کچھ دیر کے لئے وہیں لاونج میں بیٹھ گیا تھا، کیونکہ اس وقت وہ ایمان کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔
❇️
اگلے دن مکرم احمد نے عقیلہ بیگم اور اعظم احمد سے اس بارے میں بات کی۔۔یہ سن کر تو انہیں خوشی ہوئی تھی کہ غزنوی علیحدگی کے حق میں نہیں ہے۔وہ ایمان کو ساتھ لے جانا چاہتا تھا جس پہ انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا مگر پھر بھی چونکہ علیحدگی کا فیصلہ ایمان کا تھا اس لئے وہ ایک بار اس سے بھی اس بارے میں پوچھنا چاہتے تھے۔وہ اپنی پرانی غلطی کو دہرانا نہیں چاہتے تھے۔
وہ سب راضی تھے۔۔غزنوی کو ایک موقع دینا چاہتے تھے۔اس لئے اگلے دن سبھی بڑے ان کے روم میں موجود تھے اور ایمان کا انتظار کر رہے تھے۔شمائلہ بیگم اسے بلانے گئی تھیں۔وہ سب تو یہ جان ہی گئے تھے کہ غزنوی خلع کے پیپرز پھاڑ چکا ہے اور دل ہی دل میں اس کے اس اقدام پر خوش بھی تھے۔غزنوی بھی وہیں موجود تھا۔
تھوڑی دیر بعد ایمان شمائلہ بیگم کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔وہ دل ہی دل میں بہت کنفیوز تھی۔شمائلہ بیگم نے اسے نہیں بتایا تھا کہ داجی اور شاہ گل اسے کس لئے بلایا ہے۔وہ اسے سرپرائز دینا چاہتی تھیں۔کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ایمان بھی اس رشتے کو ختم کرنا نہیں چاہتی ہے بس وہ غزنوی کے رویے کے باعث یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔
“السلام علیکم۔۔۔!!”
ایمان نے کمرے میں داخل ہوتے ہی باآوازِ بلند سلام کیا۔غزنوی کو وہاں موجود پا کر وہ مزید گھبرا گئی تھی۔لیکن پھر سب کی موجودگی کا احساس اسے ہمت دلا گیا۔
“یہاں آؤ بیٹا۔۔میرے پاس۔۔”
عقیلہ بیگم نے اپنے پاس بلایا۔وہ نَپے تلے قدموں سے چلتی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔غزنوی نے ایک بار بھی اسکی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔وہ مظفر احمد سے باتوں میں مگن تھا۔
“ایمان۔۔۔بیٹا ہم سب نے غزنوی کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔۔تم ہمارے نزدیک اتنی ہی اہم ہو جتنا کہ غزنوی ہے۔وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہے اور اس رشتے کو ایک اور موقع دینا چاہتا ہے اور علیحدگی نہیں چاہتا۔ہم نے بےشک علیحدگی کا فیصلہ تمھارے لئے، تمھاری خوشیوں کو مدنظر رکھ کر کیا تھا لیکن ہم میں سے کوئی بھی اس فیصلے پہ خوش نہیں تھا۔۔ہمیں صرف اور صرف تمھاری خوشی درکار تھی۔خدا گواہ ہے کہ ہم نے تم میں اور اپنے باقی بچوں میں کبھی کوئی فرق نہیں کیا۔تمھیں ہمیشہ اپنی بیٹی سمجھا ہے۔۔لیکن تم یہ نہ سوچنا کہ ہم تم سے اس بنیاد پر فیصلے کا حق چھین رہے ہیں۔ایسا کبھی نہیں ہو گا۔اس لئے ہم نے یہ فیصلہ تم پر چھوڑا ہے کہ تم غزنوی کو ایک آخری موقع دینا چاہتی ہو یا نہیں۔۔۔”
عقیلہ بیگم اپنی بات ختم کر کے اب اسکے بولنے کی منتظر تھیں۔۔بلکہ سبھی منتظر نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔غزنوی بھی اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
ایک پل کے لئے ایمان نے نگاہیں اٹھا کر اپنے بالکل سامنے بیٹھے اُس شخص کو دیکھا جو اسکے لئے ایک ایسے قلعے کی مانند تھا جس میں رہتے ہوئے اب اسکا دم گھٹنے لگا تھا۔۔جس میں قید اسکی محبت کا وجود اب مرجھا گیا تھا۔غزنوی کا چہرہ ہر قسم کے جذبات سے عاری تھا۔وہ اسکے فیصلے کا منتظر تو تھا مگر یہ انتظار اسکی آنکھوں میں کسی راز کی مانند تھا۔وہ نہایت سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔اسکی نگاہوں کی سرد مزاجی ایمان کو اپنی رگوں میں دوڑتے خون کو منجمد کرتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔۔اور پھر ایک پل لگا اسے فیصلہ کرنے میں۔۔۔صرف ایک پل۔۔۔
اس نے ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے ساتھ بیٹھی عقیلہ بیگم کو دیکھا۔۔
“میں اب بھی اپنے فیصلے پر قائم ہوں شاہ گل۔۔۔میں ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔۔میری ہمت جواب دے گئی ہے اس رشتے کی سیلن زدہ دیواروں کہ بیچ رہ کر۔۔۔”
وہ بنا جھجک بولی۔۔۔وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ ہمت اسکے اندر کہاں سے آ گئی تھی۔شاید اس نے اپنے دل کو مار کر زندگی گزارنا سیکھ لیا تھا۔
اس کا فیصلہ سن کر سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔۔عقیلہ بیگم نے غزنوی کو دیکھا۔
غزنوی تیزی سے اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔
“ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔جو تمھارا فیصلہ، وہی ہمارا فیصلہ۔۔”
عقیلہ بیگم اسے سمجھانا چاہتی تھیں مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتیں اعظم احمد نے اسکے فیصلے پر مُہر لگا دی۔وہ خاموش ہو رہیں۔۔
ایمان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ سب اس کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔۔بس اسکی خاطر خاموش ہو گئے ہیں۔وہ انہیں تکلیف دینا چاہتی تھی مگر وہ اپنی زندگی کو مزید دُکھوں میں بھی نہیں دھکیل سکتی تھی۔اس شخص پہ اعتبار نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ایک انا پرست شخص پہ بھروسہ کرنے کی غلطی وہ دوبارہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔
وہ خاموشی سے وہاں سے اٹھ آئی۔۔۔باقی سب اسکے الفاظ کے ہی چکرویو میں پھنسے ہوئے تھے۔ان کے تو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ وہ نازک سی لڑکی۔۔نرم جذبات رکھنے والی لڑکی۔۔۔اتنا کٹھن فیصلہ کر سکتی ہے۔
“بس اب اس بارے میں مزید بات نہیں ہو گی۔”
اعظم احمد نے عقیلہ بیگم کے بہتے آنسوؤں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
“لیکن داجی۔۔۔وہ بچی ہے۔۔۔اگر غزنوی ایک موقع چاہتا ہے تو کیوں نہیں۔۔۔ہم بڑے ہیں، ایمان کو سمجھانا ہمارا فرض ہے۔۔وہ ایک غلط فیصلہ کر رہی ہے۔۔مجھے پہلے بھی اس فیصلے پر اختلاف تھا اور اب بھی ہے۔شاہ گل آپ لوگوں کو خلع تک بات لانی ہی نہیں چاہیئے تھی۔اب دیکھ لیں آپ۔۔”
شمائلہ بیگم بھی رونے لگیں تھیں۔
“شمائلہ یہ کسطرح بات کر رہی ہو تم شاہ گل سے۔۔۔بیٹے کی محبت تم پہ اسقدر حاوی ہو گئی ہے کہ اس بچی کی تکلیف تمھیں دکھائی نہیں دیتی۔کون عورت اپنے ہاتھوں سے اپنا گھر جلانا چاہے گی۔۔اگر اس نے یہ فیصلہ کیا ہے تو یہ فیصلہ کرنے کے لئے تمھارے بیٹے نے ہی اسے مجبور کیا ہے۔اگر غزنوی کے کرتوت اچھے ہوتے تو وہ اسے ایک موقع ضرور دیتی۔۔ہمارے فیصلے کو عزت دیتی۔”
مکرم احمد کو شمائلہ بیگم کا بات کرنے انداز پسند نہیں آیا تھا۔
“مکرم۔۔۔۔!!”
اعظم احمد نے مکرم احمد کو تنبیہی نظروں سے دیکھا۔۔مکرم احمد اٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔
“معاف کیجیئے گا شاہ گل۔۔۔”
شمائلہ بیگم اٹھ کر عقیلہ بیگم کے پاس آئیں اور ان کے ہاتھ تھام لئے۔۔۔
“شمائلہ۔۔۔!! کیسی معافی۔۔۔تم نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔۔ہم نے ہی جلد بازی سے کام لیا۔”
عقیلہ بیگم افسردہ لہجے میں بولیں۔
“ٹھیک ہے تو پھر عید کے بعد اس فیصلے کو عملی جامہ پہنائیں گے۔۔ہو سکتا ہے تب تک کوئی نرم شگوفہ ان دونوں کے دل میں پھوٹ پڑے۔”
اعظم احمد نے سبھی سے کہا اور واش روم کی جانب بڑھ گئے۔
“بابا ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔ہو سکتا معاملے کو طوالت دینا کوئی بہتر متبادل سامنے لے آئے۔”
معظم احمد نے اپنی خاموشی کو توڑا۔
“اللہ کرے ایسا ہی ہو۔”
مکرم احمد نے کہا تو سبھی نے آمین کہا۔
❇️
وہ وہاں سے سیدھی لان میں آئی تھی۔۔موسم کافی خوشگوار ہو رہا تھا۔ہلکی ہلکی ہوا طبیعت پہ اچھا اثر ڈال رہی تھی۔وہ کین کی کرسی کو پیڑ کے سائے میں لے آئی اور وہیں بیٹھ گئی۔
“مجھے تو خوش ہو جانا چاہیئے تھا۔۔۔پھر کیوں میرے دل کی گرہ کھلی نہیں ہے۔۔کیوں اس رشتے کے بےجان لاشے پر آنسو بہانے کو جی چاہ رہا ہے۔۔کیوں اپنا ہی فیصلہ مجھے بیاباں میں گھسیٹ لایا ہے۔۔”
وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپائے رو دی۔
“یوں رونے سے دل پہ پڑا بوجھ کم ہونے سے رہا۔”
ارفع کی آواز پہ اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر اسے دیکھا اور تیزی سے اپنے بہتے آنسوؤں کو صاف کیا۔ارفع کے ساتھ عنادل، ملائکہ اور باقی سب بھی تھیں۔وہ سبھی اسکے پاس نیچے ہی بیٹھ گئیں۔
“جانتی ہوں کہ دل پہ پڑا بوجھ رونے سے کم نہیں ہو گا۔۔مگر اس درد میں گھلنے سے تو بہتر ہے کہ اسے کسی صورت تو باہر نکالوں۔۔ورنہ اندر سے مزید خالی ہو جاؤں گی۔”
آنسو ایک بار پھر سے اسکا چہرہ بھگونے لگے تھے۔
“اگر اپنا ہی فیصلہ سہل نہیں کر پا رہی ہو تو کیوں کیا یہ فیصلہ؟”
فائقہ نے اسکا ہاتھ ہاتھوں میں لیا۔
“تو پھر کیا کرتی۔۔؟؟ بتاؤ۔۔۔۔”
ایمان کے پوچھنے پر فائقہ خاموش رہی۔
“ایک بار سے اس شخص کی بےاعتنائی سہنے کی ہمت نہیں ہے اب مجھ میں۔۔غزنوی اپنی ہی انا کے زعم میں قید ایک مضبوط دیوار ہے۔۔جس سے سر ٹکرا کر میں لہو لہان تو ہو سکتی ہوں پر اسے توڑ نہیں سکتی۔”
ایمان کے رونے میں اضافہ ہوا۔۔فائقہ نے اسکے آنسو پونچھے۔۔
“تو جب دل کڑا کر کے فیصلہ لے لیا ہے تو پھر خود کو مضبوط رکھو۔”
لاریب نے بھی سمجھانے کی کوشش کی۔۔ایمان کا یوں رونا ان سب کو تکلیف دے رہا تھا۔
“تم فکر نہ کرو۔۔۔مصطفیٰ آئیں گے تو میں بات کروں گی کہ وہ غزنوی سے بات کریں۔۔۔اسے سمجھائیں۔”
پرخہ نے اسے ساتھ لگایا۔
“نہیں پرخہ آپی۔۔۔آپ کوئی بات نہیں کریں گی مصطفیٰ بھائی سے۔۔”
ایمان نے پرخہ کو منع کیا۔
“اچھا ٹھیک ہے تو پھر سنبھالو خود کو۔۔۔”
پرخہ نے اسے ہلکا سا ڈانٹ دیا۔
“اوئے۔۔۔۔غزنوی بھائی آ رہے ہیں۔”
عنادل نے غزنوی کو باہر آتے دیکھکر کہا تو سب گھبرا کر اٹھ کھڑیں ہوئیں۔ایمان نے جلدی سے اپنا چہرہ صاف کیا اور تھوڑا سا رخ موڑ گئی۔۔وہ غصے میں لگ رہا تھا اور ان سب پہ ایک بھی نظر ڈالے بغیر سوٹ کیس کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے گاڑی تک لایا۔
“رفیق۔۔۔!!”
اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور چلّاتے ہوئے چوکیدار کو آواز دی۔۔وہ بیچارا بھاگ کر آیا اور سوٹ کیس اٹھا کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ رکھا، پھر گیٹ کھولنے کے لئے بھاگا۔
وہ سب وہیں کھڑیں اسے جاتا دیکھ رہی تھیں۔۔لیکن ایمان نے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔اسے ڈر تھا کہ ایک بار بھی اگر اس نے اسے پلٹ کر دیکھ لیا تو وہ ٹوٹ جائے گی اور وہ ٹوٹنا نہیں چاہتی تھی۔
گیٹ کھلتے ہی وہ گاڑی زن سے گیٹ سے نکال لے گیا۔
“چلو جی۔۔۔اللہ ملائے جوڑی،ایک اندھا ایک کوڑی۔۔۔”
عنادل نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا۔
“یہ کیا بونگیاں مار رہی ہو؟”
سحرش نے اسکے سر پہ چپت لگائی۔
“اللہ۔۔آپی محاورہ بولا ہے نا۔۔”
عنادل نے سر پہ ہاتھ پھیرا۔
“اس وقت تو ان دونوں پہ یہ محاورہ سوٹ کرتا ہے۔۔۔وہ کیا تھا۔۔۔؟”
لاریب سوچنے لگی۔۔۔وہ سبھی اسکی طرف دیکھ رہیں تھیں۔
“ہاں یاد آیا۔۔۔۔ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔”
لاریب بولی تو سبھی کو ہنسی آ گئی۔
“شش۔۔۔!! یہ کوئی موقع ہے شگوفے چھوڑنے کا۔۔۔”
سحرش نے انہیں ڈانٹا اور ایمان کی طرف اشارہ کیا جو ابھی تک پیٹھ کیے بیٹھی تھی۔وہ سبھی خاموش ہوئیں۔
“ویسے ایمان کو اس وقت ہلکے پھلکے ماحول کی ضرورت ہے۔۔کیوں عنادل۔۔؟؟”
لاریب نے عنادل کو ٹہوکا دیا۔
“ہاں ہاں۔۔۔۔بالکل۔۔۔”
عنادل نے لاریب کی ہاں میں ہاں ملائی۔
“تو پھر۔۔۔۔۔ہم ایسا کرتے ہیں کہ غزنوی بھائی کو فون کر کے کہتے ہیں کہ ایمان ان کے غم میں بے ہوش ہو گئی ہے۔”
ملائکہ جو اتنی دیر سے بالکل خاموش بیٹھی تھی، کھڑی ہوئی۔ایمان نے فوراً اسکی طرف دیکھا۔
“خبردار ملائکہ۔۔۔۔اگر تم نے ایسا کچھ بھی کیا تو پھر مجھ سے کبھی بات مت کرنا۔”
وہ اسے وارننگ کرتی وہاں سے چلی گئی۔
“ِان دونوں کو سیدھا کرنے کے لئے ہمیں ہی کچھ کرنا ہو گا۔”
پرخہ نے دور جاتی ایمان پر سے نظریں ہٹا کر ان سب کی طرف دیکھا۔
“کیسا۔۔۔۔۔؟؟”
وہ جو سب اسکی بات سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں، اسکے یوں بھنویں اُچکا کر ہاتھ پھیلانے پر ہنس دیں اور اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ دیئے۔اب وہ سب سر جوڑے اور حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے اپنے آئیڈیاز دے رہی تھیں۔
“اے لڑکیو۔۔۔یہ کیا سر جوڑے بیٹھی ہو تم سب۔۔پھر کون سی کھچڑی پکا رہی ہو۔”
خیرن بوا پھولتی سانسوں پر قابو پاتیں ان کے قریب رکھی کرسی پہ آ کر بیٹھ گئیں۔
“کچھ نہیں بوا۔۔۔ہم تو بس یونہی۔”
سحرش سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
“اچھا جاو۔۔۔اپنی اماں کی مدد کرو جا کر۔۔رمضان شروع ہونے والا ہے۔”
خیرن بوا گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتی اٹھ کھڑی ہوئیں اور ان کے جانے کے بعد وہ ساری ایک بار زور و شور سے سے اپنی اسکیم تیار کرنے لگیں۔پلان بنانے کے بعد انہوں لڑکوں سے بھی بات کر لی۔۔وہ سب بھی تیار تھے جانے کے لئے۔۔لیکن انہوں نے بڑوں کو منانے کا زمہ انہی کے سر ڈال دیا تھا۔۔ان سب نے کل کا دن ڈیسائیڈ کیا تھا عقیلہ بیگم سے بات کرنے کا کیونکہ ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔غزنوی کے اسطرح بنا بتائے چلے جانے سے وہ بہت پریشان تھیں بلکہ سبھی پریشان تھے۔
❇️
“پلیز شاہ گل۔۔آپ پرمیشن لے دیں نا۔۔۔داجی سے۔۔”
وہ ساری اگلے ہی دن اپنے متفقہ پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عقیلہ بیگم کے پیچھے پڑی ہوئیں تھیں۔
“ائے لڑکیو۔۔۔!! بالکل ہی باؤلی ہوئی جا رہی ہو تم لوگ تو۔۔۔ائے یہ بھی کوئی دن ہیں گھومنے پھرنے کے۔۔عید کے بعد چلے جانا سارے۔۔”
خیرن بوا بھی اپنا پان دان لئے وہیں بیٹھی ہوئیں تھیں اور ان کے پلان کا تیاپانچہ کرنے کی کوشش میں تھیں۔
“بوا ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔چار دن ہی تو باقی ہیں رمضان المبارک میں۔۔۔اور تم لوگ ایک دو دن کے لئے جا کر بھی کیا کرو گے۔۔عید کے بعد سب مل کر جانا اور زیادہ دن گزارنا۔دو دن میں کیا لطف اٹھا پاؤ گے۔”
شمائلہ بیگم نے انہیں سمجھایا۔
“امی۔۔۔یہ پلان ہم نے اپنے لئے تھوڑی نا بنایا ہے۔۔یہ تو ہم نے ایمان کے لئے بنایا ہے۔۔وہ بہت اداس ہے۔۔جگہ بدلے گی تو اسکے لئے اچھا رہے گا نا۔۔آپ خود تو دیکھ رہی ہیں کہ وہ کتنی خاموش ہو گئی ہے۔”
ملائکہ نے شمائلہ بیگم کے گلے میں بانہیں ڈالیں۔وہ سب بھی زور زور سے سر ہلانے لگیں۔
“سحرش اور پرخہ۔۔۔یہ تو بچیاں ہیں۔۔مجھے تم دونوں سے ایسی بے وقوفی کی امید نہیں تھی۔تم دونوں کو چاہیئے تھا کہ انہیں سمجھاتیں، الٹا ان کی الٹی سیدھی پِینگوں میں تم بھی جھولنے کو تیار ہو گئیں۔۔اپنے اپنے شوہروں سے اجازت لی ہے تم دونوں نے؟”
شمائلہ بیگم نے پرخہ اور سحرش سے پوچھا۔۔
“اوہو۔۔۔ممانی بتا تو رہے ہیں کہ سارا پلان ہم نے صرف اور صرف ایمان کے لئے بنایا ہے۔۔اور ہادی اور مصطفیٰ بھائی بھی جا رہے ہیں ہمارے ساتھ۔۔”
سحرش بولی۔۔اب شمائلہ بیگم کو کیا پتہ تھا کہ یہ پلان انہی دونوں کا ہے ورنہ دونوں کی خیر نہ ہوتی۔
“بھابھی۔۔!! بچیاں ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔ایمان بہت چپ چپ سی رہنے لگی ہے۔اچھا ہے ایک دو دن گھوم پھر آئیں گے تو اچھا رہے گا۔شاہ گل آپ بھی مان جائیں۔۔پھر لڑکے ساتھ جا تو رہے ہیں۔”
صائمہ بیگم نے بھی ان کا ساتھ دیا۔
“اچھا ٹھیک ہے۔”
بالآخر عقیلہ بیگم کو ماننا ہی پڑا۔
“یاہو۔۔۔۔!!”
ان کا ماننا ہی تھا کہ وہ سب خوشی سے اچھلنے لگیں۔
“اے لو۔۔۔اب بندریا کی طرح اچھلنے کی کیا ضرورت ہے۔”
خیرن بوا منہ پہ ڈوپٹہ رکھ کر ہنسنے لگیں۔۔
“چلو بندریو۔۔۔!! پیکنگ کرو۔۔اور ساتھ ہی ساتھ بندروں کو بھی اطلاع دے دو۔”
عنادل نے کہا تو سبھی ہنس دیئے۔
“اچھا ہم بندریاں ہیں تو آپ کیا ہیں؟”
ملائکہ نے عنادل سے پوچھا۔
“یہ بندریوں کی شہزادی ہیں۔”
اس سے پہلے کہ عنادل جواب دیتی، لاریب بول پڑی۔
“کانسنٹریٹ گرلز۔۔۔۔شہزادی۔۔۔”
عنادل نے ایک ادا سے اپنی جانب اشارہ کیا۔۔
“جی جی۔۔۔۔شہزادی صاحبہ۔۔۔چلیں ہم پیکنگ کر لیں۔”
لاریب نے عنادل کو بازو سے پکڑا اور وہاں سے چلی گئی۔۔پیچھے وہ سب بھی باری باری نکل گئیں۔
❇️
“کیا ہوا۔۔؟؟ کل سے یہ تیری اجڑی شکل دیکھ رہا ہوں۔۔اب تم کچھ بتاو گے یا پھر اس معاملے میں مجھے پولیس کی مدد لینی پڑے گی۔”
کمیل دیکھ رہا تھا کہ جب سے وہ آیا تھا کچھ خاموش سا تھا۔پہلے بھی کوئی اتنا باتونی نہیں مگر کبھی اسطرح چپ بھی نہیں رہا تھا۔وہ انتظار کر رہا تھا کہ کب وہ اس سے شیئر کرتا ہے مگر وہ خاموشی سے اپنے کام میں مصروف رہتا اور کام نہ ہوتا تو خیالوں میں گم رہتا۔
جب اس نے ذکر نہیں کیا تو آج اس نے خود ہی پوچھ لیا۔
“کیا مطلب؟”
غزنوی نے فائل بند کر کے اسکی جانب دیکھا۔
“میں نے کوئی اتنا مشکل سوال نہیں پوچھا کہ تم جواب نہ دے سکو۔۔جبکہ جانتے بھی ہو کہ میں کس بارے میں پوچھ رہا ہوں اور کیوں پوچھ رہا ہوں۔”
کمیل ٹیبل پہ ہاتھ رکھ کر اسکی جانب جھکا تھا۔
“ہم کام کے بارے بات کر رہے تھے اور کام کے بارے میں ہی بات کریں تو اچھا ہو گا۔”
غزنوی دوبارہ فائل کھول کر اس پہ جھک گیا۔
“ٹھیک ہے تم نہیں بتانا چاہتے تو نہ بتاؤ۔”
کمیل نے اس کے ہاتھ سے فائل لے لی اور پھر دونوں ہونے والی میٹنگ کے اہم پوائنٹس ڈسکس کرنے لگے۔
“ٹھیک ہے یہ فائل میں ایک بار ہارون صاحب کو دکھا دیتا ہوں۔۔تم تب تک چائے منگواؤ اور ساتھ کچھ کھانے کو بھی منگوانا۔”
کمیل فائل اٹھا کر کیبن سے نکل گیا۔
چائے کی طلب تو اسے بھی ہو رہی تھی، اس لئے اس نے چائے منگوائی اور چیئر سے پشت ٹکا کر ریلکیس ہو کر بیٹھ گیا۔
فارغ ہوا تو خیالات کی ہوا پھر سے اسے انہی لمحوں میں واپس لے گئی۔وہ اس بارے نہیں سوچنا چاہتا تھا اسی لئے گھر میں اور گھر سے باہر اس نے خود کو کام میں مصروف رکھا تھا۔ایمان کے فیصلے نے اسکے دل و دماغ کا سکون برباد کر رکھا تھا۔گھر میں ہوتا تو اسکی یاد اور شدت اختیار کر لیتی تھی۔ایمان نے یہاں ذیادہ وقت نہیں گزارا تھا مگر پھر بھی اسے گھر کے ہر ایک کونے میں اسکی موجودگی کا احساس ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے آفس میں زیادہ وقت گزارنا شروع کر دیا تھا۔
“کیا سوچ رہا ہے۔۔؟؟”
وہ آنکھیں بند کیے گہری سوچ میں گم تھا کہ کمیل نے ٹیبل بجا کر اسے متوجہ کیا۔
“کچھ نہیں۔۔۔۔ہارون صاحب کو کہتے کہ ایک بار اچھے سے اسٹڈی کر لیں۔”
وہ سیدھا ہوا۔۔اسی دوران پیون چائے اور اسنیکس لیے انٹر ہوا۔
“ہاں کہہ دیا ہے۔”
کمیل اسے بغور دیکھتے ہوئے بولا۔
“گُھور کیوں رہا ہے؟”
غزنوی نے چائے کا کپ اسکی جانب بڑھایا۔
گُھور نہیں رہا۔۔۔دیکھ رہا ہوں کہ ایسی کون سی بات ہے جو تم مجھے بتا نہیں پا رہے ہو۔”
کمیل نے کپ اسکے ہاتھ سے لے کر واپس ٹیبل پر رکھا۔
“تمھیں تو یونہی خواہ مخواہ تجسس کا بخار چڑھ جاتا ہے۔۔میں بالکل ٹھیک ہوں۔”
اس نے کہا تو کمیل ہنس دیا۔
“ویسے ایک بات کہوں۔۔بالکل مجنوں لگ رہا ہے۔”
کمیل کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
“یونہی بے پَر کی اڑانا چھوڑو اور کام پہ دھیان دو۔۔۔مجھ پہ ریسرچ کرنے سے کچھ نہیں ملنا۔”
وہ چائے کا کپ اٹھاتا بولا۔
“اچھا۔۔۔ٹھیک ہے میں بے پر کی اڑا رہا ہوں۔۔۔تم یہ بتاؤ کہ بھابھی کو ساتھ کیوں نہیں لائے؟”
کمیل نے بے خیالی میں اسکی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا۔
“ایک دو دن میں آ جائے گی۔”
اس نے اس موضوع سے جان چھڑائی۔
“ہییم۔۔۔اچھی بات ہے۔۔”
کمیل نے اسنیکس کی پلیٹ اپنی جانب کھینچی۔۔غزنوی نے بھی شکر ادا کیا ورنہ کب سے اسکی دوربین جیسی آنکھوں کو خود پہ محسوس کر رہا تھا۔وہ بھی خاموشی سے چائے پینے لگا لیکن دماغ نے پھر سے ایمان کی یادوں کے چکر لگانا شروع کر دیئے تھے۔
❇️
کُھلی جو آنکھ ، تو وہ تھا، نہ وہ زمانہ تھا
دہکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا
غموں نے بانٹ لیا ہے مجھے یوں آپس میں
کہ جیسے میں کوئی لُوٹا ہُوا خزانہ تھا
یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے
تُمھیں تو ساتھ میرا دُور تک نِبھانا تھا
مجھے، جو میرے لہو میں ڈبو کے گزُرا ہے
وہ کوئی غیر نہیں، یار اِک پُرانا تھا
خود اپنے ہاتھ سے شہزاد اُس کو کاٹ دِیا
کہ جس درخت کی ٹہنی پہ آشیانہ تھا۔۔
عابدہ پروین کی درد میں لپٹی آواز غزل کے بول اسکے دل کی چبھن کو بڑھا رہے تھے۔آنکھیں تو اب ہر پل چھلکنے کو بیتاب رہنے لگیں تھیں۔اس وقت بھی اسکی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔اس نے غزنوی سے الگ ہونے کا فیصلہ تو لے لیا تھا مگر اس سے الگ ہونا آسان نہیں تھا۔اس کمرے کی ہر اک شے میں اسکی یاد جھلکتی تھی۔کمرے میں رہتی تو دل کا درد سوا ہو جاتا اور غزنوی کی موجودگی کا احساس اسے کمرے سے باہر جانے نہیں تھا۔
اس کا حال پنجرے میں قید اس پنچھی جیسا تھا جسے اسکی قید سے محبت ہو گئی ہو۔۔
وہ گاوں جانا چاہتی تھی مگر شاہ گل نے اسے جانے نہیں دیا تھا۔وہ جانتی تھی کہ اگر وہ چلی گئی تو واپس نہیں لوٹے گی لیکن انہوں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے گاوں لے کر ضرور جائیں گی۔
وہ انہی سوچوں میں غلطاں تھی وہ ساری کسی ہجوم کی مانند کمرے میں داخل ہوئیں۔
“چلو لڑکی پیکنگ کرو۔۔۔ہم جا رہے ہیں۔”
پرخہ نے قریب آ کر اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ایمان نے ناسمجھی سے پہلے پرخہ اور باقی سب کی جانب دیکھا۔
“ارے یار۔۔۔میں نے بہت سادہ الفاظ کا استعمال کیا ہے۔تم تو مجھے یوں دیکھ رہی ہو جیسے میں نے فارسی بولی ہو۔”
پرخہ نے اسکی حیران نظروں کے جواب میں کہا۔
“مگر کہاں۔۔۔؟؟”
ایمان نے پوچھا۔
“مری۔۔۔”
لاریب اور عنادل ایک آواز ہو کر بولیں۔
“مری۔۔۔کس لئے۔۔؟”
اس نے غیر دماغی سے سوال کیا۔
“وہاں خلاء سے خلائی مخلوق کا بچہ گرا ہے اور ہم گود لینے جا رہے ہیں۔”
عنادل نے نہایت معصومیت سے کہا۔۔باقی سب کے لبوں پہ دبی دبی مسکان سج گئی۔۔ایمان بھی اسکی بتائی وجہ سن کر مسکرا دی۔
“یار ہم نے سوچا تھوڑی آوٹنگ شاوٹنگ ہو جائے۔اس لئے ہم نے مری جانے کا پلان بنایا ہے۔”
ارفع نے کہا۔
“تم لوگ جاو یار۔۔۔مجھے نہیں جانا۔”
یہ کہتی وہ بیڈ پہ جا بیٹھی۔
“کوئی بہانا نہیں۔۔۔تم ہمارے ساتھ چل رہی ہو۔”
سحرش اسکے پاس آ کر بیٹھ گئی اور باقی سب بھی اسکے سر ہو گئیں اور اسے منا کر ہی دم لیا۔ساتھ ہی ساتھ مل کر اسکی پیکنگ بھی کروا لی۔۔
“ارے یہ اتنے سارے کپڑے۔۔۔ہم تو صرف دو دن کے لئے تو جا رہے ہیں۔”
ایمان نے پرخہ کو اتنے زیادہ کپڑے بیگ میں رکھتے دیکھ کر کہا۔
“یار کیا پتہ ہم زیادہ دن کے لئے رک جائیں۔”
سحرش نے کہا تو وہ مزید کچھ نہ کہہ سکی۔اگلے دن ان کی روانگی تھی۔
“یہ تم لوگ کیا کھسر پھسر کر رہی ہو؟”
ایمان نے فائقہ، لاریب اور ملائکہ کو دیکھ کر کہا۔وہ کتنی دیر سے انہیں نوٹ کر رہی تھی کہ وہ ایک دوسرے کے کان میں کچھ کہتیں اور پھر ہنسنے لگتیں۔
“ہماری آپس کی بات ہے۔”
فائقہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
“اچھا۔۔۔۔؟؟”
ایمان نے غیر مطمئن انداز میں کہا۔
“جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
فائقہ ایک لمبی سی جی کہہ کر پھر سے اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔۔
کچھ دیر بعد جب شگفتہ انہیں رات کے کھانے کے لئے بلانے آئی تو ان کی یہ کھسر پھسر بند ہوئی۔
❇️
مری میں ان سب نے بہت انجوائے کیا۔صرف دو ہی دن تھے اس لئے وہ سب خوب گھومے پھرے۔۔جگہ کی تبدیلی نے ایمان پہ اچھا اثر ڈالا تھا۔ان سب نے بھی اسے ایک پل کے لئے بھی اکیلا نہیں چھوڑا تھا۔جو بھی اُوٹ پٹانگ حرکتیں کرتیں ساتھ میں اسے بھی شامل رکھتی۔آج شام کے بعد ان کی واپسی تھی۔ان کا جی تو نہیں چاہ رہا تھا مگر پلان نمبر ٹو پہ عمل بھی تو کرنا تھا۔اس لئے انہوں جانے سے پہلے کچھ شاپنگ کی اور پھر روانہ ہوئے۔
“یار یہ تم لوگ کیا کر رہی ہو۔۔۔چپ کر بیٹھو۔۔۔کان کھا لئے ہمارے۔۔اب اگر چُوں چُوں کی نہ تو یہیں گاڑی سے اتار دوں گا۔”
ان کی ہنسی کو بریک لگانے کے لئے مرتضیٰ نے پیچھے مڑ کر انہیں ہلکی پھلکی ڈانٹ سے نوازا۔
“مصطفیٰ بھائی۔۔۔۔کیا ہم اسلام آباد پہنچ گئے ہیں؟؟”
مرتضیٰ کی بات کو اگنورنس کے ڈبے میں ڈال کر عنادل نے مصطفیٰ سے پوچھا۔
“ہاں گڑیا۔۔۔ہم پہنچ گئے ہیں اسلام آباد۔۔”
مصطفیٰ نے جواب دیا۔
“اچھا۔۔۔۔۔غزنوی بھائی کا گھر یہاں سے قریب ہے؟”
اگلا سوال لاریب کی جانب سے آیا۔
“نہیں۔۔۔”
مصطفیٰ کا مختصر جواب آیا۔
“ہییم۔۔۔”
لاریب نے عنادل کو دیکھا۔۔
ابھی بیس منٹ کا سفر مزید کیا تھا کہ فائقہ پیٹ پکڑ کر رونے لگی۔سب ہی اسکی طرف متوجہ ہو گئے۔
“کیا ہوا فائقہ۔۔۔؟”
سحرش جو اسکے پاس ہی بیٹھی تھی۔پریشانی سے پوچھنے لگی۔
“آپی پیٹ میں شدید درد ہو رہا ہے۔”
وہ پیٹ پکڑ کر دوہری ہوتے ہوئے بولی۔ایمان بھی پریشانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔مصطفی نے گاڑی رکوائی۔سبھی فائقہ کی طرف متوجہ تھے۔
“اس کی حالت تو بہت خراب ہو رہی ہے مصطفیٰ۔۔۔ڈاکٹر کو دکھانا پڑے گا۔”
پرخہ نے اپنے سینے سے لگی روتی فائقہ کو دیکھ کر مصطفیٰ سے کہا۔
“ہاں کچھ کرتے ہیں۔”
مصطفیٰ نے ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا۔
“کیوں نا ہم غزنوی بھائی کی طرف چلیں۔۔۔”
عنادل کا مشورہ سبھی کو پسند آیا اور مصطفیٰ ڈرائیور کو گائیڈ کرنے لگا۔کچھ دیر بعد وہ غزنوی کے گھر پہنچ گئے تھے۔غزنوی ان سب کو وہاں دیکھکر حیران رہ گیا تھا۔۔
“تم سب یہاں کیسے۔۔۔؟؟”
غزنوی نے مصطفیٰ کے گلے ملتے ہوئے پوچھا۔
“یار فلحال اس بات کو چھوڑو۔۔۔فائقہ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔۔اسے ڈاکٹر پہ لے کر جانا ہے۔”
مصطفیٰ نے غزنوی کا دھیان فائقہ کی طرف دلایا۔جو لان میں کین کی کرسی پہ بیٹھی مسلسل روئے جا رہی تھی۔ایمان بھی چہرے پہ پریشانی لئے اسی کے ساتھ تھی۔
“اچھا ٹھیک ہے۔۔چلو۔۔۔۔”
غزنوی گاڑی کی طرف بڑھا تو مصطفیٰ نے پرخہ اور ایمان کو اشارہ کیا۔وہ دونوں فائقہ کو سہارا دیئے گاڑی تک لائیں۔پرخہ بھی ساتھ ہی بیٹھ گئی اور گاڑی تیزی سے گیٹ سے نکل گئی۔
جیسے ہی گاڑی گیٹ سے نکلی وہ ساری اندر کی جانب بڑھیں۔
“بھابھی۔۔۔!! اچھی سی چائے پلوا دیں۔”
مرتضیٰ نے صوفے پہ بیٹھتے ہوئے ایمان سے کہا تو وہ سر ہلاتی کچن کی جانب بڑھ گئی۔
غزنوی اور مصطفیٰ جب فائقہ کو لئے واپس آئے تو وہ سب وہیں لاؤنج میں ان کا انتظار کر رہے تھے۔فائقہ اب تھوڑی بہتر لگ رہی تھی۔پرخہ نے اسے وہیں بٹھایا۔ایمان اس کے پاس آئی اور اس سے طبیعت کا پوچھا۔فائقہ نے اسے بتایا کہ اب وہ بہتر محسوس کر رہی ہے۔اسے بہتر دیکھ کر ایمان کے چہرے سے پریشانی کے بادل چھٹے تھے۔
سبھی لڑکیاں پریشانی سے پرخہ کی جانب دیکھ رہی تھیں۔اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں سب ٹھیک رہنے کا اشارہ کیا تو وہ ریلیکس ہو گئیں۔
“اب اس وقت تو واپس جانا مناسب نہیں۔۔۔گھر فون کر کے بتا دو کہ تم لوگ یہاں ہو اور آج واپس نہیں آ پاؤ گے۔”
غزنوی نے ایک نظر فائقہ کے پاس بیٹھی اس دشمنِ جاں پر ڈالی اور مصطفیٰ سے کہا۔
“بھائی میں نے کر دیا ہے۔”
فروز نے مصطفیٰ کو موبائل نکالتے دیکھ کر کہا۔۔
“ٹھیک ہے تو پھر آرام کرو تم سب۔۔”
غزنوی نے ان سب سے کہا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔وہ سب بھی سونے کے لئے اٹھ گئے۔ایمان اور پرخہ کچن میں تھیں۔پرخہ کو چائے کی طلب ہو رہی تھی۔اس لئے وہ اسکے لئے چائے بنا رہی تھی۔باقی لڑکیاں جیسے ہی ایمان کے بتائے ہوئے کمرے میں پہنچیں۔۔ایک ہنسی کا فوارہ تھا جو پھوٹ پڑا تھا۔
“یار تم بڑی زبردست ایکٹریس نکلیں۔۔۔آج تو تم نے سبھی ایکٹریسز کو پیچھے چھوڑ دیا۔”
لاریب نے فائقہ کی پیٹھ تھپتھپائی۔
“تم لوگوں کو کیا پتہ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہوئے تو میری جان نکلی جا رہی تھی لیکن تھینک گاڈ پرخہ آپی نے بچا لیا۔ورنہ تو بچُو۔۔!! گئے تھے تم سب۔۔۔”
فائقہ اپنی گردن پہ چھری پھیرنے کے انداز میں انگلی پھیرتے ہوئے بولی۔
“چلو شکر ہے۔۔سب ٹھیک سے ہو گیا۔۔اب آرام کرتے ہیں اگلا پلان کل۔۔۔”
ارفع نے شرارتی انداز میں آنکھ ماری تو سبھی ہنس دیں۔
“اور ہاں یار۔۔۔ایمان کو زرا سا بھی شک نہ ہو کہ یہ سب ہماری پلاننگ تھی۔”
سحرش نے ان سب سے کہا تو وہ سب سر ہلا کر اپنی اپنی جگہ پہ لیٹ گئیں۔۔ایمان نے میٹریسز بچھا کر ان کے لئے سونے کی جگہ بنائی تھی۔سحرش انہیں سونے کا کہتی روم سے باہر آ گئی۔
“چلو نا سونا نہیں ہے کیا؟”
وہ دونوں کچن میں چائے ختم ہونے کے بعد بھی باتوں میں مگن تھیں جب سحرش کچن میں آئی۔
“ہاں بس جا ہی رہے تھے۔”
پرخہ ایمان کے سامنے سے کپ اٹھا کر سنک کی طرف بڑھی۔
“ہییم۔۔۔!! میں بھی سونے جا رہی ہوں۔”
سحرش واپس پلٹ گئی۔
“جاؤ تم بھی آرام کرو۔۔”
پرخہ نے کپ دھوتے ہوئے پلٹ کر ایمان کیطرف دیکھا۔
“جی۔۔۔”
ایمان کو بھی نیند آ رہی تھی اس لئے وہ کچن سے باہر آئی اور لاونج کے صوفے کیطرف بڑھی۔
فائقہ کی طرف سے دھیان ہٹا تو اب یہاں اسے اپنی موجودگی نے شرمندگی سے دوچار کر دیا۔
وہ لاؤنج میں آ گئی۔
“تم اب تک یہاں کیوں بیٹھی ہو؟”
اپنے کمرے کیطرف جاتی پرخہ نے اسے لاؤنج میں بیٹھے دیکھا تو اس کے پاس آ کر ہوچھا۔
“آپکا انتظار کر رہی تھی۔”
وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔پرخہ نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر دونوں کمرے کیطرف بڑھیں۔
“تم یہاں کہاں جا رہی ہو۔۔اپنے کمرے میں جاؤ نا۔”
پرخہ نے اسے غزنوی کے روم کے ساتھ والے روم میں جاتے دیکھ کر کہا۔ایمان خاموشی سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔
“چلو جاؤ شاباش اپنے روم میں جاؤ۔۔۔”
وہ اسے غزنوی کے روم تک لے آئیں۔یہی تو ان کا مقصد تھا۔غزنوی اور ایمان کو قریب لانے کا مقصد۔۔تاکہ ایمان ایک بار پھر اپنے فیصلے پہ غور کرے۔وہ جانتی تھی کہ ایمان غزنوی سے الگ رہ کر خوش نہیں رہ سکتی۔
“آپی۔۔پلیز آپ۔۔۔”
پریشانی اسکے چہرے پہ دِکھنے لگی تھی۔
“کچھ نہیں ہوتا۔۔تمھیں پتہ ہے وہاں اور میٹریسز نہیں ہیں۔۔تم کہاں سوؤ گی؟ اچھا چلو تم نہیں چاہتی تو میں مصطفی کو لڑکوں کے روم میں بھیج دیتی ہوں۔وہ وہاں سو جائیں گے۔”
پرخہ نے اسے پریشان دیکھکر کہا۔
“نہیں کوئی بات نہیں۔۔۔آپ جائیں سو جائیں۔۔میں یہاں سو جاؤں گی۔”
ایمان نے کہا تو وہ کمرے کیطرف بڑھ گئیں۔جب تک وہ کمرے میں داخل نہیں ہوئی ایمان وہیں کھڑی رہی۔کچھ دیر وہ وہیں کھڑی رہی اور پھر لاؤنج میں آ گئی۔اس نے لائٹ آف کی اور اپنا ڈوپٹہ پھیلا کر صوفے پہ لیٹ گئی۔سارے دن کی تھکاوٹ نے اسے جلد ہی نیند کی وادیوں میں دھکیل دیا۔
❇️
تمھیں جانے کی جلدی تھی۔۔۔
سو اپنی جلد بازی میں
تم اپنے لمس کی کرنیں، نظر کے زاویے ،پوروں کی شمعیں
میرے سینے میں بھڑکتا چھوڑ آئے ہو۔۔
وہاں تکیے کے نیچے
کچھ سنہرے رنگ کی ٹوٹی ہوئی سانسیں،
کسی نوزائیدہ خوشبو کے تازہ خوابچے
بستر کی شکنوں میں گرے کچھ خوبرو لمحے
ڈریسنگ روم میں ہینگر سے لٹکی ایک سترنگی ہنسی کو
بس اچانک ہی پسِ پردہ لٹکتا چھوڑآئے ہو۔۔
تمھیں جانے کی جلدی تھی
اب ایسا ہے کہ جب بھی
بے خیالی میں سہی لیکن کبھی جو اِس طرف نکلو
تو اتنا یاد رکھنا
گھر کی چابی صدر دروازے کے بائیں ہاتھ پر
اک خول میں رکھی ملے گی
اورتمھیں معلوم ہے
کپڑوں کی الماری ہمیشہ سے کھلی ہے
سیف کی چابی تو تم نے خود ہی گم کی تھی
سو۔۔۔
وہ تب سے کھلا ہے اور اُس میں کچھ تمھاری چوڑیاں،
ایک انگوٹھی اور ان کے بیچ میں کچھ زرد لمحے
اور اُن لمحوں کی گرہوں میں بندھی کچھ لمس کی کرنیں،
نظر کے زاویے پوروں کی شمعیں اور سنہرے رنگ کی ٹوٹی ہوئی سانسیں ملیں گی
اور
وہ سب کچھ جو میرا اور تمھارا مشترک سا اک اثاثہ ہے سمٹ پائے
تو لے جانا۔۔۔
مجھے جانے کی جلدی ہے۔۔۔
نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دُور تھی۔کروٹ پہ کروٹ بدل رہا تھا مگر نیند تو جیسے روٹھ گئی تھی۔وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔پانی کی تلاش میں نظریں سائیڈ ٹیبل پر گئیں مگر ٹیبل خالی تھی۔
وہ پانی پینے روم سے باہر آ گیا۔۔لائٹ آن کی۔۔سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے اسکی نظر لاؤنج میں صوفے پہ بےخبر سوئے ہوئے وجود پہ پڑی۔وہ کچن کیطرف جانے کی بجائے صوفے کیطرف بڑھا۔
وہ گلابی ڈوپٹہ خود پہ پھیلائے سوئی ہوئی تھی۔چہرہ بھی ڈوپٹے میں چھپا رکھا تھا۔اسے یاد آیا کہ گلابی رنگ کا لباس تو ایمان نے پہن رکھا تھا۔
یہ خیال آتے ہی وہ صوفے پہ ہاتھ ٹکا کر معمولی سا جھکا اور دوسرے ہاتھ سے اسکے چہرے سے ڈوپٹہ ہٹایا۔
وہ گہری نیند میں تھی۔
غزنوی کی نظریں اسکے چہرے پہ پھسلنے لگیں۔اس نے ٹیبل کو صوفے کے قریب کیا اور وہیں بیٹھ گیا۔نجانے کتنی ہی دیر وہ اسے یونہی دیکھتا رہا۔۔
پھر اس خیال سے کہیں اسکی نیند کھل گئی اور اس نے اسے یہاں بیٹھے دیکھ لیا تو کیا سوچے گی۔وہ اٹھا اور اپنے کمرے کیطرف بڑھ گیا۔وہاں سے اٹھ کر جاتے ہوئے اس کے دل نے شدت سے یہ دعا کی تھی کہ ایمان وہیں اس کے پاس رک جائے۔۔۔
جاری ہے۔