پلاسٹک کی آلودگی ماحول کے لئے ایک زہر قاتل ہے کیونکہ پلاسٹک کو گلنے میں برسوں لگتے ہیں اور اسی طرح پلاسٹک کا زیادہ تر فضلہ یا تو جلا دیا جاتا ہے یا لینڈ فلز میں بھیجا جاتا ہے، جس سے ہماری ہوا، زمین اور سمندر آلودہ ہو جاتے ہیں۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے باخبر سویرا میں ماہر ماحولیات ڈاکٹر پرویز امیر نے بتایا کہ پلاسٹک کے استعمال کیخلاف مہم شروع کی جاتی ہے جو کچھ ہی عرصے میں ختم ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پلاسٹک سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی سے شہریوں کی آگاہی کیلئے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کینسر بہت عام ہوچکا ہے۔
ڈاکٹر پرویز امیر نے کہا کہ پلاسٹک ہماری زندگی سے مکمل تو ختم نہیہں ہوسکتا لیکن حتی الامکان یہی کوشش کرنی چاہیے اس کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔
علاوہ ازیں پراوگرام میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں پلاسٹک کی تباہ کاریوں سے متعلق چشم کشا حقائق بیان کیے گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دور حاضر میں پلاسٹک ہر جگہ اور ہر شعبے میں استعمال ہورہا ہے اس کی وجہ پلاسٹک کی کم قیمت، استحکام اور استعداد ہے، دنیا بھر میں سالانہ تقریباً 500 بلین پلاسٹک کے تھیلے استعمال ہوتے ہیں، اور صرف پاکستان میں سالانہ 60 ارب پلاسٹک بیگز استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ عالمی سطح پر ہر منٹ میں دس لاکھ سے زیادہ پلاسٹک کے تھیلے استعمال ہوتے ہیں۔
کراچی میں یومیہ 2ہزار ٹن پلاسٹک کا کچرا پیدا ہوتا ہے، بار بار حکومتی اعلانات اور اقدامات کے باوجود دن بہ دن پلاسٹک کا کچرا بڑھ رہا ہے، یہ آلودگی نہ صرف ہماری زراعت تباہ کررہی ہے بلکہ نکاسی آب کے مظام کو بھی بری طرح ممتاثر کررہی ہے۔
عالمی ماحولیاتی اداروں کے مطابق اگر اس کے استعمال کو نہ روکا گیا تو سال 2050 تک زمین کی تباہی کے ساتھ ساتھ سمندر میں مچھلیوں سے زیادہ تعداد پلاسٹک کی ہوجائے گی۔