Daily Roshni News

ٹمی اور زومی

زومی بستی سے کچھ دور جنگل میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا تھا۔بستی میں اس کا دوست ٹمی اسے ورغلاتا رہتا کہ جنگل کے مقابلے میں بستی میں کھانے پینے کا بہت آرام ہے۔تم والدین کو بتائے بغیر چپکے سے یہاں آ جاؤ اور مزے کرو۔زومی بہت سیدھا سادہ چوہا تھا۔
”یہ بہت مشکل کام ہے میرے لئے․․․․میں․․․․ایسا نہیں ․․․․کر سکتا․․․․“ زومی نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔”ہاہاہاہا!تم سدا کے ڈرپوک ہو۔اچھی زندگی گزارنے کے لئے ہمت تو کرنی ہی پڑتی ہے۔مجھے دیکھو کس بہادری سے وہاں سے نکلا تھا اور آج ساری برادری مجھ جیسی زندگی گزارنا چاہتی ہے۔“ ٹمی نے گردن اکڑاتے ہوئے کہا۔
”میں کوشش کروں گا۔“ زومی نے آہستہ آواز میں کہا۔

زومی نے سوچا کہ میں وہاں جا کر سکون سے رہوں گا تو والدین بھی خوش ہوں گے۔

پھر جب میں اپنا گھر بنا لوں گا تو ان کو بھی وہیں بلا لوں گا۔یہاں تو بہت سے مسائل ہیں۔
رات کے دو بج رہے تھے۔گہری نیند سوتے ہوئے ماں باپ پر اس نے ایک نگاہ ڈالی اور تیزی سے باہر نکل گیا۔
”کیسے ہو میرے دوست؟مجھے تو یقین نہیں ہو رہا۔کیا یہ واقعی تم ہو؟“ ٹمی،زومی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ماں باپ کو بتائے بغیر میں یہاں اتنی دور آ گیا۔

“زومی کی آنکھوں میں نمی تھی۔
”پریشان مت ہو۔تم کچھ دن یہاں رہو گے تو سب کچھ بھول جاؤ گے۔“ ٹمی نے ایک ٹکڑا پنیر کا اسے دیا اور دوسرا پنیر کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”آج میں تمہیں پورے گھر کا چکر لگوا دوں گا۔تم سب دیکھ لینا۔پھر آہستہ آہستہ تم اپنے کھانے پینے کا خود انتظام کیا کرنا۔“اگلے دن ہی صبح ٹمی نے بے مروتی سے کہا تو زومی پریشان ہو گیا۔

اس نے سر جھٹکا اور روٹی کا ٹکڑا کھانے لگا جو صبح ہی صبح ٹمی کہیں سے لے کر آیا تھا۔
”اس وقت سب سو رہے ہیں۔یہ ہی بہترین وقت ہوتا ہے،جب ہم اپنے لئے کھانے کا انتظام کر سکتے ہیں۔“اپنے چھوٹے سے بل سے نکل کر ٹمی اسے انسانوں کے بڑے سے گھر میں لے آیا تھا۔
”یہ ہے باورچی خانہ!یہاں آ کر ہمیں کھانا تلاش کرنا ہوتا ہے۔“بڑے سے باورچی خانے کو زومی نے حیرت سے دیکھا۔”اتنا بڑا․․․․․!“ یہ کہہ کر زومی نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو ہاتھ لگنے سے ایک پلیٹ نیچے گر گئی۔
”یہ تو کچھ بھی نہیں۔شہر کے اور بنگلوں کے باورچی خانے دیکھو گے نا تو بس․․․․“ آہٹ کی آواز پہ ٹمی نے زومی کو چپ رہنے کا ارادہ کیا تو زومی سوچنے لگا کہ بول کون رہا تھا میں یا ٹمی۔
”یہ لڑکی ہے،جس کا نام ستارہ ہے!یہ مجھ سے بہت ڈرتی ہے۔


”امی یہیں سے آئی تھی آواز․․․․․“ ستارہ کی ڈری سہمی آواز اُبھری۔
”اس چوہے نے تو ہم سب کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔“
”جنگل میں تو ہم محنت کر کے آزادی سے اپنا رزق تلاش کرتے ہیں۔اس طرح چوری چھپے نہیں۔“ زومی نے کہا۔وہ دونوں بھاگتے ہوئے بل میں پہنچے۔
”محنت!وہ محنت کر کے بھی ایسا لذیذ کھانا تم لوگوں کو کبھی نہیں مل سکتا۔

“ ٹمی نے فخریہ انداز میں کہا۔”لیکن ہم جنگل میں آزادی کے ساتھ گھومتے ہیں۔“
”تمھیں اتنا ہی جنگل اچھا لگتا تھا تو تم یہاں آئے ہی کیوں؟“ٹمی نے زومی کو گھورتے ہوئے کہا۔”وہ․․․․․تم نے ہی تو کہا تھا کہ میں یہاں آ جاؤں۔“
”تم نے میری بات کیوں مانی؟تم اتنے ہی نیک ہو تو اپنے ممی ڈیڈی کو بتائے بنا یہاں کیوں آئے؟“ دکھ کے مارے زومی سے کچھ کہا نہ گیا۔

وہ ٹمی کی باتوں میں آ کر اپنے ممی ڈیڈی کو چھوڑ کر یہاں آیا تھا۔اب وہ ہی اسے ایسا سلوک کر رہا تھا۔
”یہ گھر میں اس کالے گندے چوہے کی آخری شام ہو گی۔“ستارہ نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھیلی کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے کہا۔تھیلی میں سے پیلے رنگ کی کوئی کتاب نما چیز نکال کر ستارہ نے باورچی خانے کا رُخ کیا اور جگہ تلاش کرنے لگی۔ستارہ نے کتاب نما چیز کھول کر ایک جگہ رکھ دی۔

میں نے تمھیں یہاں بُلا کر بہت بڑی غلطی کی۔تم جیسے لوگ اُس خراب سے جنگل میں ہی ٹھیک رہتے ہو۔”اب میں کھانا لینے جا رہا ہوں۔“ٹمی نے غرور سے کہا اور بُل سے باہر چلا گیا۔
پانچ منٹ بعد ہی ٹمی کے چلانے کی آواز پہ زومی جلدی سے باورچی خانے کی جانب بھاگا۔
”بچاؤ!بچاؤ مجھے․․․․زومی!“ کتاب نما چیز پہ ٹمی چپکا ہوا تھا۔

اس کے ہاتھ اور پیر جیسے جم گئے تھے۔وہ ہلنے کی کوشش کر رہا تھا،مگر ہل نہیں پا رہا تھا۔
”یہ کیا ہے؟ٹمی․․․․کوشش کرو تم․․․․․ہلنے کی کوشش․․․․“ زومی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اور کیا کہے۔
”اس ہی وقت ستارہ کی خوشی سے بھرپور آواز ان دونوں کے کانوں سے ٹکڑائی۔“
”امی!ہم کامیاب ہو گئے۔ایلفی والی کتاب کام کر گئی۔

چوہا چپک گیا۔“پیلے رنگ کی ایلفی لگی کتاب نما بورڈ اور اس پہ چپکا ٹمی کبھی زومی کو دیکھتا اور کبھی تالیاں بجاتی ہوئی ستارہ کو۔اسے اب اپنی ہر وہ حرکت یاد آ رہی تھی جس کی وجہ سے ستارہ اور اس کے گھر والے پریشان ہوتے تھے۔
”مجھے بچا لو زومی!“التجائیہ نظروں سے ٹمی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اس سے پہلے کہ زومی کوئی جواب دیتا۔

بلی کی آواز نے ان دونوں کو چونکا دیا۔ستارہ نے ٹمی کو بورڈ سمیت اُٹھا کر بلی کے آگے رکھ دیا۔
”زومی!مجھے معاف کر دینا،جنگل لوٹ جانا اور ہمیشہ والدین کی بات ماننا،کیونکہ ان سے زیادہ کوئی تمھارا مخلص نہیں ہو سکتا۔“ٹمی نے روتے ہوئے کہا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔بلی نے منہ پہ زبان پھیرتے ہوئے ایک ہی نوالے میں ٹمی کو کھا لیا۔
زومی آنکھ میں آنسو لئے اپنے ممی ڈیڈی سے معافی مانگنے کے لئے جلدی سے جنگل جانے کے لئے گھر سے نکل پڑا۔

Loading