Daily Roshni News

پورب کے ہم زاد…(قسط 2)۔۔۔تحریر ۔۔۔محمد عدنان خان…بشکریہ ہاہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019

پورب کے ہم زاد

(قسط (2

تحریر ۔۔۔محمد عدنان خان

بشکریہ ہاہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔یورپ  کے ہم راز۔۔۔تحریر۔۔۔محمد عدنان) اور دوڑنے کی آوازوں کے ساتھ منظر بدل گیا۔ گھومنے پھرنے کی غرض سے بچوں کے ساتھ کچھ لوگ آگئے تھے۔ میں نے جلدی جلدی سامان سمیٹا اور بیگ اٹھا کر باہر آگئی۔ چوکیدار اب تک غائب تھا۔ باہر لوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ گویا میں یہاں کی باقیات میں سے تھی ۔ میں گرل والے دروازہ کو کنڈی لگا کر سیڑھیوں کی طرف آئی تو چوکیدار کھنکھارتا ہوا اوپر آرہا تھا۔ مجھ پر نظر پڑی تو گھگیاتے ہوئے بولا ، ما بھی چاہتا ہوں بی بی جی کھانے کے بعد کمر لگائی تو نیند آگئی۔ لگتا تھا میں ایک بار پھر دھوکا کھا گئی تھی ۔ وقت زیادہ گزر گیا تھا لیکن میرے لئے نہ گزرنے کے برابر تھا۔ بیگ سے موبائل نکالتے ہوئے سیڑھیاں اترنے لگی۔ ڈرائیور بابا کئی فون کر چکے تھے اور مجھے اسٹوپا میں پانچ گھنٹے لگ گئے تھے۔ نیچے پہنچی تو وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بے خبر سور ہے تھے ۔ شرمندگی ہوئی کہ انہوں نے کھانا نہیں کھایا ہوگا ۔ آواز دی تو وہ ہڑ بڑا کر اٹھ گئے۔ راستہ سے کھانے پینے کی چیزیں خریدیں۔ آج بھی خاطر خواہ کام نہ ہو سکا تھا مگر جو کچھ پیش آیا اس نے میر اتجسس بڑھادیا۔

دہ شخص کون تھا جو قدیم سنسکرت زبان میں مجھے کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ کشان اور پزل کے الفاظ سے اندازہ ہوا کہ اس کا تعلق سینکڑوں سال پرانی تاریخ سے ہے ۔ تاریخ کے ان ادوار سے میں اس وقت واقف ہوئی جب میں نے ” چندر گپت موریا ” کے دربار میں کام کرنے والے سفیر میگا ستھینز کی کتاب انڈیکا” کا مطالعہ کیا۔ کتاب پڑھے ہوئے کافی عرصہ بیت گیا تھا اس لئے کچھ چیزیں ذہن میں تھیں اور زیادہ حذف ہو گئیں۔ میں ایسے مسئلہ کا شکار ہوگئی تھی جو میرا نہیں تھا مگر ریسرچ کی تکمیل کے لئے مجھے اس کا سامنا کرنا پڑا۔ گھر میں تذکرہ کرنا خود پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کرتا تھا۔ راستہ ان سوچوں میں گزر گیا ۔ ہارن نے متوجہ کیا، گاڑی گھر کے باہر گیٹ کھلنے کی منتظر تھی۔ اس ایک لمحہ میں فیصلہ کیا کہ میں اس معاملہ سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ گھر میں داخل ہوئی تو ذہن پر سے بوجھ ہٹ گیا تھا۔ امی نے حسب عادت مسکراتے ہوئے پیار کیا اور شام کی چائے کا کہہ کر باورچی خانہ کی طرف بڑھ گئیں۔ ذہن اس بات پر مرکوز ہو گیا کہ مجھے اپنی تحقیق میں گزرے وقتوں کے اس شہزادہ کو شامل کرنا ہے جو باربارسا منے آکر کچھ کہنا چاہتا ہے۔ ماضی کے جھروکوں سے چھن کر آنے والی روشنی میں ان کرنوں کو تلاش کرنا تھا تا کہ وہ باب روشن ہو جس کا تعلق آزرده حال شہزادہ سے تھا۔ میں یہ بھی سوچ رہی تھی کہ کہیں آگے چل کر مصیبت میں نہ پھنس جاؤں۔ بظاہر یہ وسوسہ تھا مگر کوئی راہ نما نہ ہو تو رکاوٹ اپنے ساتھ وسوسوں کی بارات لے کر آتی ہے ۔ راہ نما وسوسوں سے بچا کر نکالنا خوب جانتے ہیں۔ اب اصل بات راہ بر کی تلاش تھی جس کے بغیر یہ سفر ممکن نہیں تھا۔ میں نے وضو کیا۔ لطافت اور پاکیزگی کے احساس نے طبیعت کا بوجھل پن دور کر دیا۔ نماز کے بعد خشوع و خضوع کے ساتھ دست طلب دراز کیا کہ یا اللہ ! قرآن کریم میں ہے کہ جو اللہ کے لئے جدو جہد کرتا ہے، اللہ اس پر اپنی راہیں کھول دیتا ہے۔ زبان پر سورہ عنکبوت کی آیت کی تکرار تھی ،طبیعت پر رقت طاری ہوگئی اور آنسو بہہ نکلے۔ دعا میں ارتکاز اور رقت پیدا ہوئی تو میں بے اختیار سجدہ میں چلی گئی۔ رب کے حضور گڑ گڑا رہی تھی۔ لگتا تھا اللہ تعالی کی محبت و شفقت نے مجھے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا ہے۔ نجانے کتنی دیر یہ کیفیت رہی ۔

امی نے آواز دی۔ جلدی جلدی منہ دوبارہ دھو کر ڈائٹنگ روم میں آگئی۔ وہ کافی دیر سے انتظار کر رہی تھیں۔ دیکھتے ہی شکوہ کیا ،کیا بات ہے ردا اتنی دیر لگا دی ، چائے ٹھنڈی ہوگئی ہے۔ امی نماز کا وقت نکل رہا تھا۔۔ بیٹا میں کئی دن سے دیکھ رہی ہوں تم خاموش اور سنجیدہ ہو اور زیادہ وقت کمرے میں گزارتی ہو۔ طبیعت ٹھیک ہے نا۔ روما نے بھی محسوس کیا ہے ۔ چائے کی پیالی اٹھاتے ہوئے پوچھا، کیا آپی نے کچھ کہا ؟ وہ کیا کہے گی، ملنے آتی ہے تو تم پہلے کی طرح بات  نہیں کرتیں۔ خود کو اتنا مصروف کر لیا ہے ۔ امی کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ کسی نے گیٹ زور زور سے پٹیا پھر گھنٹی بجائی۔ لگتا تھا کہ گھنٹی بجانے والا بہت جلدی میں ہے یا گھنٹی بجانے کے آداب سے بے خبر ہے۔ امی نے فکر مندی سے کہا، او ہو یہ کون آ گیا ، میں نے چوکیدار اور ڈرائیور دونوں کو بازار بھیجا ہے ۔ اس سے پہلے کہ وہ خود دروازہ کھولنے جاتیں، میں نے میز پرامی کے بٹوے میں سے نوٹ نکالا اور تیزی سے یہ کہتے ہوئی باہر آئی کہ لگتا ہے کوئی مانگنے والا ہے۔ پیچھے سے امی نے آواز دی، بیٹا دروازہ نہیں کھولنا۔

میں نے جی اچھا کہہ کر دروازہ میں بنے آئی ہول کا کور ہٹا کر پوچھا، کون ہے؟ نہایت مکر وہ صورت بوڑھا جس کے بے ترتیب اور بکھرے ہوئے لمبے بالوں میں دھول اٹی ہوئی تھی، کپڑوں کا رنگ میل کچیل نے تبدیل کر دیا تھا، سامنے آیا اور قہر آلود موٹی موٹی سرخ آنکھوں سے گھورتے ہوئے چیخا۔ وہ میرا شکار ہے، دور رہ اس سے ورنہ چوٹ کھائے گی میرے ہاتھوں !

غضب ناک انداز میں ہاتھ لہرا کر گرج رہا تھا۔ میں مبہوت اور سکتہ کی سی کیفیت میں اسے دیکھ رہی تھی۔ پھر وہ پلٹا اور اوجھل ہو گیا۔

کون تھا ، کہاں سے آیا اور کہاں چلا گیا۔؟ تجسس میں چھوٹا دروازہ کھول کر باہر آئی مگر دور دور ر تک سڑک سنسان تھی ۔ امی دروازہ کھولنے کی آواز سن کر لان میں آگئیں اور ماتھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے ڈانٹے لگیں۔ تم اپنی عادتوں سے باز نہ آنا، کسی بات سے ڈرتی

نہیں ، دروازہ بھاڑ سا کھول کر کھڑی ہوگئی ہو۔ میں دروازہ بند کر کے پیٹی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اندر آگئی ۔ آج کل کے بچے شرارتی ہو گئے ہیں امی کوئی بچہ دروازہ بجا کر بھاگا ہے ۔ وہ مشکوک انداز سے گھورتے ہوئے بولیں ، اس سے پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔ اب میں کیا کہہ سکتی ہوں ۔ میں نے اداکاری کرتے ہوئے کندھے اچکائے۔ جلدی جلدی چائے پی اور آرام کا کہہ کر کمرے میں آگئی۔ امی کو تو مطمئن کر دیا مگر خود پر یشان ہوگئی تھی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ پہیلیاں بڑھتی جا رہی تھیں ۔ بار بار ذہن بزرگ کی طرف چلا جاتا۔ وہ راہ نمائی کر سکتے ہیں کہ یہ سب کیا اور کیوں ہورہا ہے۔ انہیں تلاش کرنا ہوگا۔ رات مراقبہ میں بیٹھی تو میں نے بچپن کی سہیلی نیلم کے ہم راہ خود کو بزرگ کے رو برو دوزانو با ادب دیکھا۔ ان کے قلب سے دودھیا روشنی کی دھار میرے سر میں جذب ہو رہی تھی ۔ مراقبہ کے بعد نیند میں بھی مراقبہ کا تسلسل برقرار تھا۔ مراقبہ کی کیفیات کی وجہ سے طے کر لیا کہ کچھ بھی ہو پہلے نیلم کا گھر تلاش کیا جائے۔ اگلے روز والدہ سے بمشکل اجازت ملی ۔ ان لوگوں نے گھر تبدیل کر لیا تھا۔ نئے مکانات بننے اور پرانے مکانات تبدیل ہو جانے کے باعث نقشہ بدل گیا تھا۔ ذہن میں تیزی سے خیال گزرا کہ نیلم کے والد سرکاری افسر تھے اور وہ اکثر پنڈی صدر میں ان کے آفس کا ذکر کرتی تھی۔ وہ شفیق اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے ۔ کیوں نہ دفتر سے پتہ حاصل کیا جائے ۔ مگر ڈرائیور بابا کے چہرہ سے تھکن اور بیزاری عیاں تھی۔ لہذا تلاش کا سلسلہ کل تک موقوف کر کے ہم واپسی کے لئے پلئے۔

Loading