پاکستان میں رشتوں کا بحران: ایک سنگین مسئلہ
پاکستانی معاشرے میں شادی ہمیشہ سے ایک اہم خاندانی اور سماجی بندھن رہی ہے، مگر آج کے دور میں یہ ایک پیچیدہ مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ پہلے بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین کو رشتوں کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہوتا تھا، مگر اب صورتِ حال یہ ہے کہ کنوارے لڑکے اور لڑکیاں بھی رشتوں کے انتظار میں عمر کی دہلیز پار کر رہے ہیں۔ کئی تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوان بہتر رشتے نہ ملنے کی وجہ سے غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں، جبکہ والدین اپنے بچوں کی شادی کے لیے سالوں انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اس مسئلے کی کئی سماجی، معاشی اور نفسیاتی وجوہات ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے۔
1. غیر حقیقی توقعات اور معیار کا مسئلہ
خاندان اور والدین کی طرف سے رشتوں میں غیر ضروری اور غیر حقیقی توقعات رکھی جاتی ہیں۔ لڑکے والوں کو ایک خوبصورت، کم عمر، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور گھریلو مزاج کی لڑکی چاہیے، جبکہ لڑکی والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ رشتہ ایک ایسے شخص سے ہو جس کے پاس اچھی نوکری، گاڑی، گھر اور مالی استحکام ہو۔ اس معیار پر پورا اترنے والے افراد کم ہوتے ہیں، اور یوں مناسب رشتے ہونے کے باوجود معاملات آگے نہیں بڑھ پاتے۔
2. مہنگائی اور شادی کے بڑھتے ہوئے اخراجات
معاشی بدحالی اور مہنگائی کی وجہ سے لڑکے والے شادی کرنے میں ہچکچاتے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ شادی کے بعد کے اخراجات، گھر کا کرایہ، بچوں کی تعلیم اور دیگر ضروریات پوری کرنا آسان نہیں ہوگا۔ دوسری طرف، لڑکی کے والدین جہیز اور دھوم دھام سے شادی کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے بھی شادیاں تاخیر کا شکار ہو رہی ہیں۔
3. جدید طرزِ زندگی اور کیریئر پر زیادہ توجہ
نوجوانوں میں تعلیم اور کیریئر کے حوالے سے بڑھتی ہوئی سنجیدگی بھی شادیوں میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ ہے۔ آج کے دور میں لڑکے اور لڑکیاں پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں، پھر اچھی نوکری حاصل کرنے کے بعد شادی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ جب تک وہ اس مرحلے تک پہنچتے ہیں، عمر زیادہ ہو چکی ہوتی ہے اور پھر مناسب رشتہ ملنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
4. سوشل میڈیا اور بدلتے ہوئے رویے
سوشل میڈیا نے نوجوانوں کے خیالات اور طرزِ زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ لوگ حقیقت سے زیادہ خیالی دنیا میں جینے لگے ہیں، اور ان کی توقعات بھی غیر حقیقی ہو گئی ہیں۔ رشتوں کی تلاش میں بھی یہی سوچ حائل ہو جاتی ہے، اور مناسب رشتے محض اس لیے رد کر دیے جاتے ہیں کہ کوئی اور “زیادہ بہتر” مل سکتا ہے۔
5. شادی میں ناکامی کا خوف
طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان نے بھی لوگوں کو محتاط کر دیا ہے۔ والدین اور خود نوجوان یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ شادی کے بعد اگر نباہ نہ ہوا تو کیا ہوگا؟ اس خوف کی وجہ سے وہ بےجا تحقیق اور چھان بین میں وقت ضائع کر دیتے ہیں، اور کئی اچھے رشتے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔
6. سماجی دباؤ اور فرسودہ روایات
برادری کے اندر شادی کرنے کی ضد، پسند کی شادی کو ناپسند کرنا، والدین کی انا، اور لڑکے یا لڑکی کی مرضی کے بغیر زبردستی فیصلہ کرنے کی روش بھی رشتوں کے بحران کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ اگر کسی لڑکی یا لڑکے کی عمر زیادہ ہو جائے تو انہیں طعنوں اور نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے ان کی خوداعتمادی متاثر ہوتی ہے اور وہ مزید مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔
حل کی ضرورت
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے معاشرے میں کچھ بنیادی تبدیلیاں لانا ضروری ہیں:
شادی کو سادہ اور آسان بنایا جائے، تاکہ مالی دباؤ ختم ہو۔
رشتوں میں غیر ضروری توقعات اور معیار کم کیے جائیں۔
نوجوانوں کو یہ سکھایا جائے کہ شادی صرف مادی چیزوں سے کامیاب نہیں ہوتی، بلکہ ذہنی ہم آہنگی اور محبت زیادہ ضروری ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں کی مرضی کو بھی اہمیت دیں اور صرف سماجی دباؤ یا روایات کی بنیاد پر فیصلے نہ کریں۔
اگر ہم ان پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور کریں، تو یقیناً اس بحران کو کم کیا جا سکتا ہے اور بہت سے نوجوانوں کو ایک خوشحال ازدواجی زندگی گزارنے کا موقع مل سکتا ہے۔