ٹائم اینڈ اسپیس
قسط نمبر3
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ ٹائم اینڈ اسپیس ) جاسکے گا۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹینڈرڈ اینڈ ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں نے دو الگ الگ آئنز کو ان کی کوانٹم خصوصیات کی بنیاد پر مائیکرو ویوز کے ذریعے آپس میں جوڑنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ انہوں نے 30 مائیکرو میٹر دوری سے دو آئنز کا ملاپ کر اکر معلومات کے تبادلے کے لئے بنائی جانے والی تیز ترین ڈیوائس کی راہیں ہموار کیں۔ لیزر نیم کی مدد سے اس سائنسی اپروچ سے نئے کوانٹم کمپیوٹر بنانےمیں مدد لی گئی۔
کوانٹم کمپیوٹر ایک ایسی کمپیوٹنگ ڈیوائس ہے جو براہ راست کوانٹم میکانکس کے مظاہر جیسے سپر پوزیشن اور اینگلمنٹ Entanglemnt وغیرہ کا استعمال کرتے ہوئے ڈیٹا پر مختلف آپریشن کر سکتی ہے۔ ایک عام کمپیوٹر اور کوانٹم کمپیوٹر میں ڈیٹا کو الیکٹرانز کی کوانٹم پراپرٹیز جسے گھماؤ اسپین Spin وغیرہ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ کوانٹم بٹ Qantum bit سے مراد ایلم کا وہ چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ہے جسےمنتقل کیا جاتا ہے۔
سپرپوزیشن:سپر پوزیشن Super position کیا مراد ہے….؟
جیسا کہ محققین یہ ثابت کر چکے ہیں کہ فوٹان کو ٹیلی پورٹ کرنا ممکن ہے اور اب اٹلی اور آسٹریلیا کے ماہرین کی تحقیقات کا رخ الیکٹران کو ٹیلی پورٹ کرنے میں ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ تجربات ڈیزائن کرنے میں مصروف ہیں ۔ الیکٹران کسی بھی ایٹم کا منفی چارج والا ذرہ ہے۔ جو ایٹم کے نیوکلس کے گرد مدار میں چکر لگاتا ہے۔ اور یہی ذرہ ہر اس چیز کا ذمہ دار ہے جو ہمیں نظر آتی ہے۔ یعنی الیکٹران ایٹوں کو آپس میں ملا کر مالیکیولز یا سالمے بناتے ہیں۔ الیکٹران کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ گھومتے ہیں اور ان کی سمت کا تعین مقناطیسی میدان سے ہو تا ہے۔ ان کی یہ حرکت کلاک وائز اور اینٹی کلاک وائر ہوتی ہے۔ طبعیات دان اس تماؤ کو اوپر نیچے حرکت کا نام دیتے ہیں ۔ یہ الیکٹر ان جو آپس میں گڈنڈیا الجھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ گھومنے کے دوران اگر ایک کا رخ کلاک وائز ہو گا تو دوسرے کا اینٹی کلاک وائیز ۔ یعنی اگر ایک کی حرکت اوپر کی جانب ہوگی تو دوسرے کی حرکت بیچے کی جانب ہوگی۔ کوانٹم نظریہ کے مطابق الیکٹر ان کے گھماؤ کے دوران میں ایک ایسی حالت بھی آتی ہے جب دونوں الیکٹران کا رخ ایک سمت میں ہوتا ہے یا تو اوپر کی جانب یا نیچے کی جانب یعنی بیک وقت ایک ہی سمت میں گھومتے ہیں اسے الیکٹرانوں کی سپر پوزیشن یا حالتیں کہتے ہیں۔
چارلس سینیٹ کے مطابق اگر کسی ذرہ میں یہ صلاحیت ہو اور وہ اپنی سپر پوزیشن حالت میں رہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ ذرہ حقیقی ٹیلی پورٹر بنایا جا سکتا ہے۔
الجهاؤیا ا ینٹینگلمنٹ : دو اجسام کے درمیان بغیر کسی واسطے ، بغیر کوئی وقت صرف کئے، کسی بھی فاصلے پر، کسی بھی تبدیلی کا رونما ہونا کو انٹم فزکس کی زبان میں الجھاؤ یا پینٹینگلمنٹ Entanglement کہلاتا ہے۔ کوانٹم فزکس اس کی وضاحت اس طرح کرتی ہے کہ دو اجسام ایک دوسرے سے پراسرار طور پر مربوط ہوتے ہیں ۔ جو کچھ بھی ایک کے ساتھ ہوتا ہے وہ فوری طور اسی وقت پر دوسرے میں بھی تبدیلی یا تغیر کا موجب بنتا ہے۔ چاہے وہ ددو ملی میٹر دور ہو یا کائنات کے دوسرے سرے پر موجود ہو ۔اس مشاہدے کو الجھاؤ کا نام دیا جاتا ہے۔
ٹیلی پورٹیشن مرحله وار
آپ اس عمل کو فیکس مشین کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں جس طرح فیکس مشین کے ذریعے پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ کاپی یا نقل ہو جاتا ہے اور اسے کاغذ پر پرنٹ کر لیا جاتا ہے۔ جبکہ کاغذ پر ملنے والا پرنٹ اس اصل کی شبہیہ ہوتی ہے ۔ مگر اس صورت میں بھی اس کی اصل بر قرار رہتی ہے۔
ٹیلی پور میشن ڈیوائیس فیکس مشین کی طرح کام کرتی ہے ماسوائے اس کے کہ یہ سہ رخی کام کرتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ ٹیلیپور نمیشن میں کسی زندہ شئے یا انسانی جسم کی منتقلی میں اس کی اصل کو بر قرار رکھنا فی الحال ممکن نہیں ۔ ٹیلی پورٹیشن کے عمل میں ہمیں تین ذرات کی ضرورت پڑتی ہے۔ جسم اے وہ جسم جسے منتقل کیا جانا جسم بی : یہ وہ ذرہ ہے جو جسم اے اور جسم سی کے درمیان رابطے کا باعث بنتا ہے۔ یعنی اے سے سی کے در میان معلومات جسم بی کے ذریعے پہنچائی جاتی ہیں۔ جسم کی جسم اے کی ہو بہو نقل جو وصولیاتی مقام پر ظاہر ہوتی ہے۔
مرحلے وار ترتیب
- اب پہلے مرحلے میں جسم بی کو جسم سی سے جوڑ دیا جاتا ہے اور ان کے درمیان ربط پیدا کیا جائے گا۔
- اس کے بعد جسم سی کو وصولیابی اسٹیشن اور جسم بی کو نشریاتی اسٹیشن کی طرف لے جایا جائے گا۔
3 نشریاتی اسٹیشن پر جسم اے جسے منتقل کرنا ہے کو جسم بی کے ساتھ اسکین کیا جائے گا۔
4 اسکین شده معلومات وصولیاتی اسٹیشن کو مہیا کر دی جائیں گئیں۔ 5. جہاں مختلف طریقوں کو اختیار کر کے جسم سی کو جسم اے کی ہو بہو نقل بنادیا جائے گا۔
تو جناب یہ ہے وہ طریقہ جس کے ذریعے ایک سالم مادی شئے کو دور دراز علاقے یا اگلے ہی کمرے میں بغیر حرکت کے منتقل کیا جاسکے گا۔ مگر اس کے لئے ابھی کافی وقت درکار ہے تاہم سائنسدانوں نے دعوی کیا ہے کہ اگلے دس سالوں میں وہ ایک وائیرس کو منتقل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گئیں ۔ اور اس کے بعد ہی انسانوں کی باری آئے گی۔ یقینا جب جنینیاتی مادے کے ایک چھوٹے سے پیکٹ کو منتقل کرنا ممکن ہو جائے گا تو پھر انسانی جسم کے بلیو پرنٹ لئے ہوئے جینوم کیونکر با آسانی منتقل نہیں کئے جاسکیں گیں۔ ذرا سوچئے آج کی اکیسویں صدی میں بھی جب ہم ذرا سی مسافت طے کرنے کے لئے بسوں کے انتظار میں سڑکوں پر خوار ہوتے ہیں دھکے کھاتے ہیں ۔ یا پھر رکشہ والوں کے منہ مانگے کرائے مہینے سے پہلے خالی کر دیتے ہیں افسوس کہ آج کے اس اکیسویں صدی میں ہم رکشہ ٹیکسی اور ٹریفک کے ہجوم میں بھنے ہوئے کسی معجزے کے رونما ہونے کا انتظار کرتے ہیں ۔ ان لمحات میں مغربی سائنسدان اور تحقیقات اب آمدورفت کے لئے ان ذرائع کا استعمال
سرے سے ہی ترک کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اب وہ وقت شاید دور نہیں کہ جب جدید مغربی عجائب خانوں میں لوگ ٹیکسی تو کیا بلکہ گاڑیوں، جہازوں اور شاید خلائی جہازوں کی جگہ عجائب خانوں میں ہو۔ اور لوگ جوق در جوق ان کو دیکھنے جائیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اولیاء اللہ کی تعلیمات ان کرامات سے بھری پڑی ہیں ۔وہ ہمیں بار بار سمجھاتے بتاتے اور وضاحتیں دیتے ہیں کہ کس طرح انسان جو زمین پر اللہ تعالی کا خلیفہ بنا کر بھیجا گیا ہے اور جس کے لئے رب کائنات نے تمام کائنات کو مسخر کر دیا۔ اللہ تعالی کے ودیعت کردہ اسمائے الہیہ کے علم کو حاصل کر کے خود کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ وہ میلوں کا اور چاہے تو برسوں کا سفر لمحات میں طے کرلے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن پاک، اسوۃ رسول اللہ اور آپ صلی علیم کی تعلیمات میں غور و فکر کی طرف توجہ نہیں دی ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2015