Daily Roshni News

ٹیلی پورٹیشن۔۔۔چین کے سائنسدانوں کی ایک بڑی کامیابی)قسط نمبر(2

ٹیلی پورٹیشن

Teleportation

چین کے سائنسدانوں کی ایک بڑی کامیابی

)قسط نمبر(2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی  نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ٹیلی پورٹیشن)دوسرے مقام پر روانگی کے منتقل کی جاتی ہے جہاں یہ یکجا ہو کر ہو بہو وہی چیز تشکیل دیتی ہے جو روان مقام پر فناہو چکی ہوتی ہے۔ اس طرح سفر کے ں آڑے نہیں دوران فاصلہ اور وقت دونوں ہی ۔ آتے۔ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ مستقبل | قریب میں انسانوں کو بھی پلک جھپکتے ہی کسی بھی مقام پر منتقل کیا جا سکے گا۔ مسافت خواہ ایک فٹ سے لے کر ایک میل تک کی ہی کیوں نہ ہو، مسافر کو کوئی فاصلہ طے کرنا نہیں پڑے گا۔

بیسویں صدی عیسوی میں ٹیلی پورٹیشن کا نظریہ سائنس فکشن فلموں میں کافی مقبول رہا، مثال کے طور پر 1960 کی دہائی میں ٹی وی پر دکھائی جانے والی سیریل اسٹار ٹریک کے کردار کیپٹن کرک، اسپاک اور ڈاکٹر میکائے دیگر ساتھیوں سمیت اپنے خلائی جہاز سے کسی بھی سیارے پر ٹیلی پورٹ ہو جاتے تھے اوریہ فاصلہ سیکنڈوں میں طے ہوتا تھا۔

 بیسویں صدی کی ابتداء میں کوئی ایسی ٹیکنالوجی منظر عام پر نہیں آئی تھی جس سے اس نظریہ کو مزید تقویت دی جاسکتی۔ لیکن فزکس کی نئی شاخ کوانٹم میکینکس اور کوانٹم الیکٹروڈائنامکس، تاریخ کا ایک نیا موڑ ثابت ہوئیں۔ جب نظریہ اضافیت اور کوانٹم میکنیکس کو باہم یکجا کیا گیا تو ایک نیا امکان سامنے آیا۔ 1993ء میں ٹیلی پورٹیشن کا نظریہ فکشن کی حدوں سے نکل کر اس وقت حقیقت کی دنیا میں داخل ہو گیا جب آئی بی ایم اور ٹامس جے واٹسن ریسرچ سینٹر ، یارک ٹاؤن ہائیٹس نیو یارک کے ماہر طبیعات چارلس ایچ سینیٹ Charles Bennett اور ان کے ساتھی محققین نے اس امر کی تصدیق کی کہ کم از کم کو انٹم پیمانے پر ٹیلی پورٹیشن ممکن ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا انسان کو ٹیلی پورٹ کیا جا سکتا ہے ….؟ اور یہ کیسے ممکن ہے. ؟؟

سائنسدانوں نے دعوی کیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ انسانوں کو کائنات کے ایک گوشے سے کسی بھی دوسرے گوشے میں روشنی کی رفتار سے منتقل کیاجاسکے گا۔

اگر ٹیلی پورٹیشن کے لیے درکار مشین یعنی ٹرانسپورٹر روم تیار کرلی گئی تو ٹیلی پورٹیشن کا عمل کامیابی سے ہمکنار ہو سکے گا۔ ٹیلی پورٹیشن کے عمل سے گزرنے والا شخص روانگی کے مقام سے یوں سمجھیے کہ انتقال کر جائے گا اور مطلوبہ منزل پر اس کی ہو بہو نقل وجود میں آجائے گی جس میں اس کی تمام حسیات، یادداشت، جذبات اور خواب واُمیدیں سب کچھ اس ہو بہو نقل میں موجود ہوں گی۔ میں موجود ہوں گی۔ چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ٹیلی پورٹر اپنی منزل پر زندہ پہنچے گالیکن یہ اس کا حقیقی جسم نہیں ہو گا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی مثال بالکل فیکس جیسی ہے جس میں ایک مقام سے کسی دستاویز کی نقل ارسال کی جاتی ہے اور دور دراز مقام پر اس کی ہو بہو نقل موصول ہو جاتی ہے۔ یہ شبیہہ بالکل اصل کے مطابق ہوتی ہے تاہم اصل نہیں ہوتی۔ اسی طرح ٹیلی پورٹیشن کے بعد منزل پر پہنچنے والا انسان فیکس پرنٹ کے مقابلے میں حقیقی تو ہو گا تاہم اصل نہیں ہو گا۔ ٹیلی پورٹیشن کے عمل میں ہمیں تین ذرات کی ضرورت پڑتی ہے۔

جسم اے وہ جسم جسے منتقل کیا جانا

جسم بی: یہ وہ ذرہ ہے جو جسم اے اور جسم سی کے در میان رابطے کا باعث بنتا ہے۔ یعنی اے سے سی کےدر میان معلومات جسم بی کے ذریعے پہنچائی جاتی ہیں۔

جسم ہی جسم اے کی ہو بہو نقل جو وصولیاتی مقام پر ظاہر ہوتی ہے۔

اب پہلے مرحلے میں جسم بی کو جسم سی سے جوڑ دیا جاتا ہے اور ان کے درمیان ربط پیدا کیا جائے گا۔ اس کے بعد جسم سی کو وصولیابی اسٹیشن اور جسم بی کو نشریاتی اسٹیشن کی طرف لے جایا جائے گا۔

ماہرین نے اس ضمن میں کئی کامیاب تجربات بھی کر ڈالے ہیں۔ اس طریقے کی دریافت کے بعدسے اس میدان میں ہونے والامقابلہ انتہائی سخت ہو گیا تھا اورمختلف سائنسدانوں کی جماعتیں ایک دوسرےآگے نکلنے کی کوششوں میں لگی ہوئی تھیں۔

امریکہ، یورپ، روس اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ٹیلی پورٹیشن کے تجربات ابھی جاری ہیں، حال ہی میں کو انٹم ٹیلی پورٹیشن کے تجربات میں ایک اور اہم سنگ میل عبور کر لیا گیا۔

10 جولائی 2017 کو چین نے اعلان کیا کہ چین نے ٹیلی پورٹیشن کے تجربات میں ایسی کامیابی حاصل کر لی ہے جو اب تک کوئی ملک حاصل نہیں کر سکا۔ چین نے ایک چیز کو زمین سے خلاء تک ٹیلی پورٹ کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ چینی سائنسدانوں نے ایک فوٹونز کو زمین سے خلاء میں 310 میل کے فاصلے پر گردش کرنے والے سیٹلائیٹ تک ٹیلی پورٹ کر ڈالا۔ یہ اب تک کسی چیز کو اتنے فاصلے تک بھیجنے کا پہلا کامیاب تجربہ ہے۔

سائنسدانوں نے ایک ماہ تک تبت میں واقع اپنے اسٹیشن سے لاکھوں فوٹونز کو خلاء میں بھیجنے کا تجربہ کیا اور وہ 900 سے زائد بار کامیاب رہے۔ اس دوران ایک فوٹون کو زمین کے مدار میں بھیجا اور پھر واپس بلایا گیا۔

یہ پہلی بار نہیں کہ چین نے کسی نا ممکن العمل خیال کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے کردار ادا کیا ہو۔ اس سے پہلے 2010 میں شنگھائی سے متعلق ایک چینی ٹیم نے فوٹون کو 60 میل تک بھیجنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا تا ہم اس بار انہوں نے سارے ریکارڈز توڑ ڈالے۔ اس تجربے کا آغاز چین نے ایک سال قبل ہی شروع کر دیا تھا۔ جب چین نے دنیا میں پہلی کو آنٹم کمیونیکیشن سیٹلائٹ کو خلا میں روانہ کیا اور چین کے جنوب مغربی خود مختار علاقے تبت میں زمینی سٹیشن قائم کیا، یہ سیٹلائٹ زمین سے 500 کلومیٹر بلندی پر ہے گزشتہ ایک سال سے اپنا کام کر رہی تھی۔ یونیورسٹی آف جنیوا کے ماہر فزکس نکولس گیزن کا کہنا ہے کہ یہ تجربہ واضح کرتا Nicolas Gisin ہے کہ عالمی سطح پر کوانٹم کیمونیکیشن کیمونیکیشن ممکن ہے اورجلد یہ ایک حقیقت ہو گی۔

ہم کب تک انسان کو دور دراز منتقل کرنے کے قابل ہو جائیں گے ….؟ طبیعیات دان پر امید ہیں کہ آئندہ آنے والے سالوں میں وہ پیچیدہ سالموں کو دور دراز منتقل کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ اگلی ایک دہائی میں مکمل ہو سکتا ہے جس میں کسی ڈی این اے یا پھر کسی جرثومے کو دور دراز منتقل کیا جا سکے گا۔ جاپانی نژاد امریکی ماہر طبعیات میشیو کاکو Michio Kaku یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں نظری طبعیات کےپروفیسر ہیں اور وہ کئی دلچسپ موضوعات پر کتابیں تحریر کر چکے ہیں۔ میشیو کا کو مستقبل میں ہونے والی سائنسی ممکنات کے نظریہ کے لیے شہرت رکھتے ہیں اور اس ضمن میں ان کی کتاب نا ممکن کی طبیعات Physics of Impossible کافی مقبول ہے۔

اس کتاب میں انہوں نے مستقبل بینی سائیکو کا ئنیسز ، ٹیلی پیتھی، ٹیلی پورٹیشن اور ٹائم ٹریول کو مستقبل میں سائنسی طور پر ممکن بتایا ہے۔

 میشیو کاکو کا کہنا ہے کہ انسانوں کو توانائی میں بدل کر ایک سیارے سے دوسرے سیارے بھیجنا ممکن ہے، اور اگلے چند عشروں میں یہ عمل ممکن ہو جائے گا۔ میشیو کاکو کے مطابق “ ٹیلی پورٹ رٹیشن ” کا یہ ا یہ عمل اس صدی کے آخر تک قابلِ عمل ہو جائے گا اور پلک جھپکتے ہی انسانوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجاجاسکے گا۔

میشیو کاکو کے مطابق پہلا مالیکیول ٹیلی پورٹ کرنے کے بعد اگلے مرحلے میں چاند کی سطح پر بڑی اشیا، جانور اور آخر کار انسان بھی بھیجے جاسکیں گے لیکن یہ عمل قدم بہ قدم آگے بڑھے گا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جس طرح دورِ جدید میں مختلف قسم کی ٹیکنالوجیز شارع ترقی پر گامزن ہیں اسی طرح ٹیلی پورٹیشن میں بھی کامیابیاں حاصل ہوں گی اور ایک دن ایسا آئے گا کہ جب سفر کی صعوبتوں سے مکمل طور پر نجات حاصل ہو جائے گی۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں ہماری نسلوں میں سے کوئی بھی کئی سو نوری سال کے فاصلے پر موجود کسی سیارے پر سفر کر رہا ہو گا۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  اگست2017

Loading