پٹھان۔۔۔قیس عبدالرشید اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )پٹھانوں (افغان قوم) کی ابتداء کے بارے میں تین آراء ہیں: پہلی یہ کہ یہ آرینز ہیں، دوسری یہ کہ یہ مختلف اقوام ہیں، جو اس خطے میں طویل عرصے تک رہے تو ان کا رہہن سہن، رسم و رواج اور عادات ایک جیسی ہوگئیں؛ اور یہی کامن چیزیں ان کو ایک قوم بناتی ہیں؛ تیسری رائے یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کا بارہواں قبیلہ ہے جو غور کے علاقے میں آکے آباد ہوگیا تھا۔
اس تیسری رائے کے حامل افراد افغانوں کے قبول اسلام کے حوالے سے ایک واقعہ سناتے ہیں کہ خراسان کے اس علاقے سے افغانوں کے ستر افراد پر مشتمل ایک وفد، اپنے سردار قیس (عبدالرشید) کی سربراہی میں، آنحضور صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا؛ مزید یہ کہ ایک غزوہ میں ان کی بہادری دیکھ کر آنحضور صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو “بتان” کا لقب دیا جو بعد میں پٹھان کا تلفظ اختیار کرگیا۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیس عبدالرشید کا نکاح حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے ہوا۔
~~~
یہ تیسری رائے (یعنی پٹھان بنی اسرائیل کا بارہواں قبیلہ؛ اور ان کے قبول اسلام کا واقعہ) اکثر پٹھانوں میں کافی مقبول ہے، لیکن اس حوالے سے چند سوال ذہہن میں آتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ کیا اس واقعے کا ذکر حدیث کی کسی کتاب میں ہے؟
بعض افراد یہ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ احادیث کی کتب میں نہیں البتہ تاریخ کی کتب میں ہے۔ لیکن یہاں اہم بات یہ ہے کہ ہم جس واقعے کی بات کررہے ہیں اس کا تعلق دورنبوت سے ہے اور اس کا ذکر احادیث و سیرت کی کتابوں میں ہونا لازمی ہے۔ اگر ایسا نہیں تو اس واقعے کی سند پر بہت بڑا سوالیہ نشان آجاتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ نو ہجری (عام الوفود) میں جن قبائل کے وفود مدینہ آئے، سیرت کی کتابوں میں ان میں سے اکثر قبائل کا ذکر ہے اور تفصیل سے ذکر ہے۔ اگر اس وفد کا ذکر نہیں تو حیرانگی کی بات ہے۔
یہ واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں کہ خراسان کے علاقے سے ایک وفد مدینہ گیا ہو اور اس کا ذکر احادیث کی کتابوں میں نہ ہو۔ یہاں ذہہن میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ خراسان کے اس دورافتادہ علاقے سے ایک وفد کس کی تبلیغ پر مدینہ گیا تھا؟
باالفرض ایک مفروضہ یہ قائم کر لیا جائے کہ صلح حدیبیہ کے بعد آنحضور صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف بادشاہوں کو جو خطوط لکھے تھے ان میں سے ایک خط کسری ایران کو بھی لکھا گیا تھا، اور خراسان (جو کہ اس وقت ساسانی سلطنت کا ایک حصہ تھا) میں افغانوں نے اس خط اور اس پر کسری کے ردعمل کا سن کر اپنا ایک وفد مدینہ بھیجا ہو؛ تو ایسی صورت میں اس واقعے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، اور اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے لازما احادیث و سیرت کی کتابوں میں واضح طور پر لکھا جاتا۔
~~~
جہاں تک تعلق ہے کسی غزوہ میں بہادری دکھانے کا تو صلح حدیبیہ کے بعد جتنے غزوات ہوئے، ان میں سے دو غزوات ایسے ہیں جن میں جنگ ہوئی ہے، ایک غزوہ خیبر اور دوسرے غزوہ حنین۔ غزوہ خیبر اور غزوہ حنین دونوں کا تاریخی ریکارڈ موجود ہے، اس میں ایسے کسی غیرعرب قبیلے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اور جہاں تک غزوہ مکہ (فتح مکہ) اور غزوہ تبوک کا تعلق ہے تو ان میں جھڑپ کی نوبت ہی نہیں آئی۔ لہذا ان میں بھی کسی غیرعرب قبیلے کا ذکر نہیں ملتا۔
~~~
اس مبینہ واقعے کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ قیس عبدالرشید، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے داماد بنے۔ اب یہ بھی کوئی معمولی واقعہ نہیں؛ ایک تو یہ کہ حضرت خالد بن ولید کوئی غیرمعروف صحابی نہیں، بہت مشہور صحابی ہیں؛ دوسرے ان کے ساتھ جزیرة العرب سے دور خراسان کے علاقے میں رشتہ داری کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ اس کا بھی ذکر سیرت و تاریخ کی کتابوں میں ہونا چاہیے تھا۔
~~~
آنحضور صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کوئی عام تاریخی شخصیت نہیں؛ خاتم الانبیاء ہیں۔ آنحضور سے کسی جھوٹی بات کو منسوب کرنے پر شدید وعید ہے۔
مسلمان مورخین اور اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ اگر یہ واقعہ محض منگھڑت ہے تو عوام کو یہ سمجھایا جائے کہ آنحضور صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کسی فرضی و منگھڑت بات کو منسوب کرنا شدید گناہ ہے، اس سے بچنا چاہیئے … اور … اگر یہ واقعہ سچا ہے تو اس کے تمام پہلووں کو اجاگر کرکے اسے بیان کیا جائے اور اس کے ریفرنسز بتائیں جائیں۔
~~~
فوادلوہانی
شوال 3، 1441/مئی 26، 2020
~~~
پس نوشت:
اس تحریر میں افغانوں کے آریجن کے حوالے سے موجود تھیوریز پر سوال نہیں اٹھائے گئے، جیسا کہ بعض قارئین نے سمجھ لیا ہے، اور اس کا اظہار کمنٹس میں کیا ہے۔ ایسے سوالوں کا تعلق انتھروپولوجی سے ہے اور اسے سوشل میڈیا پر ڈسکس نہیں کیا جاسکتا۔
اس تحریر میں افغانوں کے قبول اسلام کے حوالے سے جو واقعہ مشہور ہے اس کے بارے میں چند سوال ہیں۔ اور وہ سوال اس لیئے پوچھے گئے ہیں کہ اگر ایسا واقعہ سچا نہیں تو اس واقعے میں آنحضور صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب جو الفاظ ہیں ان کی سند کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جزبہءقومیت کی جذباتیت کے تحت ہم میں سے اکثر لوگ لاعلمی میں آنحضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جھوٹی بات منسوب کررہے ہوں۔