چھے چھیکا بتیس
تحریر۔۔۔اشفاق احمد
قسط نمبر1
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ چھے چھیکا بتیس۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد) پروفیسر صاحب چھ ضرب چھ کو چھتیس کے بجائے بتیں سمجھتے تھے اور چھ چھکے چھتیس کہنے کے بجائے چھ چھکے نہیں ہی کہتے تھے۔ انہیں پختہ یقین تھا کہ چھ ضرب چھ چھتیں نہیں ہوتے بلکہ بتیں ہوتے ہیں اور جو لوگ انہیں چھتیں سمجھتے ہیں وہ غلط سمجھتے ہیں اور حماقت کا اظہار کرتے ہیں!…. جب ان پر وفیسر سے چھ چھکے بتیں ہونے کا ثبوت مانگتے تو وہ کہتے ” میں اس کی کوئی وجہ بیان نہیں کر سکتا، عین اس طرح جس طرح ہم سارے ریاضیاتی قاعدوں اور کلیوں کی کوئی وجہ بیان نہیں کر سکتے۔ جب ان کے اس دعوے پر پروفیسروں نے انہیں منطق پر عام سوال حل کرنے کے لیے دیے اور انہوں نے ، ان کے سامنے، بڑی آسانی کے ساتھ سارے سوالوں کے جواب چھ ضرب چھ بنتیں مان کر نکال دیے تو پر و فیسروں کی سٹی گم ہو گئی۔
اب مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ وہ کسی بادشاہ کا عہد حکومت تھا۔ پتا نہیں وہ آمریت کا بادشاہ تھا یا جمہوریت کا بادشاہ تھا یا باد شاہت ہی کا بادشاہ تھا لیکن تھا بہت منہ زور اور مطلق العنان حاکم ۔
اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنی رعایا کو تنگ نہیں کرتا تھا۔ عوام جس طرح چاہیں رہیں،جیسی چاہیں زندگی گزاریں، جن حالوں سے گزریں وہ ان میں دخل نہیں دیتا تھا۔ بس | عوام سے پرے رہ کر ہر حال میں خوش تھا !
ہمارے یہاں اکنا مکس کے ایک پر وفیسر تھے۔ یہ تھے تو ایک مضافاتی کالج کے استاد لیکن ان کی دانش کا شهر و دور دور تک پہنچا ہوا تھا۔ اقتصادیات کا مشکل سے مشکل مسئلہ چنے کی کھیل کی طرح چھیل کر ہتھیلی پر رکھ دیتے تھے اور شک وشبہ کا چھا کا پھونک ماد کر از ادیتے تھے۔
میں نے ایک مرتبہ خودان سے اقتصادیات کے تکلیف دہ اور ٹیڑھے سوال پوچھے تھے اور پر سکون دل اور مفرح دماغ لے کر واپس گھر آیا تھا۔
میں نے ان سے پوچھا تھا کہ جب لوگوں کے پاس بہت پیسہ ہو جاتا ہے اور وہ بے حد امیر ہو جاتے ہیں۔ان کے پاس دولت کی افراط ہو جاتی ہے تو وہ غریب کیوں ہو جاتے ہیں، اس علاقے کو افراط زر کا مارا جو علاقہ کیوں مشتہر کیا جاتا ہے۔
دوسرے ملکوں کے شہریوں کو اس ”افراط زر زدہ علاقے سے دور رہنے کی ہدایت کیوں کی جاتی ہے….؟
میں نے ان سے یہ بھی پوچھا تھا کہ دنیا کے مانے ہوئے سو ماہرین اقتصادیات دنیا کو مہنگائی
سے بچا سکتے ہیں ….؟
کیا قرض لینا ایک چھوت کی بیماری ہے جو عام شہریوں کو اپنی حکومت سے لگ جاتی ہے….؟ اور کیا معیار زندگی بلند ہونے سے انسان میں درندگی کی صفات پھر سے پیدا ہو جاتی ہیں ….؟ اور وہ لوٹ کر پھر پتھر اور دھات کے زمانے کی طرف مراجعت کر جاتا ہے….؟
پروفیسر صاحب نے مجھے سامنے بٹھا کر ایک طویل مگر دلچسپ اور خیال انگیز لیکچر دیا انہوں نے میرے کچے ذہن کی دھونسی ہوئی چھت سے بہت سے جالے دور کر دیے !
پروفیسر صاحب بہت ہی خوش گوار، رحم دل، سادہ مزاج اور ذہین استاد تھے جن کا اپنے ساتھی استادوں اور ہمعصر لیکچرروں سے ایک الگ تعلق تھا۔ وہ ہر مسئلے پر بڑی گہرائی کے ساتھ غور کرنے کے عادی تھے۔
اس غور و فکر نے ان میں ایک عجیب طرح کی شان استغنا پیدا کر دی تھی۔ وہ مشکل سے مشکل حالات سے اسکاؤٹوں کی طرح سیٹی بجاتے ہوئے گزر جاتے تھے۔
پروفیسر ساعتی کے مائیکرو اقتصادیات پر لکھے ہوئے تحقیقی مقالے زیادہ تر غیر ملکی پر چوں میں چھپتے تھے۔ ان کے انگریزی مضامین کا یورپ کی دوسری زبانوں میں ساتھ ہی ترجمہ ہو جاتا تھا۔
ہر سال کم از کم ایک مرتبہ ان کو ملک سے باہر ضرور جاناپڑتا۔ کبھی کسی سیمینار میں شرکت کے لیے، کبھی اپنے لیکچروں کے سلسلے میں اور کبھی کسی ملک کی حکومتی دعوت پر جو اپنے مالی شعبہ اور اقتصادی سیٹ اپ میں تبدیلی کی خواہاں ہوئی تھی اور اقتصادی سمیت
اپنے ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں جب کہیں اور جہاں کہیں کسی اقتصادی ورکشاپ کا قیام ہوتا، اس کے افتتاح کے لیے پروفیسر صاحب کو ضرور رحمت دی جاتی۔
پروفیسر ساعتی میں یوں تو ایک اسکالر کی ساری خوبیاں موجود تھیں۔ وہ اپنے مضمون کے علاوہ دوسرے موضوعات پر بھی حاوی تھے۔
اپنے ساتھیوں کی بڑے کھلے دل سے راہنمائی کرتے تھے ان کے ساتھی ان کو نوبیل لارکیٹ کا درجہ دیتے تھے۔
اس سارے حجر علمی اور دانش بر ہانی کے باوجود ان میں سے ایک ایسی چھوٹی سی کمی تھی جس نے ان کے سارے ہمعصر استادوں، تمام ملنے والوں اور گھر کے ہر شخص کو الجھن میں مبتلا کر رکھا تھا بلکہ اگر الجھن کے بجائے انہیں شرمندگی میں مبتلا کر رکھا تھا کہیں گے تو زیادہ مناسب ہو گا۔
پروفیسر صاحب چھ ضرب چھ کو چھتیں کے بجائے نہیں رکھتے تھے وہ چھ چھکے چھشتین کہنے کے بجائے چھ چھکے بتیس ہی کہتے تھے۔
انہیں پختہ یقین تھا کہ چھ ضرب چھ چھتیں نہیں ہوتے بلکہ بہتیں ہوتے ہیں اور جو لوگ انہیں چھتیں سمجھتے ہیں وہ غلط سمجھتے ہیں۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون2025