Daily Roshni News

چالاک بیوی

چالاک بیوی
شادی کے بعد بھی امی اور باجیوں کا منہ بہت عرصے تک سوجا رہا تھا۔ جب سوجن اتری تو ایک طوفان بدتمیزی کا آغاز ہوا تھا۔ ایک طرف وہ سب سے چھوٹا امیدوں کا مرکز ، بہنوں کا راج دلا را، اسے لعنتی مردوں کا خطاب پانے میں بہت کم عرصہ لگا تھا۔ اور دوسری طرف نازی وہ بھی انہیں کسی بھی طرح معاف کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اینٹ کا جواب پتھر سے آنے لگا تھا۔
👇👇
آج صبح ہی صبح جب میں نے آلو والی ٹوکری میں جھانکا تو جھاڑنے سے بھی کوئی نہیں نکلا۔ اب سبزی والے کا انتظار کون کرے ۔ بچیاں اسکول سے آتی ہوں گی اور آتے ہی بھوک بھوک کا شور مچا دیں گی۔اب بندی کرے تو کیا کرے۔ نازی ٹھیک ٹھاک محبوب بیوی تھی۔ وہ جانتی تھی وہ کہنے کی کیا ضرورت ہے بھلا ، کہتے ہیں ڈھنڈورا تو وہ پیٹیں جو اندر سے خالی ہوں-

سرمد بڑے غور سے سن رہا تھا پانچ سال پرانی بیوی کو ۔ نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی نے بتایا کہ وقت نے نازی کا کچھ بھی نہیں بگاڑا تھا۔ وزن ذراسا بڑھا ضرور ہے مگر باقی وہ ویسی کی ویسی تھی۔ زندگی میں پہلی بار پہلی ہی بندی نازیہ احسان پر مر مٹنے والا سرمد آج بھی اس کا گرویدہ تھا۔ چاروں شانے چت۔ یہ محبت ہوتی ہی ایسی ہے کبھی کر کے تو دیکھو، تمہارے نام سے جس کو نسبت نہ ہوگی۔ وہ افسانہ ہو گا حقیقت نہ ہوگی۔ تو پھر بندی نے کیا کیا آخر جو آلو گوشت بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ کرنا کیا تھا۔ میں کئی سیدھی عائزہ کے گھر، بھئی دو چار آلو ہی دے دو۔ کہنے لگی۔ نازی آپی پرسوں ختم ہوۓ ہیں انڈے پڑے ہیں فریج میں وہ بنالو۔

تمہیں تو پتا ہی ہے سرمد ، انڈے مجھے کتنے برے لگتے ہیں۔ بی پی فورا ہائی ہو جاتا ہے، کھانے کے بعد والا عذاب کون جھیلے پھر میں نے دیکھا فائز بھائی صاحب بازار سے ہو کر آ رہے تھے۔ بہت سارے نیلے پیلے شاہراٹھا رکھے تھے۔ بے چارے بیٹھنے کے بجاۓ فورآ بازار گئے اور آلو لا کر دیے۔ پھر بنایا میں نے مزیدار گرما گرم آلو چکن کا سالن کیوں اچھا بنا ہے ناں۔ آخر میں اس کی مسکراتی آنکھیں گول گول گھومیں۔ بہت اچھا لگا مجھے ۔

بنایا کس نے ہے۔ وہ پھیکی سی ہنسی ہنس دیا تھا۔ نازی کے وہاں جانے کا سن کر- اس فائز بھائی صاحب کا نام تو فائزہ بہن جی ہونا چاہیے تھا۔ لعنتی کہیں کا۔ ہر جگہ دستیاب ۔ پتا نہیں یہ نکل کہاں سے آتا ہے۔ ایک بار پھر دل ہی دل میں نازی کے بہنوئی کو کوستے ہوۓ وہ خاموش ہو گیا تھا۔ فائز ، نازی کا اکلوتا بہنوئی تھا اور عائزہ چھوٹی ایک اکیلی بہن ، بہن سے محبت کی حد تک تو سب ٹھیک تھا۔ چلو بہن ہے، وہ بھی چھوٹی مگر نازی کی عقیدت فائز بھائی صاحب سے بھی کچھ کم نہیں تھی۔

فائز بھائی اندر آئیں ناں، بیٹھ جائیں۔ آپ کے لیے چاۓ لاؤں۔ بھی بچو ریموٹ فائز انکل کو دے دو انکل کو تنگ بالکل نہ کرو۔ بری بات رمشہ بند کرو یہ چیخ پکار انکل کیا سوچیں گے یہی ناں کہ رمشہ اور آمنہ گندی بچیاں ہیں۔ یہ وہی ریموٹ تھا جو اکثر نازی اس کے ہاتھ سے چھین کر بچوں کو تھما دیا کرتی تھی۔ بچیاں ہیں یہ چاردن ہیں کھیلنے کودنے کے اور آپ ہیں کہ اس منحوس ریموٹ کی خاطر بچوں کی طرح منہ پھلا کر بیٹھے ہیں ۔خبروں کے لیے اخبار ہے ناں ،آمنہ چندا، فورا پاپا کو اخبار اکٹھا کر کے دو- اخبار کے اوراق کچھ بیڈ کے نیچے اور رنگین صفہ پر محترمہ نازی صاحبہ تشریف فرما ہوتیں۔

اوہ سوری سرمد، یہ بچیاں بھی ناں ہوش بھلا دیتی ہیں۔ ابھی اچھا بھلا بیٹھ کے پڑھ رہی تھی اور اب اوپر چڑھ کر بیٹھی ہوں ۔ یہ لیں ٹھیک کر دیا ہے۔اب ناراض تو نہ ہوں۔ آخر میں منہ پھلا کر ناراض نہ ہونے کی فرمائش بھی ہوئی۔ عینک رکھی کہاں تھی یہ بھی ذرا یاد کر لیں، اوہو یہ لیں ادھر ہی تھی۔ آپ چلیں میں چاۓ لے کر آتی ہوں ۔ سرمد فطرتا محبت کرنے والا انسان تھا اور نازی کے لیے تو یوں بھی اس کے دل میں جگہ ہی جگہ تھی۔ وہ اکثر ایل ای ڈی سے دور ہی رہتا مگر یہ فائز اس کی دفعہ تو اسے خوب غصہ آتا تھا۔ یہ نازی کو بچیوں کے چار دن کیوں بھول جاتے ہیں اس کی دفعہ، با تیں تو وہ بھی فائز سے کر لیتا تھا مگر اندر ہی اندر کڑھتا رہتا تھا۔ نازی کہتی تھی۔ اسے جلن کہتے ہیں سرمد آپ جلا نہ کر یں۔ کیا میں جلتا ہوں۔

اس بدبختی کا آغاز ہوۓ کچھ ہی مہینے ہوۓ تھے سرمد کی شادی بڑی مشکل سے ہوئی تھی نازی سے۔ سوقسم کے بڑے اور مختلف قسم کے چھوٹوں کی مخالفت کے باوجود اس نے جو سوچا تھا کر دکھایا تھا ۔ اس میں نازی کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ تو رشتہ دار سمجھ کے مسکرائی تھی اور وہ امی سے بات کر بیٹھا۔ بس یہیں سے مشکلات کا آغاز ہوا تھا۔ (آگے پڑھنے کے لیے لنک اوپن کریں شکریہ)

Loading