انتخابات2024کے نتائج پر احتجاجی مظاہرے، سیاسی رہنما
ذاتیات پر، حکومت سازی کے لئے سیاسی جوڑ توڑ،
ملک بھر میں غیر یقینی اور افراتفری کی صورتحال۔
بیلاگ تبصرہ۔۔۔محمد جاوید عظیمی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوزانٹرنیشنل۔۔۔پاکستان کی صورتحال۔۔۔بیلاگ تبصرہ۔۔۔محمد جاوید عظیمی) عام انتخابات سے قبل ملک بھر میں یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ انتخابات ملتوی ہو جائیں گے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ، الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کی شبانہ روز محنت شاقہ سے 8فروری2024کو وقت مقررہ پر ملک بھر میں انتخابات مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ نتائج بھی آگئے۔ کچھ تاخیر سے نتائج آنے پر سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار شروع کر دیا اب تو صورتحال یہ ہے کہ جیتے اور ہارنے والی سیاسی جماعتیں احتجاج کرنے میں مصروف عمل ہیں اس کے باعث پاکستان بھر میں غیر یقینی اور عدم استحکام کی صورتحال عروج پر ہے اسی دوران راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر لیاقت چٹھہ نے انتخابی عمل میں بے ضابطگیوں پر بیان دے کر بڑے بڑے انکشافات کرکے چیف الیکشن کمشنر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر بھی دھاندلی میں ملوٹ ہونے کے الزامات لگا دیئے ان انکشافات کے بعد پہلے سے جاری احتجاجو ں میں مزید تیزی آگئی ہے ملک کے طول و عرض میں سیاسی جماعتیں سر پا احتجاج ہیں ۔ ان احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے موجودہ نگران حکومت کو عوامی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے پر تشدد اور فساد پھیلانے والے مظاہرین کے خلاف سخت کاروائی کرنی چاہیے تاکہ عوام اپنی روزمرہ زندگی کے معاملات کو معمول کے مطابق سر انجام دے سکے۔ اگر ہم ماضی کا ریکارڈ مدنظر رکھیں تو2018کے الیکشن پر بھی بہت زیادہ اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کیا گیا مگر اس کے باوجود پی ٹی آئی نے حکومت بنالی یہ الگ بات ہے کہ ناقص کارکردگی کے باعث مقررہ مدت سے قبل ہی عدم اعتماد کے ذریعے عمران احمد نیازی کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے سربراہ نے اسی وقت سے نئے انتخابات کے انعقاد کے لئے تحریک چلائی اس دوران 9مئی پرتشدد واقعات رونما ہوئے جن کے باعث ملک کی سلامتی کے خطرات عروج پر چلے گئے۔ ان واقعات سے پاکستان کی اقوام عالم میں جگ ہنسائی ہوئی۔ جبکہ پاکستان کا وقار بھی بری طرح متاثر ہوا دنیا بھر میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان ایٹمی قوت کا حامل ملک ہے مگر اس کے ہر ادارے میں نظام کا فقدان ہے جس کی بدولت کوئی ادارہ بھی اپنے فرائض ٹھیک طرح سے سرانجام نہیں دے پا رہا۔ دوسری جانب اگر ہم دیکھیں تو پاکستان کے سیاسی رہنما سیاسی مخالفت کی بجائے اس کو ذاتی دشمنی میں بدل کر احتجاجی مظاہروں اور جلسوں میں کس طرح کی غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے یہاں تک کہ اپنے سیاسی مخالف کا نام لے کر گالیاں دی جاتی ہیں۔ ریاست پاکستان کا یہ فرض ہے کہ ایسے فساد پھیلانے والے سیاسی رہنماؤں کی گرفت کرکے ان پر مقدمات درج کرے تاکہ آئندہ کوئی سیاسی رہنما یا اسکی جماعت کے لوگ ایسی مذموم عمل کرنے سے باز رہیں۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے کوئی نہ کوئی تماشا ہو تا رہتا ہے جس کے باعث حکومت اس کوقابو کرنے کے لئے کوششوں میں مصروف ہو جاتی ہے۔اوپر کی سطروں میں کمیشنر نے پولیس کی تفتیش کے دوران تحریری طور پر اپنے بیان سے یوٹرن لیتے ہوئے اپنی پریس کانفرنس کا محور پی ٹی آئی والوں کو قرار دیا اور معافی کی درخواست پیش کر دی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کمیشنر لیاقت چٹھہ کے دھاندلی کے انکشافات کو یا پھر ان سے یوٹرن لینے کو درست سمجھا جائے۔
پاکستان میں جب بھی انتخابات کرائے گئے ان کے نتائج پر دھاندلی کے الزامات لگائے جاتے ہیں یہی سیاسی رہنما دوبارہ انتخابات کے انعقاد کے لئے تحریکیں چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما اپنی ہار ما ننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا ۔ صوبہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے ممبران نے حلف اٹھا لیا ہے جبکہ مریم نواز کو وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب کر لیا گیا ہے۔ منتخب ہونے کے فوراً بعد اپنے خطاب میں صوبے میں ترقیاتی کا موں کے لئے اپنا ویژن دیتے ہوئے ان پر فوری عمل درآمد کے لئے کاروائی شروع کر دی جبکہ صوبائی اسمبلی میں موجود حزب اختلاف کو بھی اپنے تعاون کا یقین دلایا اس سے مریم نواز کی مثبت سوچ اور مثبت طرز فکر کی عکاسی ہو رہی ہے۔ اسی طرح صوبہ سندھ میں تیسری بار سید مراد علی شاہ کو وزیر اعلیٰ سندھ منتخب کر لیا انھوں نے بھی سندھ کی ترقی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو ساتھ لے کر مل کر کام کرنے کا واضح اعلان کیا ہے۔ وفاقی حکومت بنانے کی90فیصد تیاریاں ہو چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے پاکستان کے وزیر اعظم کے لئے میاں محمد شہباز شریف کا نام فائنل کر دیا اور مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اس کی تو ثیق بھی کر دی گئی ہے۔ پاکستان میں اس وقت بھی سیاسی جوڑ توڑ کی سر گرمیاں جاری ہیں۔
آئین کے مطابق صدر مملک کو اپنی تمام تر وابستگیوں اور اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وطن عزیز پاکستان کے لئے فیصلے کرنے چاہیے مگر موجودہ صد ر پاکستان عارف علوی اپنی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے مفادات کو ترجیح دینے میں مصروف عمل ہیں ، کیونکہ نگران وزیر اعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لئے سمری صدرمملکت کو ارسال کی مگر انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اسمبلی کے ہاؤس کی تعداد مکمل نہیں ہے جبکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ انتخابات کے 21روز بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا آئین کے مطابق بہت ضروری ہے۔
پاکستان کے آئین میں اسمبلی کے ممبران کی تعداد سے متعلق کہیں کچھ درج نہیں ہے اس عمل سے صدر عارف علوی نے آئین شکنی کی ہے اس کے لئے ان کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سیاسی رہنماؤں کے مطابق ایوان صدر اس وقت سازشوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ صدر کے انکار کے باوجود آئین کے مطابق قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے 29فروری کو اجلاس بلالیا ہے۔ اس اجلاس میں تمام ممبران حلف اٹھائیں گے۔ پاکستان کے تمام وفاقی، صوبائی اداروں اعلیٰ عہدیداران اور سیاسی رہنماؤں سے التماس ہے کوئی بھی عمل کرنے سے قبل پاکستان کے وقار کو پیش نظر رکھیں کیونکہ آپ کے منفی طرز فکر اور طرز عمل سے وطن عزیز پاکستان کی بیرون ممالک میں بے حد بے عزتی ہوتی ہے۔ اس لئے کوئی عمل کرنے سے قبل پاکستان کی عزت اور وقار کو پیش نظر ضرور رکھیں۔