قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت میں برائے نام شرح سود پر جاری کیے جانے والے 3 ارب ڈالرز کے قرض پر اسٹیٹ بینک کی طرف سے دی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت ہوا جس میں بتایا گیا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مصروفیات کی بنیاد پر آنے سے معذرت کی ہے اور وہ جمعے کو ہونے والی کمیٹی میٹنگ میں آئی ایم ایف پروگرام پر ان کیمرہ بریفنگ دینا چاہتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے ٹرف لون کے معاملے پر جواب نہ دینے پر ارکان چوہدری برجیس طاہر، چوہدری خالد جاوید وڑائچ اور ناصر اقبال بوسال نے اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔
چیئرمین کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 6 ماہ سے ہم سوال پوچھ رہے ہیں، وزیراعظم اور وزیر دفاع نے یہ معاملہ اٹھایا ہے، آج کے دور میں یہ رقم 85 ہزار کروڑ روپے بنتی ہے، اسٹیٹ بینک کے پاس معلومات نہیں ہیں تو بینکوں سے معلومات لیں، یہ قرض اگر کسانوں کو دیا گیا ہوتا تو آج زراعت کا شعبہ بہترہوتا۔
برجیس طاہر کا کہنا تھا کہ بتایا جائے یہ 628 لوگ کون ہیں جن کو یہ قرض دیا گیا اور ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کیا گیا۔
ڈاکٹر نفیسہ شاہ کا کہنا تھا یہ حکومت جانے والی ہے اسٹرٹیجک ہوائی اڈے اور بندرگاہوں کی نجکاری کی جا رہی ہے، آئی پی پیز آدھی کیپیسٹی پر چل رہے ہیں، حکومت کی غلطیوں کے باعث ہر پاکستانی بجلی کے بل پر 50 روپے فی یونٹ ادائیگی کرنے پر مجبور ہے۔
علی پرویز ملک نے پوچھا کہ اسپیشل انویسمنٹ کونسل کیلئے فنڈز کہاں سے آئے ہیں؟ یہ فنڈ سرمایہ کاری بورڈ کے نیچے کام کرے گا، ساورن فنڈ کا بل ابھی تک سینیٹ سے منظور نہیں ہوا۔
قائمی کمیٹی نے نیشنل بینک ملازمین کو پنشن کی ادائیگی کے مسئلے پر ملازمین اور بینک انتظامیہ کو عدالت سے باہر معاملہ حل کرنےکیلئے تین دن کی مہلت دے دی۔