Daily Roshni News

پردیسیوں کے دکھ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

پردیسیوں کے دکھ

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ پردیسیوں کے دکھ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )پردیس میں رہنے والے خواہ تنہا ہوں یا فیملی کے ساتھ ان سب کے یکساں مسائل ہوتے ہیں۔جن میں سے سرفہرست یہ ہے کہ پاکستان میں رہنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ جہاں وہ مقیم ہیں وہاں ریال، درہم، پاونڈز،ڈالرز، لیرا، یورو اور لیٹسٹ آئی فونز درختوں پر لگے ہوتے ہیں اس لیے ان کا فرض ہے کہ جب جتنے اور جونہی پاکستانی ان سے مطالبہ کریں وہ فورا ان کی ٹرانزیکشن اور پارسل کریں یا کسی آنے والے دوست کے ہاتھ بھیجیں۔

    دوسرا یہ کہ ان کے ملک میں جو بھی خاص چیز یابرینڈ پائے جاتے ہیں مثلا : زیتون کا تیل، شہد، چاکلیٹس، گھڑی ، کپڑے، جوتے،بیگ، جیکٹس یا کوئی بھی اور چیز پردیسی کا فرض ہے کہ جب بھی کوئی آئے یا خود آنے کی غلطی کرے تو نا صرف قریبی فیملی بلکہ ایکسٹینڈڈ فیملی ان کے بچوں دوست احباب حتی کہ مزارعوں اور نوکروں تک کے لیے سب چیزیں لائے۔

    اگر کبھی غلطی سے کوئی پردیسی یہ بتا دے کہ میرا اس عید یا بچوں کی چھٹیوں میں پاکستان آنے کاارادہ ہے تو نہ صرف خود بلکہ باقی سب سے بھی پوچھ پوچھ کر میلوں لمبی فرمائشی لسٹ انہیں واٹس ایپ کی جاتی ہے تاکہ وہ بندہ نہ بھولنے پائے نہ ہی یہ بہانہ بنا سکے کہ اسے لسٹ موصول نہیں ہوئی تھی۔

    شادی، فوتگی، بیماری گھر کی ہو یا محلے رشتے داروں کی بیرون ملک مقیم بندے کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہی برتے( پیسے بھیجے) اور ایسے برتے کہ سارے شہر میں اس کی پاکستان بیٹھی فیملی کی واہ واہ ہو جائے، اور اس سب میں اس بے چارے کا نام تک نہیں لیا جاتا۔یوں لاکھ سے دس لاکھ کا ٹیکہ اسے لگتا ہے اور تعریف کے ڈونگرے ان شیخی خور پاکستانیوں کے بجتے ہیں جن کا ایک دھیلہ بھی خرچ نہیں ہوا ہوتا۔

   شہر یا گاوں بھر میں جو بھی نکما لڑکا ہو جو اسکول میں میٹرک میں فیل ہو جائے کند ذہن کا دماغ کسی ٹیکنیکل کورس مدرسے میں بھی نہ چلے وہ اس چاچو ماموں کو آئیڈیل بنا کر گھر والوں میں بڑھکیں مارتا پھرتا ہے بس ایک بار دوبئی، قطر، بحرین، انگلینڈ، اٹلی، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا پہنچ جانے دیں پھر دیکھنا کیسے کنال کی کوٹھی، گرینڈی اور بہن کی شادی پر سارا جہیز ایک سال کے اندر اندر میں نے بنا دینا ہے اور آپ سب مجھ پر فخر کریں گے، یہ وہ ہونہار سپوت ہیں جوسمجھتے ہیں ڈگری / سرٹیفکیٹ صرف پاکستان میں نوکری کی ضمانت ہوتے ہیں جونہی انہوں نے مندرجہ بالا کسی بھی ملک کے ایئرپورٹ پر قدم رنجہ فرمایا وہاں کے صدر، وزیراعظم یا شاہ اپنی کرسی چھوڑ کر انہیں اس پر بٹھا کر خود جلاوطنی یا گوشہ نشینی اختیار کر لیں گے اور خزانے کا منہ ان کے لیے کھول کر آنکھ کان بند کر کے سنیاس لے لیں گے۔یوں کوئی بہن کی نند کے دیور کی سالی کی نند کی بھابھی کے بھائی کا دوست، بھائی کے دوست کے بھائی کے سالے کا دوست اس کے بھائی کے دوست کا کزن کا بیٹا بھی فورا پاکستان میں اس شخص کے گھر پہنچ جاتا ہے یا ڈائریکٹ اسے فون کر کے ایموشنل بلیک میلنگ کی کوشش کچھ یوں کرتا ہے:” بھائی جان! میرے بیٹے ، بھائی نے کہا آپ بڑی ان کی تعریفیں کرتے ہیں آج دیکھتے ہیں وہ آپ سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ذرا فون کر کے پوچھیں ان سے باہر کی یونیورسٹی میں داخلے کا کیا پراسس ہے۔ٹکٹ تو ہم خود بھی کروا لیں گے۔بس اسپانسرکی ضرورت ہے۔ ” اس جاہل مطلق کو کسی ایسے ہی دوست نے ساری اطلاع بہم پہنچائی ہوتی ہے کہ بس اسپانسر مل جائے تم وہاں کی یونیورسٹی کے ڈین لگ جاو گے جس کے گاوں کا کوئی بندہ کسی مغربی ملک میں موجود ہوتا ہے۔اب وہ بندہ تفصیل بتاتا ہے:” جی پہلے تو ایف اے ایف ایس سی میں اچھے نمبر ہوں، آئیل ٹس میں اچھا بینڈ ہو۔کم از کم چھ ماہ کی فیس ہو جو 3000 سے 10000 پاؤنڈز ڈالرز ہو، بینک اسٹیٹمنٹ میں 10000 ڈالرز پاونڈز یا کوئی بزنس ہو جو یہ ثابت کرے کہ آپ کے والدین یا آپ خود اس قابل ہیں کہ وہاں کے اخراجات برداشت کر لیں گے کیونکہ چھ ماہ سے پہلے تو آپ بطور اسٹوڈنٹ پارٹ ٹائم جاب نہیں کر سکتے اور کر بھی لیں تو چند گھنٹے کی کمائی میں ہاسٹل، کمرے کا کرایا، ٹرانسپورٹ، کھانے پینے، بیماری کے اخراجات ہی پورے نہیں ہوتے۔پھر یونیورسٹی میں داخلہ فارم بھیجیں داخلہ ہونے پر یونیورسٹی آپ کو لیٹر جاری کرے گی اس کی بیس پر اسٹوڈنٹ ویزا اپلائی کریں۔جس کی فی ہر ملک کے حساب سے مختلف ہے۔ویزا لگوا کر ٹکٹ کروائیں اور یہاں پہنچ جائیں۔” اس رام کہانی کے جواب میں دوسری طرف سے بڑی مایوسی سے پوچھا جاتا ہے:”  مطلب آپ اسپانسر نہیں کر سکتے۔بیٹا / بھائی تو کہہ رہا تھا بھائی جان سب کچھ خود ہی کروا دیں گے جب تک مجھے نوکری نہیں ملتی تب تک میں انہی کے ساتھ رہ لوں گا ۔” اب پردیسی دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتے ہوئے ان کے کانوں کے مزید کیڑے جھاڑتا ہے:” دیکھیں بہن/ بھائی بات یہ ہے کہ میں یہاں معمولی سی نوکری کرتا ہوں/ ٹیکسی چلاتا ہوں۔میرے گھر کا کرایہ بہت زیادہ ہے جو منتھلی/ویکلی ادا کرنا ہوتا ہے۔میں خود پانچ بندوں کے ساتھ ایک کمرے میں رہتا ہوں،”شادی شدہ ہو تو،” میرے ساتھ اپنی فیملی ہے اور یہاں رول ہے کہ جتنے فیملی کے بندے اتنے ہی کمرے اور اتنی ہی سیٹس کی گاڑی۔میں اگر اپنے والدین کو بھی بلاوں گا تو حکومت پہلے مجھ سے انکم اور گھر گاڑی کی وسعت کا حساب مانگے گی پھر ان کے ویزا پر غور کرے گی۔دوسرے یہاں گھر بہت چھوٹے ہوتے ہیں ایسے میں کسی اور کو ساتھ رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔” دل میں سوچتا ہے مطلب آپ پاکستان کی طرح یہاں بھی پلنگ توڑیں اور میں کما کر میرے بیوی بچے پکا کر آپ کو کھلائیں اور آپ ہم پر احسان فرمائیں کہ لو جی ہم یہاں پڑھنے یا کام کرنے آے ہیں۔

   اب دوسری طرف سے وار کچھ اور طریقے سے ہوتا ہے۔” بھائی سنا ہے فیملی ویزا یا ورک ویزا کھلا ہوا ہے اس میں اگر آپ بچے کو بلا لیں تو ہم پر احسان ہو گا۔”  پردیسی ٹھنڈی آہ بھر کر اپنا مزید وقت برباد کرتے ہوئے گویا ہوتا ہے:” دیکھیے فیملی ویزا تو صرف اپنے والدین،  بہن بھائی، بیوی بچوں کے لیے ہی ہوتا ہے۔” ” تو کوئی بات نہیں ہم پیپرز بنوا لیں گے یہاں سے۔” دوسری طرف سے بے تابی سے بات کاٹ کر دعوی کیا جاتا ہے:” جی وہ تو مجھے معلوم ہے لیکن اب گوروں کو پتہ چل گیا ہے کہ ہم پاکستانی فراڈ کرتے ہیں اس لیے وہ سخت چیکنگ کرتے ہیں۔: پاکستانی اس واضح طنز کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے:” تو پھرورک ویزا کا آپشن تو ہے نا؟”

” جی بالکل ہے۔اگربچے نے کوئی ٹیکنیکل کورس کیا ہو جیسے پلمبنگ، ٹی وی فریج موبائل وغیرہ کی ریپیئر، الیکٹریشن ،کک وغیرہ کا۔ اور اس کے لیے بھی کم از کم 60 سے ستر لاکھ لگ جاتے ہیں۔”

“آئے ہائے بھائی جان یہی تو رونا ہے یہ کمبخت کسی جوگا ہوتا تو ہم لوگوں کی منتیں کیوں کرتے پھرتے۔ اتنی رقم تو چلیں ہم ادھار وغیرہ اٹھا کر اکھٹی کر ہی لیں گی۔خیر سے یہ وہاں پہنچ گیا تو ایک سال کے اندر اندر ہی ادھار اتر جائے گا۔” بڑے اطمینان سے بتایا جاتا ہے۔

” دیکھیے اگر اتنے پیسے ہیں تو اسے وہی کوئی کاروبار شروع کروا دیں۔پردیس کی زندگی کا تو وہی حساب ہے دور کے ڈھول سہانے۔”

” ہنہ!  خود تو وہاں عیاشی مار رہے ہیں مجھے لیکچر جھاڑ رہے ہیں۔ان سے کہیں میرا رشتہ وہاں کی نیشنل سے کروا دیں۔” بیٹے/ بھائی موصوف جو زیر بحث ہیں اسپیکر پر یہ ساری گفتگو سن کر نئی فرمائش کرتے ہیں۔”اچھا تو بھائی جان کسی اچھی سی پیاری دین دار نیشنل لڑکی سے اس کا رشتہ ہی کروا دیں۔”

پردیسی بھائی بڑی مشکل سے اپنا غصہ ضبط کر کے کہتے ہیں:” پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں کے بچے اب پاکستان شادی کرتے نہیں کہ ان کے مزاج نہیں ملتے دوسرا اب اسپاوز کے لئے فی اتنی زیادہ کر دی گئی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کی یہیں شادی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ خرچہ بچ جائے۔ اورتیسرا آج کل کے بچے پاکستانمیںوالدین کی۔مرضی سے شادی نہیںکرتے تو یہاں کیسے کریں گے۔دین دار وہاں کوئی نہیں رہا تو یہاں کیسے ڈھونڈیں” دل میں سوچتے ہیں نہ منہ نہ متھا تے جن پہاڑوں لتھا۔نہ شکل ہے نہ عقل میٹرک فیل کو اپنے خاندان میں کوئی رشتہ نہ دے اور موصوف چلے ہیں فارن نیشنل سے شادی کرنے۔

” اچھا بھائی جان بہت شکریہ خدا حافظ۔” ہر طرف سے مایوس ہو کر باجی یا بھائی بنا دوسری بات کیے فون پٹخ دیتے ہیں۔

اب ذرا انہی پردیسی بھائی کے پاکستان پہنچنے کی روداد ملاحظہ فرمائیے۔اگر تو والدین زندہ ہیں تو سب بہن بھائی اکھٹے ہو کر ان کا استقبال کرتے ہیں محبت جتاتے ہیں۔ان کے ایئرپورٹ سے گھر پہنچتے ساتھ تحائف وصول کرنے کے لیے بے تاب ہو جاتے ہیں۔انہیں بھی اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے اس لیے جیٹ لیگ کی پرواہ کیے بغیر وہ بیگز الٹ کر سب کو ان کا حصہ پکڑا کر ہی آرام کرتے ہیں۔لیکن جب والدین زندہ نہ ہوں اور پردیسی بھائی اپنی فیملی کے ساتھ پہلی بار پاکستان آ رہے ہوں تو کوئی بھی نہ تو ایئرپورٹ جاتا ہے نہ ہی انہیں گھر پہنچنے پر چائے پانی تک پوچھتا ہے، ہر ایک ساتھ ایسا نہیں ہوتا مگر چند کیسیز دیکھے ہیں،  وہ خود سے گاڑی بک کروا کے گھر پہنچتے ہیں کسی کام والی کو کال کرتے ہیں گھر کی صفائی کروا کر کھانا باہر سے آرڈر کرتے ہیں اور سوچتے ہیں اتنے پیسے لگا کر کس لیے آئے ہیں۔اس سے بہتر تھا وہیں کسی دوسرے ملک کی سیر کر کے فریش ہو جاتے۔دوسرے دن سب ملنے کے بہانے آ کر کھانا بھی وہیں کھاتے ہیں اور اپنی فرمائشی لسٹ بھی حاصل کرتے ہیں اگر ایک آدھ چیز کم ہو جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں اور باتیں بھی سناتے ہیں۔

 ان کے تین چار ہفتے کے قیام میں سارے بہن بھائیوں کے کھانے کی ذمہ داری پردیسی کی بیگم اور اس کی ہوتی ہے۔ ان کے کچن سے کچھ بھی بنا پوچھے لے جانا، برتن سے لے کر پتی تک، بہن بھائیوں،  ان کے بیوی بچوں کو حق ہوتا ہے چاہے ان کے بچوں کے لیے کچھ بچے نہ بچے، قریبی دکان سے دودھ، چکن، سودا ان کے نام پر ادھار لیا جاتا ہے اور دبا کے لیا جاتا ہےان کے جانے سے پہلے جب دکان دار بل تھماتا ہے تو پردیسی بھائی پر ایک اور بجلی گرتی ہے۔

    دور دور تک کے رشتے داروں کے گھر جانا ان کے لیے تحائف کے ساتھ ساتھ 5 سے 10 ہزار دینا پردیسی پر فرض سمجھا جاتا ہے چاہے بدلے میں اس کے بچوں کو ایک روپیہ بھی نہ دیا جائے۔اس کی فیملی کو ایک کولڈ ڈرنک پلانے کی بھی توفیق نہ ہو۔پردیسی اپنے بچوں کے لیے کچھ لائے تو سب بہن بھائیوں کی فیملیز کے لانا اس پر فرض ہوتا ہے اگر وہ غلطی سے بھول جائے تو اس پر وہ سارے احسان جتائے جاتے ہیں جو کبھی کسی نے کیے ہی نہیں ہوتے۔اس کی بیوی کو طعنے دئیے جاتے ہیں کہ اس کے آنے کے بعد سے ان کا بھائی بدل گیا ہے۔بچوں کو گھمانے کا پروگرام بنائے تو کوچ بک کروا کے خاندان کے سب چھوٹے بڑوں کو ساتھ لے جانا اس کے لیے لازم ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو ہنی مون پر جاتے ہوئے بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور حرام ہے اس دوران بیوی کو میاں کے ساتھ کھڑے ہونے کی بھی اجازت یا موقعہ دیا جائے۔

    اکثر پردیسی جو کنوارے ہوتے ہیں ان کو اے ٹی ایم مشین سمجھ کر گھر، گاڑی، آسائش کا سامان، بہن بھائیوں کی پڑھائی ، شادی اور پھر ان کے بچوں کی شادی کابھی ذمہ دار انہیں ہی سمجھا جاتا ہے۔جیسے والدین کی نہیں یہ سب کرنا ان کی ذمہ داری ہو۔اگر وہ پانچ دس سال بعد پاکستان آنے یا بہن بھائیوں کی شادی اٹینڈ کرنے کا سوچیں اور ارادہ ظاہر کریں تو انہیں بتایا جاتا ہے ابھی فلاں فلاں چیز رہتی ہے اس لیے تم مت آو پیسے بھیج دو۔واٹس ایپ پر تم سب سے بات کر لینا۔

ساری زندگی اسی میں گزار کر جب وہ اپنی شادی کا سوچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے پورے گھر میں نہ تو ان کا کوئی کمرہ ہے نہ ہی والدین کے پاس ان کی شادی کے اخراجات کے لئے رقم۔ اگر وہ شادی کر بھی لیں توان کی بیوی کو ساتھ نہیں لے جانے دیا جاتا کہ وہاں مہنگائی بہت ہے کیسے رکھو گے۔یوں مفت کی نوکرانی بھی مل جاتی ہے اور لوگوں اور بھائی کا منہ بھی بند ہو جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ پیسے لینے کی وجہ سے اس کی شادی نہیں کرتے۔

   اگر وہ زبردستی بیوی ساتھ لے ہی جائے تو پیچھے سے ہر وقت کسی نہ کسی بہانے سے اس سے اتنے پیسے منگوائے جاتے ہیں کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو روکھی سوکھی کھلا کر سالوں کپڑے جوتے دیگر چیزیں نہ دلا کر یعنی اپنا پیٹ کاٹ کر پیچھے والوں کے مطالبات پورے کرتا رہتا ہے۔جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تب اسے عقل آتی ہے کہ اس نےساری زندگی بیوی بچوں کی حق تلفی کر کے جن رشتے داروں کو پالا ان کے گھر بھر دئیے بچوں کی شادیاں کیں بھتیجے بھتیجیوں پوتے پوتیوں کو پڑھایا لکھایا وہ تو اسے بس اے ٹی ایم مشین ہی سمجھتے رہے۔کیونکہ نہ تو اسے نہ ہی اس کی فیملی کو کسی خوشی غمی میں کوئی فون تک کرنے کی زحمت کرتا ہے نہ ہی ان کے مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیتا ہے۔الٹا یہ کہتے ہیں کہ تم پیسے نہ دینے کے لئے بہانے کر رہے ہو۔

لیکن اس وقت نہ ان میں طاقت ہوتی ہے نہ ہی ہمت کہ اپنے بچوں کے لیے گھر یا کوئی سیونگ بنا سکیں۔

     ایسا ہر جگہ اور ہر کیس میں نہیں ہوتا مگر بیشتر لوگوں کے ہاں یہی کہانی ہوتی ہے۔ اور جہاں ایسا نہ ہو وہاں بچوں کے رشتے کرنے کہ آس لگا لی جاتی ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ بچوں کا کوئی جوڑ ہے بھی یا نہیں۔بھائی بہن کے بچوں کی زندگی پر بھی اپنا حق سمجھا جاتا ہے اور زبردستی اپنے نکمے بچوں کو بھی ان پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اور راستہ نہ ملنے پر جینا مرنا ختم کر دیا جاتا ہے۔سچ تو یہ ہے جب رشتہ ہو بھی جاتا ہے اور لڑکے لڑکی کی نہ بنے مزاج ، ماحول، اسٹیٹس کا فرق یا ہمارے لڑکوں کے ٹیپیکل پاکستانی مرد ہونے ، یعنی میں کچھ نہ بھی کروں گھر پر میرا ہی راج ہو، لڑکیوں کے سسرال میں سازشوں یا سسرال کی سختی کی وجہ سے رشتہ ختم ہو جائے تو بھی بہن بھائیوں کی بات چیت بھی بند ہو جاتی ہے۔

     میری فیملی کے کئی افراد دنیا کے مختلف ممالک میں ہیں۔ننھیالی گاوں میں ہر گھر میں سے کم از کم ایک بندہ تو ضرور بیرون ملک مقیم ہے ہی۔تو یہ کہانیاں میرے اردگرد بکھری پڑی ہیں۔دو سال پہلے میری والدہ کی طبیعت اس قدر خراب تھی کہ ہم سب بہن بھائی اوور نائٹ  ہاسپٹل پہنچے۔لیکن یقین مانیے تب بھی بھائی کے پاس صرف اپنے چند جوڑے اور لوگوں کی امانتیں تھیں جو انہوں نے اپنے رشتے داروں کے لئے بھجوائی تھیں۔ جو اسے دوسرے شہروں میں جا کر دینی تھیں۔جن لوگوں نے یہ سب بھیجا انہوں انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ ایمرجنسی میں جا رپا ہے شاید اس کو ٹائم ہی نہ ملے کہ یہ جا کر سب کچھ دے سکے نزے کی بات یہ ہے کہ خود آ کر کوئی بھی اپنی چیزیں نہیں لے جاتا۔بلکہ اگر کچھ دن دیر ہو جائے تو میرے دوسرے بھائی کو فون کر کے فرمائش کی جاتی ہے وہ تو مصروف ہو گا تم آ کر دے جاو۔یعنی وہ گاڑی میں بیٹھے اپنے سب کام چھوڑے ہزاروں کا پٹرول لگائے اور آپ کی جیکٹ یا پاونڈز فورا آپ کو پہنچائے۔کیونکہ آپ بے حد مصروف اور آپ کے پیسے بے حد مشکل۔سے کمائے ہوئے ہیں۔

جب کہ میرے بھائی  کی عادت ہے وہ خود کسی کو میڈیسن تک نہیں دیتا کہ دو بار یہ غلطی کی تھی اور ان رشتے داروں نے میڈیسن بھی غائب کر دی۔اب خواہ 40 کلو  کا پارسل ہو یا میڈیسن وہ پارسل ہی کرتا ہے۔ اور اسے ایمرجنسی میں آنے کے باوجودسب رشتے داروں کے گھر جانا پڑا کیونکہ ہمارے ہاں بندہ بیرون ملک سے آئے اور سب کے گھر  نہ جائے تو معیوب سمجھا جاتا ہے خصوصا قریبی رشتے داروں اور سسرالی رشتے داروں کے ہاں۔کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کے صبح نکلنے سے پہلے آ کر دس بیس کلو کا بیگ تھما جاتے ہیں کہ ہمارے بھائی، بہن، دوست کو پہنچا دینا خواہ وہ بندہ دوسرے دور کے شہر میں ہو۔اب وہ اکیلا آئے تو بھی تیس کلو کی اجازت ہوتی ہے ہم سب اس کے بیوی بچوں کے لئے تحائف دیں تو وہ انہیں چھوڑ جاتا ہے اور لوگوں کے بیگز اکثر ایئرپورٹ پر پے  کر کےلے جاتا ہے۔ایک بار تو اسے مٹی کا تندور میٹل کے باکس میں پیکڈ تھما دیا گیا۔گھنٹہ لگا کر اس نے نیوز پیپر پیکنگ کے اندر بھرے کہ ٹوٹے نہ پھر اس پر پولیتھین شیٹ لگائی ایئرپورٹ پر پندرہ کے جی کی پے منٹ کی۔مگر تندور وہاں کئی ٹکڑوں میں ہی پہنچا۔اور ایک بار کسی نے اپنی بہن کے لیے اپنے پرانے فینسی کپڑوں کا دس کلو کا شاپر  ایک دوست کے گھر والوں نے ڈرائی فروٹس کے بیگز،  نان خطائیاں تھما دیں۔وہ لوگ یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ سب پارسل کیا جا سکتا ہے۔ایک بندہ تیس کلو کی ٹکٹ پر اپنا سامان بھی لے کر جاتا ہے تو اس سب کو کیسے لے جائے گا۔ایسا ہی کچھ بیرون ملک سے آتے ہوئے ہوتا ہے ہر رشتے دار اور دوست اپنی اپنی پیکنگ لے کر آ جاتا ہے۔اور جب انہیں کوئی دوا کی ایک بوتل بھی دی جائے تو پاکستان اور بیرون ملک دونوں طرف سے آتے جاتے صاف جواب ہوتا ہے کہ ہمارا تو اپنا سامان ذیاد ہے ہم نہیں لے جا سکتے۔

    ہماری والدہ تک نے کبھی اس سے کوئی فرمائش نہیں کی۔ہم بہن بھائی بھی احساس کرتے ہیں کہ وہ بے چارہ اتنی محنت سے کماتا ہے تو ہم اسے کیوں تنگ کریں۔مگر جب وہ آتا ہے تو گلی محلے کے افراد سے لے کر تندور والے اور والدہ کی میڈ تک پرفیوم ، چاکلیٹس اور کپڑوں کی فرمائش ضرور کرتے ہیں۔ اور بار بار پوچھتے ہیں ہمارے لیے کیا لائے ہو۔ایک بار تو امی کی میڈ نے امی ہر احسان کرتے ہوئے فرمایا:” آنٹی آپ بھائی سے کہہ دیں میرے لیے اور کچھ لائے نہ لائے Dove صابن، شیمپو اور لوشن ضرور لائے۔”😆

    اللہ کا شکر ہے کہ میرے بہن بھائی خوش حال ہیں اس لیے وہ نہ صرف والدہ، ہم سب  اور سارے خاندان کے لیے بہت سی چیزیں بطور تحائف لے آتے ہیں بلکہ ان  سب کی فرمائشیں بھی پوری کرتے ہیں جن کا ذکر خیر اوپر کیا ہے۔لیکن ان کا کیا جو بے چارے وہاں بھی مشکل حالات میں رہتے ہیں۔وہ تو یہاں  آ کر اور بھی پریشان ہو جاتے ہیں۔

مجھے اور بھائی کو، کیونکہ ہم دو پاکستان میں ہیں،  اکثر لوگ پوچھتے ہیں:” آپ بہن بھائی کو کیوں نہیں کہتے آپ کو بھی باہر بلا لے۔میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا ہے نہ تو وہ دونوں وہاں ویزا آفیسر ہیں نہ ہی ایسا ہے کہ ہم بس پر بیٹھیں،  ٹیکسی پکڑیں اور وہاں پہنچ کر اپنا گھر، گاڑی خریدیں اور  جاب یا بزنس شروع کر دیں۔ اس لیے ہم کبھی بھی نہ تو ان سے کوئی فرمائش کرتے ہیں نہ ہی انہیں مجبور کرتے ہیں کہ ہمیں بھی بلاو۔اللہ دونوں کو اپنے گھر فیملی کے ساتھ خوش رکھے اور امن و امان میں رکھے۔

     خدارا بیرون ملک مقیم لوگوں پر رحم کیجئے اور انہیں بھی انسان سمجھیے۔پیسہ بنانے کی ٹکسال یا نیشنیلٹی دینا والا آفیسر نہیں۔ کیونکہ وہاں نہ تو پیسہ درختوں پر اگتا ہے نہ سڑک پر بکھرا ہوتا کہ جھاڑو دے کر سمیٹ لیں۔نہ ہی چیزیں مفت کی ہوتی ہیں۔میں تو اپنی چیزوں ک پرائسز، اگرچہ بہن بھائی ان کے پرائس ٹیگز اتار کر دیتے ہیں مگر میں نیٹ ہر دیکھ لیتی ہوں وجہ یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ میں نے ان کے کتنےپیسے ضائع کر دئیے، کو فورا پاکستانی روپوں میں کنورٹ کر کے ان سے لڑتی ہوں کہ اتنی مہنگی چیزیں کیوں لاتے ہو۔

😊(ٹیپیکل پاکستانی خاتون جو کہیں بھی ہو قیمت پاکستانی روپے میں کنورٹ کر کر کے ہولتی رہتی ہے۔) اور ان کا جواب ہوتا ہے کہ اپنی فیملی پر پیسے ضائع نہیں ہوتے۔ اور تحفے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔

پردیسیوں پر کبھی کبھی احسان بھی کر دیا کریں جب کبھی انہیں ضرورت ہو تو کم از کم ایک فون کر دیا کریں تاکہ انہیں بھی احساس ہو کہ وہ آپ کے کچھ لگتے ہیں۔ صرف اپنی ضرورت کے وقت ہی انہیں یاد نہ کیا کریں۔ان کی خوشی اور غم میں بھی شرکت کر لیا کریں۔کیونکہ آپ کے چند منٹ ہی ضائع ہوتے ہیں ان کا سیروں خون بڑھ جاتا ہے۔

وہ وہاں نہ صرف دیار غیر کی مصیبتیں جھیلتے ہیں بلکہ تعصب اور سیکنڈ گریڈ شہری ہونے کی وجہ سے بہت مشکل میں ہوتے ہیں۔مڈل ایسٹ والے ان سب سے تو محفوظ ہوتے ہیں  مگر وہاں سیلریز کم اور کام بہت سخت ہوتا ہے۔

اللہ تعالٰی سب پردیسیوں کی مشکلات آسان فرمائے۔ان کے رزق اور فیملی میں برکت فرمائے ان کی حفاظت فرمائے اور ان کی پاکستانی فیملیز کو عقل سلیم عطا فرمائے۔

Loading