چار مرحلے: جو عورتوں پر آتے ہیں ۔۔۔
تحریر۔۔۔ بلال شوکت آزاد
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ چار مرحلے: جو عورتوں پر آتے ہیں ۔۔۔ تحریر۔۔۔ بلال شوکت آزاد)چار مرحلے: جو عورتوں پر آتے ہیں لیکن دو مراحل والی بہتر اور دو مراحل والی بدتر کونسی ہیں؟ –
یہ عورتیں…؟
ہاں، یہی جدید عورتیں…
جو عمر میں بڑھتی جا رہی ہیں، لیکن عقل میں جمود لیے ہوئی ہیں۔ جو کیلنڈر کے صفحے تو پھاڑتی رہیں، مگر اندر سے آج بھی سولہ کی ہی ہیں۔ جن کے کمرے میں شیشے تو بڑے ہو گئے، مگر شعور چھوٹا ہی رہ گیا۔ جو جسم کی حرارت میں تو پکی ہو گئیں، مگر روح کی سردی ویسی کی ویسی ہی رہی۔ وہ عورتیں جنہوں نے اپنے چہروں پہ روشنیاں لگا لیں، مگر دماغ کے اندھیرے نہ مٹ سکے۔ جنہوں نے انسٹاگرام پر لیول اَپ کیا، مگر اندر سے “لٹل پرنسس” ہی رہیں۔ وہ عورتیں جن کے لیے عورت ہونا صرف ہارمونز کی ترسیل تھی، نہ کہ شعور، صبر اور قربانی کی تکمیل۔
یہ تمثیل نہیں…
یہ تلخ حقیقت ہے۔
یہ لطیفہ نہیں…
یہ لمحۂ فکریہ ہے۔
کیونکہ عورت ہونا کوئی خودکار نظام نہیں۔ یہ کوئی بایولوجیکل انجام نہیں، جو قدرت نے دے دیا تو تمہارا سفر مکمل۔ عورت ہونا سیکھا جاتا ہے، کمایا جاتا ہے، اور کبھی کبھار تو اس کی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے, جسمانی، جذباتی اور روحانی۔
لیکن کیا ہوا؟
یہ عورتیں رک گئیں… وہیں، جہاں انہیں صرف لڑکی ہونا آتا تھا۔
آئیے، ہم ان چار مراحل کو سمجھتے ہیں جن سے ایک عورت کو گزرنا تھا۔ مگر وہ کہاں رکی، کہاں بھٹکی، کہاں بگڑی, یہ بھی دیکھتے ہیں۔
پہلا مرحلہ: وہ “گرل”، جو اپنے جسم کی اسیر ہے!
یہیں سے شروعات ہوتی ہے، اور اکثریت یہیں جمی رہتی ہے۔
اس کی پہچان؟
اس کی کمر کا سائز۔
اس کی قدر؟
اس کے چہرے پر لگے فلٹرز۔
اس کی خودی؟
مردانہ نظریں۔
اس کی معیشت؟
اس کے ہونٹوں کی پُھرتی اور جسم کے خم۔
وہ سمجھتی ہے کہ:
جسم ایک طاقت ہے,
چہرہ ایک کرنسی,
بریسٹ پورٹ فولیو,
اور ہپس اس کا ریزیومے,
وہ خود کو “بولڈ” کہتی ہے، مگر اندر سے خالی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ سیلفی ایک کارنامہ ہے، اور ویڈیو میں تھرکنا خوداعتمادی۔ وہ پلاسٹک سرجری کے لیے پیسے جمع کرتی ہے، مگر کتاب خریدنے کا وقت نہیں۔ وہ فلرز کو ایمان پر ترجیح دیتی ہے۔ اس کے لیے “آزادی” کا مطلب ہے جسم کا اشتہار بن جانا۔
لیکن جسم تو ہر عورت کے پاس ہے۔
وہ تو فقط حیاتیاتی عطا ہے۔
تو اگر کسی عورت کے پاس صرف جسم ہو؟
تو وہ بالغ نہیں، فقط بارآور ہے۔
دوسرا مرحلہ: وہ “لیڈی”، جو اپنی عقل پر نازاں ہے!
یہ وہ عورت ہے جس کے پاس ڈگریاں تو ہیں،
مگر منزل نہیں۔
جس نے یونیورسٹی سے گریجویٹ کیا ہے،
مگر زندگی کے ہدف سے نہیں۔
جو TED Talk تو یاد رکھتی ہے،
مگر تیمم کا طریقہ نہیں۔
جو مرد کی سربراہی کو ظلم سمجھتی ہے،
مگر بیوقوفوں کے ہجوم کو دوست بنا لیتی ہے۔
وہ بولتی ہے:
“مجھے مرد کی ضرورت نہیں۔”
“پدرانہ نظام مسئلہ ہے۔”
“میں صرف جسم نہیں، دماغ بھی ہوں۔”
اور واقعی! دماغ ہے… مگر بکھرا ہوا، بے سُرا، انارکی زدہ۔
ایسی عورت گھر نہیں بساتی، مباحثہ کرتی ہے۔
کھانا بنانے کے بجائے، بحث پکاتی ہے۔
وہ جسے ساتھی بننا تھا، وہ مقابل بن گئی۔
اس کے پاس زبان ہے، اور بہت تیز۔
ہر بات پر ایک رائے,
ہر حکم پر ایک سوال,
ہر قربت پر ایک معاہدہ,
وہ عورت نہیں، ایک دائمی مظاہرہ ہے۔
سٹیج بدلتا رہتا ہے، مگر ڈائیلاگ وہی ہوتے ہیں۔
میرا جسم, میری مرضی!
تیسرا مرحلہ: وہ “وائف”، جو فہم سے بنی ہے!
یہاں بات کچھ سنجیدہ ہو جاتی ہے۔
یہ وہ عورت ہے جو جانتی ہے کہ عورت ہونے کا مطلب فقط نرمی نہیں، حکمت بھی ہے۔
بیوی غلام نہیں، مشیر ہوتی ہے۔
وہ فرش پر نہیں، فکر پر جھکتی ہے۔
وہ فقط موجود نہیں، وہ مربوط ہے۔
ایسی بیوی:
اپنی خوبصورتی صرف ایک مرد کے لیے بچاتی ہے,
اس کے سکون کی محافظ ہوتی ہے,
اس کے مشن کی شریک,
اس کے بوجھ کی ڈھال,
وہ جانتی ہے کہ:
اس کی بے ترتیبی کو اس کے شوہر کی ترتیب چاہیے,
اس کی جذباتیت کو ایک رُکنے والا مضبوط ہاتھ درکار ہے,
اس کا حسن،
اس کی عقل،
اس کی عطا,
سب کچھ تب ہی بامعنی ہے جب رشتے کے سانچے اور جذبات (محبت) کے ڈھانچے میں بند ہو,
یہ کمزوری نہیں، حکمت ہے۔
یہ جھکنا نہیں، جڑنا ہے۔
ایسی بیوی اپنے مرد کو کمزور نہیں کرتی، بلکہ ڈھانپتی ہے۔
کیونکہ وہ جانتی ہے، مشن موڈ سے بڑا ہے۔
چوتھا مرحلہ: وہ “مدر”، جو قربانی سے تاج پہنتی ہے!
یہ مرحلہ صرف بچے جَننے کا نہیں،
نسل اُٹھانے کا ہے۔
یہ جسم دینے کی بات نہیں،
ذات وقف کرنے کی بات ہے۔
یہ وہ عورت ہے جو اپنا جسم، وقت، نیند، لچک,
سب کچھ چھوڑ دیتی ہے… صرف ایک مقصد کے لیے: وارث پیدا کرنا۔
ایسی عورت:
کیریئر کے بجائے کنبہ بچاتی ہے,
مارکیٹ پلیس کے بجائے گھریلو قلعہ بچاتی ہے,
اپنی خوشی کی تلاش کے بجائے خاندان کے مرکز میں خود کو رکھتی ہے,
وہ صرف بچے نہیں پالتی،
نظریات اُگاتی ہے۔
وہ فقط ماؤں والی مشقت نہیں کرتی،
بلکہ نسلی حکمت کی معمار ہوتی ہے۔
وہ اپنے احساسات پر خاندان کو قربان نہیں کرتی،
بلکہ اپنی انا کو خاندان کے گرد گھماتی ہے۔
یہ غلامی نہیں،
حاکمیت ہے۔
کیونکہ عورت صرف بچہ پیدا کرنے سے ماں نہیں بنتی۔
وہ تب ماں بنتی ہے، جب وہ اس بچے کو وژن، اقدار اور ہوشیاری سے پالے۔
سماجی و معاشرتی زوال کب آتا ہے؟
جب مرد غلط مرحلے کی عورت سے شادی کر بیٹھتا ہے,
اگر تم نے کسی “گرل” سے شادی کر لی؟
تو تیار ہو جاؤ ایک ٹک ٹاکنگ کرتی، لائکس کے پیچھے بھاگتی، جھوٹ بولتی اور جذباتی بلیک میلنگ کرنے والی عورت کے “شَکری باپ” بننے کے لیے۔
اگر تم نے کسی “لیڈی” سے شادی کر لی؟
تو ہر کھانے پر بحث ہو گی۔
ہر فیصلے پر مناظرہ ہو گا۔
اور تم اپنی زندگی اس کی گوگل پر مبنی فیمینسٹ تھیوری کے تابع گزارو گے۔
اگر تم نے کسی ایسی عورت سے بچہ کر لیا جو ابھی پختہ نہیں تھی؟
تو تم ایک ایسی ماں کے رحم و کرم پر ہو گے جس کے پاس کوئی “نقشۂ راہ” نہیں۔
کیونکہ جب عورت آخری الذکر دو بہترین مراحل “وائف” اور “مدر” والے چھوڑتی ہے؟
تو مرد بھٹکتا ہے… بچوں کی کسٹڈی کے عدالتی کمرے میں، یا اپنے کمرے کی تنہائی میں۔
آخری بات:
عمر سے شادی بند کرو، شعور سے شادی کرو,
وہ 18 کی ہے,
25 کی ہے,
یا 34 کی ہے؟
یہ کوئی کامیابی نہیں،
فقط سفر (انگریزی والا) ہے۔
کیونکہ وہ 34 کی ہو سکتی ہے،
اور عقل میں صفر۔
اور وہ 25 کی ہو سکتی ہے،
مگر نظریات میں نانی امّاں سے زیادہ بالغ۔
تو یہ مت پوچھو:
“کتنے سال کی ہے؟”
پوچھو:
کیا اس نے اپنی انا سے اوپر جانا سیکھا ہے؟
کیا وہ نظم و ضبط کو قبول کر سکتی ہے؟
کیا وہ قربانی کا ہنر جانتی ہے؟
کیونکہ حسن ماند پڑ جاتا ہے۔
ڈگریاں گرد اُڑاتی ہیں۔
مگر حکمت؟
وہ سلطنتیں بناتی ہے۔
اگر وہ ابھی تک آئینے سے آگے نہیں نکلی؟
تو اُسے وہیں چھوڑ دو۔
کیونکہ شادی لڑکیوں کا کھیل نہیں۔
یہ اُن عورتوں کا ورثہ ہے… جنہوں نے “بڑھاپا” نہیں، بلوغت کمائی ہو۔
#سنجیدہ_بات
#آزادیات
#بلال #شوکت #آزاد