Daily Roshni News

ٹیلی اسکوپ کا سفر۔۔۔ تحریر۔۔۔محمد سلیم

ٹیلی اسکوپ کا سفر

تحریر: محمد سلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ٹیلی اسکوپ کا سفر۔۔۔ تحریر۔۔۔محمد سلیم)انسان جب سے شعور کی دہلیز پر قدم رکھتا آیا ہے، اس کی سب سے بڑی حیرت کا مرکز آسمان رہا ہے۔ رات کے وقت چمکتے ستارے، چاند کی نرم مگر پراسرار چمک، اور دن میں سورج کی شدید روشنی، سب کچھ انسان کے لیے سوالوں کا سمندر تھے۔ قدیم انسان نے جب پہلی بار یہ سوچا کہ یہ نقطے آخر ہیں کیا، تو وہ محض اپنی آنکھوں پر بھروسہ کر سکتا تھا۔ آنکھ، جتنی بھی تیز ہو، آسمان کے حقیقی مناظر کے سامنے بہت محدود ہے۔ یہ کہانی ہے ایک ایسی ایجاد کی، جس نے انسانی نظر کو زمین کی قید سے آزاد کر کے اسے کائنات کے بے کنار سمندر میں جھانکنے کا موقع دیا۔ یعنی ٹیلی سکوپ

قدیم تہذیبوں میں فلکیات کا آغاز نہایت ابتدائی مگر پُراثر انداز میں ہوا۔ بابل کی تہذیب، جو آج کے عراق کے علاقے میں آباد تھی، آسمانی اجسام کے مشاہدات کو پتھروں اور مٹی کی تختیوں پر ریکارڈ کرتی تھی۔ وہ چاند کے مراحل سے مہینے کا حساب لگاتے اور ستاروں کی مدد سے زرعی کیلنڈر مرتب کرتے۔ مصری تہذیب نے فلکیات کو عملی زندگی سے جوڑتے ہوئے دریائے نیل کی طغیانی کا وقت طے کرنے میں ستاروں کو بطور گھڑی استعمال کیا۔ مایا تہذیب، جو وسطی امریکا میں آباد تھی، اتنی ماہر تھی کہ بغیر کسی جدید آلے کے سورج اور چاند گرہن کی پیش گوئی برسوں پہلے کر دیتی۔ یہ سب کچھ حیرت انگیز تھا، مگر سب ننگی آنکھ کی محدود طاقت کے اندر تھا۔

چین کی قدیم سلطنت میں فلکیات کا علم ریاستی اہمیت رکھتا تھا۔ ہان خاندان کے دور میں بڑی محنت سے فلکیاتی نقشے بنائے گئے جن میں ہزاروں ستارے درج تھے۔ یہ نقشے بادشاہوں کو سیاست اور مذہب میں فیصلے کرنے کے لیے مشورہ فراہم کرتے تھے۔ لیکن آسمان میں جو کچھ نظر نہیں آتا تھا، اسے جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ انسان کے ذہن میں سوال تو تھے، مگر ان کے جواب ابھی دھند میں چھپے ہوئے تھے۔

یونانی فلسفی اور سائنسدانوں نے فلکیات کو نظریاتی بنیاد دی۔ ارسطو نے زمین کو کائنات کا مرکز قرار دیا، اور بطلیموس نے “المجسطی” جیسی کتاب لکھ کر اس نظریے کو مضبوط کیا۔ مگر ان سب کے مشاہدات کا انحصار صرف آنکھوں پر تھا۔ اس وقت تک ایسا کوئی آلہ موجود نہ تھا جو روشنی کو جمع کر کے دور کی اشیاء کو قریب دکھا سکے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے ایک نئے نظریے اور ٹیکنالوجی کی ضرورت تھی۔

یہ پیش رفت گیارہویں صدی میں اسلامی سنہری دور میں سامنے آئی۔ بصریات کے بانی کہلائے جانے والے ابن الہیثم نے روشنی کے انعکاس پر شاندار تحقیق کی۔ اس نے تجربات سے ثابت کیا کہ آنکھ روشنی کو حاصل کرتی ہے، خارج نہیں کرتی، اور یہ کہ مختلف سطحوں سے روشنی مختلف انداز میں مڑتی ہے۔ اس کا کام “المناظر” یورپ پہنچا اور صدیوں تک لینز اور آپٹکس کی بنیادی کتاب رہا۔ یہ علم ہی آگے چل کر ٹیلی اسکوپ کی تخلیق کا بنیادی ستون بنا۔

یورپ میں پندرھویں اور سولہویں صدی میں عینک بنانے کی صنعت پروان چڑھ چکی تھی۔ شیشہ صاف اور درست تراشنے کی مہارت بڑھ رہی تھی۔ 1608ء میں ہالینڈ کے ہانس لپرسی نے دو لینز ملا کر پہلا عملی ٹیلی اسکوپ بنایا۔ اس آلے کی طاقت محدود تھی، مگر اس نے ثابت کر دیا کہ انسان کی نظر کو مصنوعی طور پر بڑھایا جا سکتا ہے۔

صرف ایک سال بعد اطالوی سائنسدان گلیلیو گلیلی نے لپرسی کے ڈیزائن کو بہتر بنایا اور پہلی بار اس آلے کو آسمان کی طرف موڑا۔ اس نے چاند کی کھردری پہاڑیاں اور گڑھے دیکھے، زہرہ کے مراحل کا مشاہدہ کیا، اور مشتری کے چار بڑے چاند دریافت کیے۔ یہ دریافتیں زمین مرکز کائنات کے نظریے کو زلزلے کی طرح ہلا گئیں۔ گلیلیو کی یہ جرأت اس دور کے مذہبی اقتدار کو پسند نہ آئی، مگر اس نے تاریخ میں سچائی کی بنیاد ڈال دی۔

اسی دور میں جرمن سائنسدان جوہانس کیپلر نے ایک نیا ڈیزائن پیش کیا جس میں دونوں لینز محدب تھے۔ یہ “کیپلرین ٹیلی اسکوپ” زیادہ طاقتور اور وسیع منظر فراہم کرتا تھا۔ یہ ڈیزائن آج کے ریفریکٹر ٹیلی اسکوپ کی بنیاد ہے۔ مگر ایک مسئلہ باقی تھا۔ یعنی لینز میں روشنی کے رنگوں کا بکھراؤ

یہ مسئلہ سترھویں صدی کے عظیم سائنسدان آئزک نیوٹن نے حل کیا۔ اس نے لینز کی بجائے آئینے سے روشنی جمع کرنے کا طریقہ ایجاد کیا اور پہلا ریفلیکٹنگ ٹیلی اسکوپ بنایا۔ یہ ڈیزائن زیادہ واضح اور درست تصویر دیتا تھا، اور آج بھی بڑے رصدخانوں میں یہی اصول استعمال ہوتا ہے۔

اٹھارہویں صدی میں ولیم ہرشل نے ٹیلی اسکوپ کی طاقت کو نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ اس نے 40 فٹ لمبا ٹیلی اسکوپ بنایا اور اسی کی مدد سے سیارہ یورینس دریافت کیا۔ ہرشل نے نیبولا اور ستاروں کے جھنڈوں کا تفصیلی نقشہ بنایا، جس نے کائنات کے تصور کو مزید وسیع کیا۔

انیسویں صدی میں لینز اور آئینوں کی کوالٹی میں بے مثال ترقی ہوئی۔ دنیا بھر میں بڑے رصدخانے قائم ہوئے، جیسے امریکا کا یرکس آبزرویٹری اور فرانس کا پیرس آبزرویٹری۔ اب فلکیات ایک باقاعدہ سائنسی شعبہ بن چکا تھا، جس میں مشاہدات، تجربات، اور ریاضیاتی ماڈلز یکجا ہو رہے تھے۔

بیسویں صدی میں ٹیلی اسکوپ زمین کی فضا سے اوپر پہنچ گیا۔ 1990ء میں “ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ” خلا میں لانچ کیا گیا، جس نے انسان کو اربوں نوری سال دور کی کہکشاؤں کی شاندار تصویریں دکھائیں۔ ہبل نے کائنات کی عمر، بگ بینگ، اور بلیک ہولز جیسے رازوں کو سمجھنے میں انقلابی کردار ادا کیا۔

آج کے ٹیلی اسکوپ صرف نظر آنے والی روشنی تک محدود نہیں۔ ریڈیو ٹیلی اسکوپ، ایکس رے آبزرویٹریز، اور انفراریڈ دوربینیں آسمان کو مختلف زاویوں سے دیکھتی ہیں۔ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ نے تو ہمیں وقت میں پیچھے جھانکنے اور کائنات کے ابتدائی لمحات دیکھنے کا موقع بھی دیا ہے۔

ٹیلی اسکوپ کی ایجاد نے سائنس ہی نہیں بلکہ فلسفے اور مذہب پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ جب گلیلیو نے کہا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے، تو یہ اس وقت کی مذہبی سوچ سے براہ راست ٹکراتا تھا۔ مگر صدیوں بعد یہی نظریہ انسانی علم کی بنیادوں میں شامل ہو گیا۔

#تاریخ #سائنس #فلکیات #ٹیلی_اسکوپ #انسانی_تجسس #خلاء #محمد_سلیم #SaleemWrites

Loading