Daily Roshni News

پورب کے ہم زاد…(قسط 1)…تحریر ۔۔۔محمد عدنان خان…بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019

 

پورب کے ہم زاد

(قسط (1

تحریر ۔۔۔محمد عدنان خان

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔یورپ  کے ہم راز۔۔۔تحریر۔۔۔محمد عدنان) رنگ و چمن ، عروج و زوال ،عشق و سرمستی اور فنا و بقا کے رنگوں سے معمور صدیوں پر محیط داستان جس کی مکانیت تبت کی فلک بوس چٹانوں سے لے کر ٹیکسلا کی سرسبز وادیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔

ردا کا تعلق عرب نژاد پاکستانی خاندان سے تھا۔ پاکستان میں کچھ عرصہ قیام کے دوران اپنی دوست نیلم کے گھر ذکر وفکر کی محفل میں ردا کی بزرگ سے ملاقات ہوئی جن کی توجہ نے طبیعت میں روحانیت کی طرف میلان پیدا کر دیا۔ ردا کی بہن کی شادی پاکستان میں ہوئی۔ والد کے برطانیہ تبادلہ کی وجہ سے ردا اور نیلم کے درمیان رابطہ منقطع ہو گیا۔ ردا نے برطانیہ کی ایک یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ یہاں کاربن ڈیٹنگ کے پروفیسر جی آر چوہان کے لئے روا کی شخصیت معمہ تھی جسے جاننے میں وہ ناکام رہے۔ یونی ورسٹی کی تعلیم کے بعد جب پی ایچ ڈی آخری مراحل میں تھی تو ردا کے والد کا پھر پاکستان تبادلہ ہو گیا۔ ردا نے تعمیر مکمل کرنے کے لئے ٹیکسلا کے آثار قدیمہ کا انتخاب کیا جہاں صدیوں پرانی داستان صفحہ قرطاس پر ظاہر ہونے کے لئے ردا کی منتظر تھی ۔ اب آگے پڑھئے۔

ایک ہفتہ آرام اور دواؤں سے طبیعت بہتر ہوئی۔ سردی کی شدت پہلے سے زیادہ تھی ۔ ٹیکسلا جانے کے لئے گھر سے سخت ہدایات کے ساتھ مشروط اجازت ملی۔ بہن روما اور بہنوئی اسماعیل میری ڈھال بنے رہے۔ دھر مارا جیکا کی طرف جاتے ہوئے خوف کا غلبہ تھا۔ سوچا کہ کام ” جولیان میں بھی کرنا ہے لہذا پہلے وہاں چلی جاتی ہوں ۔ جولیان کا شمار بدھ مت کی قدیم خانقاہوں میں ہوتا ہے۔ یہ ضلع ہری پور، خیبر پختو نخوا کا حصہ ہے۔ پہاڑ کی بلندی پر واقع خانقاہ تک پہنچے کے لئے یونیسکو کی جانب سے تعمیر کی گئی طویل سیٹرھیاں چڑھنا پڑتی ہیں ۔ ڈرائیور بابا میرے ساتھ اوپر جانے پر اصرار کرتے رہے مگر اتنی بلندی تک جانا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ لہذا انہیں اطمینان دلاتے ہوئے اوپر کی جانب چل دی۔ سیڑھیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں ۔ اوپر پہنچی تو سناٹے کا راج تھا۔ شاید وجہ یہ تھی کہ آج چھٹی کا دن نہیں تھا۔ ویسے بھی کھنڈرات سے دل چپسی رکھنے والے لوگ کم ہوتے ہیں۔ خانقاہ کا مرکزی اسٹوپا بند تھا۔ بوڑھا چوکیدار نظر آیا۔ مجھے دیکھ کر پہلے بوکھلایا پھر ہنستے ہوئے بولا ، بی بی جی باہر سے آئی ہو؟ میں نے آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ملنے والا اجازت نامہ اسے تھمایا۔ لیٹر ہیڈ دیکھ کروہ میرے آنے کا مقصد سمجھ گیا۔ بی بی جی کہو تو اسے کھول دوں، جتنی دیر چاہو کام کرو۔ میں یہیں ہوں بے پھکر ہو کر پڑھائی کرو۔ خانقاہ کے مرکزی اسٹوپا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

میں نے اثبات میں سر ہلایا۔

 میرا زیادہ کام مرکزی اسٹوپا سے منسلک تھا۔ چوکیدار نے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے جیب سے چابی نکالی اور گرل والے دروازہ کا تالا کھول دیا۔ اندر داخل ہوئی تو اس نے پیچھے سے آواز دی، بی بی جی میرا جوڑی دار نئیں آیا۔ اس کی جورو بیمار ہے۔ کہو تو اتنے میں کھانا کھا کے آجاؤں۔ درواجا اندروں بن کر لیو۔ ہر کسی تو اندر جان دی اجازت نئیں اے۔ یہ اطلاع تھی یا اجازت میں سمجھ نہیں سکی ۔ حیران و پریشان سوالیہ نظروں سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔ ذہن میں آنے والے اندیشوں کو جھٹکا اور اندر سے کنڈی لگا کر کام میں منہمک ہو گئی ۔

ہر طرف بتوں کے مجسمے تھے ۔ اسٹوپا کی ناپ تول اور پیمائش کے بعد دیوار پر آویزاں سب سے بڑے مجسمہ کے نمونے لیتے وقت کہیں دور سے ہلکے ہلکے نقارے بجنا شروع ہوئے۔ انہماک کی وجہ سے آواز کی طرف دھیان نہیں گیا لیکن مجسمہ کے معائنہ کے دوران اس وقت رگ و پے میں خوف کی لہر دوڑ گئی جب اس کے ماتھے پر دائیں طرف کسی وقت میں نکالے گئے قیمتی پتھر کے خلا سے سرخ روشنی دکھائی دی۔ روشنی پھیلنے لگی اور پھیلتے پھیلتے کمرے پر محیط ہو گئی ۔ ذہن نقاروں کی طرف متوجہ ہوا، آواز تیز ہوتی جارہی تھی ۔ آسیب زدہ ماحول سے بھاگنے کے لئے تیزی سے بیگ کی طرف لپکی ۔ دروازہ کھلنے کی زور دار آواز آئی۔ پلٹ کر دیکھا تو دروازہ بند تھا۔ دل حلق میں آگیا اور چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ دروازہ کی طرف دوڑ لگائی تو سامنے وہی نوجوان زرق برق لباس میں دکھائی دیا اور شاہانہ انداز سے چلتا ہوا چند فٹ فاصلہ پر کھڑا ہو گیا۔ میں نے ہمت کرتے ہوئے پوچھا، کون ہو تم ؟ زبان ہکلاہٹ کا شکارتھی۔ اس نے جواب میں کچھ کہا لیکن بھنبھناہٹ کے سوا ،، کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ سماعت پر زور دینے سے اندازہ ہوا کہ سنسکرت میں کچھ کہا ہے اور کشان “ اور ” پزل کے الفاظ واضح ہوئے۔ آرکیالوجی سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے قدیم زمانوں اور زبانوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس سلسلہ میں سنسکرت زبان کا قدیم ورژن اہمیت رکھتا ہے۔ میں اس کے کئی کورسز کر چکی تھی ۔ کورسز میں قدیم زبانوں کی لغات کے ساتھ باقاعدہ کلاسیں شامل تھیں۔ اس شخص کا مجھے مخاطب کر کے کچھ سمجھانے کی وجہ سے میرا خوف کم ہو گیا تھا کہ یہ مجھے نقصان نہیں پہنچائےگا۔ سمجھنے سمجھانے کا سلسلہ جاری تھا کہ بچوں کے چیخنے۔۔۔جاری ہے۔

Loading