Daily Roshni News

ٹین ایجزز کے ذہنی نفسیاتی اور طبی مسائل۔۔۔قسط نمبر1

ٹین ایجزز کے ذہنی نفسیاتی اور طبی مسائل

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )فارسی کا مشہور شعر ہے کہ

خشت اول چوں نہد معمار کج

تا ثریا می نہد دیوار کج

 اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھ دے تو چاہے دیوار ستاروں تک بھی بلند کر دی جائے وہ اخیر تک ٹیڑھی ہی رہتی ہے“

ٹین ایجرز Teenagers یا Adolescent یا بچپن اور Childhood اور جوانی Adulthood کے درمیان کا عبوری عرصہ ہوتا ہے۔ بچپن اور جوانی زندگی کے درمیان کا یہ مرحلہ مستقبل کی بنیاد بنتا ہے، بچے قوم کا سرمایہ اور نوجوان قوم کے معمار ہوتے ہیں۔

انسانی زندگی کے یہ دو ادوار تربیت کے لیے انتہائی اہم ہوتے ہیں، اس زمانے میں اگر صحیح تربیت نصیب ہو جائے، اچھے ہمنشین مل جائیں اور بہتر ماحول میسر آجائے تو یہ ایک نوجوان کے لیے بہتر مستقبل کا آغاز ہوتا ہے، اگر خدانخواستہ بچپن وجوانی کے اس دور میں صحیح تربیت نہ ہو سکے ، غلط ماحول ملے اور برے دوستوں کا ساتھ ہو جائے تو یہ خطرے کی پہلی گھنٹی ہوتی ہے۔

نو بلوغت یا نوشابی کی عمر لڑکوں اور لڑکیوں میں مختلف ہوتی ہے۔ W.H.O کے مطابق یہ عمر 10 سال سے شروع ہو جاتی ہے۔ بچپن کے دور کو خیر باد کہہ کر جب لڑکے اور لڑکیاں نو بلوغت کی عمر میں داخل ہوتے ہیں تو ان میں بڑی اہم نفسیاتی Psychological اور حیاتیاتی Biological تبدیلیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ یہاں نو بلوغت Puberty کی اصطلاح کا فرق ذہن نشین کرلیں۔ بلوغت سے مراد وہ خالص جسمانی تبدیلی ہے جو کسی نو بالغ کو حیاتیاتی طور پر بالغ بناتی ہے جبکہ نو بلوغت ایک عبوری دور کا نام ہے جو بعض لوگوں میں بلوغت کے بعد بھی جاری رہ سکتا ہے۔ نو بلوغت کا دور مختلف نفسیاتی اثرات مرتب کرتا ہے۔ بلوغت کا عمل پوری دنیا میں اور دونوں اصناف میں تقریباً یکساں ہے، خواہ ان کا تعلق کسی قوم یا معاشرے سے کیوں نہ ہو۔ نو بلوغت کو معاشرتی بلوغت بھی Social Puberty کہا جاتا ہے یعنی بچپن کا دور ختم ہو رہا ہے اور اب بلوغت کے دور کی ابتداء ہونے والی ہے۔

گیارہ بارہ سال کی حساس عمر

یہ وہ دور ہوتا ہے جب اکثر خاندانوں میں لڑکیوں سے کہا جاتا ہے “اب تم بڑی ہو گئی ہو لہذا اپنے لباس کا خیال رکھو ۔ ان کا لباس بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس دوران انہیں خود بھی جسمانی تبدیلیوں کا احساس ہونے لگتا ہے، لیکن بعض حالات میں اپنے اندر ہونے والی تبدیلیوں کا ساتھ دینا بھی ان کے لئے خاصا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ اس دور میں رہنمائی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی نو بلوغت کا دور تقریباً دو سال پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ لڑکی کو لڑکے کے مقابلے میں دو سال پہلے ہی بعض صنفی مسائل سے نمٹنے کی ذمہ داری قبول کرنا پڑتی ہے جبکہ بعض حالات میں اکثر لڑکیاں ذہنی طور سے اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی اہل نہیں ہو تیں۔

نو بلوغت کی عمر میں جسم میں موجود اینڈو کرائن گلینڈز Endocrine Glands ہارمونز بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ جس سے نوجوانوں کے جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی ارتقاء کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس عمر میں طب سے منسلکہ کچھ مسائل بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ مثلاً اس عمر میں عموماً لڑکوں کی بھوک کھل جاتی ہے جبکہ لڑکیوں میں بھوک نہ لگنے کی شکایت اور غذائی رغبت میں کمی عام دیکھی گئی ہے۔ غذائی عدم توازن کی وجہ سے بعض لڑکیوں کا جسم کمزور اور لاغر ہو جاتا ہے اور اکثر طبیعت مالش کرتی ہے۔ اس کیفیت کو طبی اصطلاح میں Anorexia کہا جاتا ہے اور اس کا اہم سبب Emotional Disorder ہے۔ لہذا اس عمر میں لڑکیوں کو غذا کی اہمیت، غذا کے استعمال میں بد نظمی کے مضر اثرات کے متعلق ضرور آگاہ کیا جانا چاہئے۔ اس عمر کے لڑکے لڑکیوں کی متناسب غذائی ضرورت کا خیال رکھنا چاہیے۔

نوجوانی کے اس دور میں جو جسمانی اور نفسیاتی تبدیلی رونما ہورہی ہوتی ہیں ایک نو بالغ میں ان کا تبدیلیوں کے بارے میں معلومات چاہنا ایک فطری رویہ ہے۔ وہ دنیا کو جس انداز سے دیکھتا ہے یا دیکھنا چاہتا ہے اس ضمن میں رہنمائی چاہتا ہے۔ اپنے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں ڈسکس کرنا چاہتا ہے لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ اکثر والدین اور بچوں کے درمیان ذہنی طور پر فاصلہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ باپ روزگار کی مصروفیت کی وجہ سے توجہ نہیں دے پاتے تو مائیں گھر کے کاموں میں الجھی رہتی ہیں۔

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے نوجوان اپنے گھر میں بھی دوستانہ ماحول سے محروم رہتے ہیں۔ ان کے محسوسات اور اُن کے اندر واقع ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں انہیں اساتذہ سے بھی عموماً کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ بعض نوجوان اپنے سے ذرا عمر میں بڑے کلاس فیلوز سے ڈسکس کرتے ہیں لیکن انہیں عموماً غلط راستہ ہی دکھایا جاتا ہے یا پھر تصویر کا صرف ایک ہی پہلو ان کے سامنے آتا ہے۔ ایسے میں بہت سے نوجوان خصوصاً لڑکیاں تنہائی پسند ہو جاتی

ہیں اور بعض تو خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگتی ہیں۔ یہ کیفیت مسلسل طاری رہے تو بعض لڑکیوں کے پیٹ میں درد، دل اچاٹ رہنا، نیند کا نہ آنا اور سر درد کی شکایات پیدا ہو سکتی ہیں۔ بعض نوجوان لڑکے ان مشکلات کا تدارک سگریٹ، پان، گٹکا یا پھر کسی نشہ آور اشیاء کا استعمال کے ذریعے کرنے لگتے ہیں۔ نوجوانی کے اس دور میں قدم رکھتے ہوئے لڑکوں اور لڑکیوں کو والدین کی رہنمائی کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ لڑکیوں کو اس ضمن میں ان کی مائیں رہنمائی فراہم کر دیتی ہیں چنانچہ اکثر لڑکیاں اپنی ماؤں کے مشوروں کی روشنی میں ان مراحل سے بآسانی گزر جاتی ہیں۔

 نوجوان لڑکے اس طرز کی رہنمائی سے عموماً محروم رہتے ہیں۔ یہ رہنمائی انہیں اپنے والد یا بڑے بھائی سے ملنی چاہئے تھی، لیکن ہمارے ہاں والد یا بڑے بھائی نوجوان ہوتے لڑکوں کو یہ باتیں بتاتے ہوئے جھجکتے ہیں اور وقت گزر جاتا ہے …..

وقت کو ٹالنے کا یہ رویہ نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے، مناسب ہو گا کہ والدین بچوں سے دوستانہ رویہ رکھیں اور بچے کو مناسب رہنمائی فراہم کریں۔ جب بچہ پوچھے تو اس کو اس طرح جواب دینا چاہئے جسے وہ بآسانی سمجھ سکے اور اتنی ہی معلومات بہم پہنچانا چاہئے جتنی اس کی عمر کے حساب سے ضروری ہو اور جسے اس کا ذ ہن آسانی سے قبول کر سکے۔

۱۳ سے ۲ انسان کی عمر

1413 سال کی عمر کا دورانیہ جوش و جذبہ، خواہشات اور کمال کو چھولینے کی امنگوں سے بھر پور ہوتا ہے۔ ایسے بچے جو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں، اپنے آپ کو منوانا چاہتے ہیں اور اپنی ہر خواہش، ہر امنگ کو پو را کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اس خوب صورت اور زندگی کے یادگار دور کو ماہرین نفسیات تشخص Identity کی تلاش کا دور کہتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے خیال میں اس دور میں ٹین ایجرز کے سامنے سب سے اہم مسئلہ اپنے آپ کو دریافت کرنا اور اپنی حیثیت کا تعین کرنا ہے اس کے بعد دوسروں کے ساتھ ربط ضبط استوار کرنا ہے تا ہے۔ اسکول جانے والے لڑکوں کو اسی دور میں مستقبل کے لیے کسی شعبہ کا انتخاب بھی کرنا ہوتا ہے۔ والدین اور بچوں کے لئے ایک اہم مرحلہ اس وقت در پیش ہوتا ہے جب بچہ نویں کلاس میں داخل ہوتا ہے۔

بورڈ کے امتحان کا خوف بعض لڑکوں اور لڑکیوں کے اعتماد کو نقصان پہنچا سکتا ہے، دیکھا گیا ہے کہ آٹھویں کلاس تک پوزیشن لینے والے بعض لڑکے اور لڑکیاں نویں جماعت کے امتحانات میں کسی خاص کار کردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔

اس عمر میں بعض نوجوان لڑکے لڑکیاں ماحول اور دیگر مسائل کی وجہ سے خیالی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں لیکن عمل میں اکثر انتہائی سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بعض والدین انہیں ابھی محض بچہ ہی تصور کرتے ہیں۔ ایسے بچوں کو اساتذہ کی جانب سے بھی اکثر کوئی نفسیاتی امداد نہیں ملتی چنانچہ ان کا یہ قیمتی دور۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ  ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی 2022

Loading