Daily Roshni News

چھوٹاکام۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد۔۔۔(قسط نمبر1)

چھوٹاکام

تحریر۔۔۔اشفاق احمد

(قسط نمبر1)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ چھوٹاکام۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد)رزق کا بندوبست کسی نہ کسی طرح اللہ تعالی کرتا ہے، لیکن میری پسند کے رزق کا بندوبست نہیں کرتا۔ میں چاہتا ہوں کہ میری پسند کے رزق کا انتظام ہونا چاہئے۔ ہم اللہ کے لاڈلے تو ہیں لیکن اتنے بھی نہیں جتنے خود کو سمجھتے ہیں۔

ہمارے باباجی کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی آدمی آپ سے سردیوں میں رضائی مانگے تو اس کے لیے رضائی کا بندوبست ضرور کریں، کیونکہ اسے ضرورت ہو گی۔ لیکن اگر وہ یہ شرط عائد کرے کہ مجھے فلاں قسم کی رضائی دو تو پھر اس کو باہر نکال دو، کیونکہ اس طرح اس کی ضرورت مختلف طرح کی ہو جائےگی۔

وقت کا دباؤ بڑا شدید ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ برداشت کے ساتھ حالات ضرور بدل جائیں گے، بس ذرا سا اندر ہی اندر مسکرانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک راز ہے جو سکولوں، یونیورسٹیو ں اور دیگر اداروں میں نہیں سکھایا جاتا۔ ایسی باتیں تو بس بابوں کے ڈیروں سے ملتی ہیں۔ مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ اشفاق صاحب کوئی بابا بتائیں۔ میں نے ایک صاحب سے کہا کہ آپ کیا کریں گے؟ کہنے لگے، ان سے کوئی کام لیں گے۔ نمبر پوچھیں گے انعامی بانڈز کا۔ میں نے کہا انعامی بانڈز کا نمبر میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔ بتاؤ کس کا چاہئے؟ کہنے لگے، چالیس ہزار کے بانڈ کا۔ میں نے اسے ایک نمبر بتا دیا اور کہا تم کبھی کہیں سے اسے خرید نہیں سکوگے۔ کہاں سے اسے تلاش کرو گے؟ آپ کو انعامی بانڈ کا نمبر آپ کی مرضی کا تو نہیں ملےگا ناں!

آپ بابوں کو بھی بس ایسے ہی سمجھتے ہیں، جیسے میری بہو کو آج کل ایک خانساماں کی ضرورت ہے۔ وہ اپنی ہر ایک سہیلی سے پوچھتی ہے کہ کسی اچھے سے بابے کا تمہیں پتا ہو تو مجھے بتاؤ۔ اسی طرح میرے سارے چاہنے والے مجھ سے کسی اچھے سے بابے کی بابت پوچھتے ہیں کہ جیسے وہ کوئی خانساماں ہو۔ ان بابوں کے پاس کچھ اور طرح کی دولت اور سامان ہوتا ہے، جو میں نے متجسّس ہو کر دیکھا، حالانکہ میں تو ولایت میں تھا اور پروفیسری کرتا تھا۔ میں نے یہاں آکر دیکھا کہ یہ بھی تو ایک علم ہے۔ یا اللہ! یہ کیسا علم ہے، اسے کس طرح سے آگے چلایا جاتا ہے کہ یہ مشکل بہت ہے۔

مثال کے طور پر ان کا (بابوں) حکم ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے کام کرو، بڑے کام نہ کرو۔ چھوٹے کاموں کو مت بھولیں، ان کو ساتھ لے کر چلیں۔ چھوٹے کاموں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، لیکن ہم ان باتوں کو مانتے ہی نہیں کہ بھئی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چھوٹا کام بھی اہمیت کا حامل ہو۔

جب ہم بابا جی کے پاس ڈیرے پر گیے تو انہوں نے ہمیں مٹر چھیلنے پر لگا دیا۔ میں نے تھری پیس سوٹ پہن کر ٹائی لگا رکھی تھی، لیکن مٹر چھیل رہا تھا، حالانکہ میں نے ساری زندگی کبھی مٹر نہیں چھیلے تھے۔ پھر انہوں نے لہسن کو چھیلنے پر لگا دیا اور ہاتھوں سے بو آنا شروع ہو گئی۔ پھر حکم ہوا کہ میتھی کے پتّے اور ڈنٹھل الگ الگ کرو۔ اس مشقّت سے اب تو خواتین بھی گھبراتی ہیں۔ ہماری ایک بیٹی ہے زونیرا، اس کو کوئی چھوٹا سا کام کہہ دیں کہ بھئی یہ خط پہنچا دینا تو کہتی ہے، بابا یہ معمولی سا کام ہے۔ مجھے کوئی بڑا سا کام دیں۔ اتنا بڑا کہ میں آپ کو وہ کر کے دکھاؤں (کوئی شٹل میں جانے جیسا کام شاید) میں نے کہا یہ خط تو پہنچا دیتی! کہنے لگی، یہ تو بابا بس پڑا ہی رہ گیا میرے پاس۔ چھوٹے چھوٹے کاموں سے بابوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سے ہماری زندگی میں ڈسپلن آئے۔

ہمارے دین میں سب سے اہم چیز ڈسپلن ہے۔ میں تین چار برس پہلے کینیڈا گیا تھا، وہاں ایک یوری انڈریو نامی ریڈیو اناؤنسر ہے۔ اب وہ مسلمان ہو گیا ہے۔ اس کی آواز بڑی خوبصورت آواز ہے۔ میں اس وجہ سے کہ وہ اچھا اناؤنسر ہے اور اب مسلمان ہو گیا ہے، اس سے ملنے گیا۔ وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجوہات کے بارے میں بتاتا رہا۔ اس نے مسلمان ہونے کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ سورۂ روم پڑھ کر مسلمان ہوا ہے۔ میں پھر کبھی آپ کو بتاؤں گا کہ اُس کو سورۂ روم میں کیا نظر آیا۔ میں نے کہا کہ اب ہمارے حالات تو بڑے کمزور ہیں۔ اس نے کہا نہیں۔ اسلام کا نام تو جلی حروف میں سامنے دیوار پر بڑابڑا کر کے لکھا ہوا ہے۔ میں نے کہا، نہیں! ہم تو ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر جس طرح سے ہم کو گھیرا جا رہا ہے، اس نے کہا ٹھیک ہے گھیرا جا رہا ہے، لیکن اس صورتِ حال میں سے نکلنے کا بھی ایک انداز ہے۔ ہم نکلیں گے۔ میں نے کہا ہم کیسے نکلیں گے؟ اُس نے کہا کہ جب کوئی پانچ چھ سات سو امریکی مُسلمان ہو جائیں گے اور اسی طرح سے چھ سات سو کینیڈین مسلمان ہو جائیں اور ساڑھے آٹھ نو سو سکینڈے نیوین مسلمان ہو جائیں گے تو پھر ہمارا قافلہ چل پڑےگا، کیونکہ We are Disciplined۔ اسلام ڈسپلن سکھاتا ہے، نعرہ بازی کو نہیں مانتا۔ میں بڑا مایوس، شرمندہ اور تھک سا گیا۔

جب اس نے یہ بتایا کہ دیکھئے ہمارے دین میں اوقات مقرر ہیں۔ وقت سے پہلے اور بعد میں نماز نہیں ہو سکتی۔ اس کی رکعات مقّرر ہیں۔ آپ مغرب کی تین ہی پڑھیں گے۔ آپ چاہیں کہ میں مغرب کی چار رکعتیں پڑھ لوں کہ اس میں اللہ کا بھی فائدہ اور میرا بھی فائدہ، لیکن اس سے بات نہیں بنے گی۔ آپ کو فریم ورک کے اندر ہی رہنا پڑےگا۔ پھر آپ حج کرتے ہیں۔ اس میں کچھ عبادت نہیں کرنی، طے شدہ بات ہے کہ آج آپ عرفات میں ہیں، کل مزدلفہ میں ہیں۔ پرسوں منٰی میں ہیں اور بس حج ختم اور کچھ نہیں کرنا، جگہ بدلنی ہے کہ فلاں وقت سے پہلے وہاں پہنچ جانا ۔ دین میں ہر معاملے میں ڈسپلن سکھایا  گیا ہے۔

ہمارے بابے کہتے ہیں کہ ڈسپلن چھوٹے کاموں سے شروع ہوتا ہے۔ جب آپ معمولی کاموں کو اہمیت نہیں دیتے اور ایک لمبا منصوبہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں، اپنا ذاتی اور انفرادی تو پھر آپ سے اگلا کام چلتا نہیں۔

 کافی عرصہ پہلے میں چین گیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب چین نیا نیا آزاد ہوا تھا۔ان سے ہماری ۔۔۔۔ جاری ہے۔

Loading