چھے چھیکا بتیس
تحریر۔۔۔اشفاق احمد
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ چھے چھیکا بتیس۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد) اس مسئلے پر کئی مرتبہ ان کی ریاضیات کے پروفیسروں سے بحث بھی ہوئی، فنر کس کے استادوں کے ساتھ جھگڑا بھی ہوا۔
شماریات والوں نے بھی احتجاج کیا اور کمپیوٹر سائنس دانوں نے بھی مختلف کمپیوٹروں پر انہیں بار بار ملٹی پلائی کر کے دکھایا لیکن ان کی تسلی نہ ہوئی۔ تسلی ہونا تو ایک طرف، انہوں نے اس ایکویشن کو تسلیم ہی نہیں کیا۔
جب ان کے مد مخالف گروہ نے پروفیسر ساعتی سے چھ چھکے بتیس ہونے کا ثبوت مانگا تو انہوں نے کہا میں اس کی کوئی وجہ بیان نہیں کر سکتا، عین اس طرح جس طرح ہم سارے ریاضیاتی قاعدوں اور کلیوں کی کوئی وجہ بیان نہیں کر سکتے۔ لیکن میں اپنے اس پہاڑے کے زور پر سارے سوالوں کے صحیح جواب نکال سکتا ہوں اور آپ کی تشفی کر سکتا ہوں۔“ ان کے اس جواب دعوے پر پہلے تو ان کے ساتھ پروفیسروں نے انہیں عام سوال حل کرنے کے لیے دیے جب انہوں نے ان کے سامنے ، بڑی آسانی کے ساتھ سارے سوالوں کے جواب چھ ضرب چھ بتیس مان کر نکال دیے تو پر و فیسروں کی سٹی گم ہو گئی۔ پھر ان لوگوں نے پر وفیسر ساعتی کو کچھ مشکل اور پیچیدہ سوال دیے اور جب انہوں نے وہ بھی اپنے حساب سے حل کر کے دکھا دیے تو پھر انہیں فکر پڑی اور یہ معاملہ فزکس کے پروفیسروں تک پہنچا دیا گیا۔ فزکس کے پروفیسروں نے کشش، رفتار، روشنی اور ولاسٹی کے سوال لے کر کہا
” ساعتی صاحب زرا دھیان رکھنا، ذراسی بھی غلطی ہو گئی تو شنل نے زمین پر گر جاتا ہے اور ہزاروں جانوں کا نقصان ہو جاتا ہے۔“
پروفیسر ساعتی نے مسکرا کر کہا ” کوئی بات نہیں جی اللہ فضل کرے گا۔ اللہ مہربانی کرے گا۔ “ پھر انہوں نے چھ ضرب چھ کو بتیس مان کر حرکیات کے ایک پیچیدہ مسئلے کو جو حل کرناشروع کیا تو پندرہ ہیں منٹ میں مفروضے کے ریوڑ کے گرد گڈریے کی طرح چکر لگا کر رکے اور کھٹ سے اس کا جواب نکال رک سامنے رکھ دیا۔
پروفیسر شفیق نے کہا “سر! یہ جو بتیس میں چار کی کمی رہ جاتی ہے وہ آپ کس طرح سے پوری کرتے ہیں …. ؟
پروفیسر ساعتی نے خوش ہو کر شفیق صاحب کی پیٹھ ٹھو کی اور کہا ” مقام شکر ہے کہ کسی نے پوچھا تو ہے ورنہ ابھی تک تو سارے میرے ساتھ لڑتے ہی رہے ہیں۔ “
پھر انہوں نے فزکس کے پروفیسر اور شماریات کے پروفیسر جواد کو ساتھ بٹھا کر اپنا فارمولا سمجھانا شروع کر دیا۔
پروفیسر صاحب اپنی ساری بین الا قوامی شہرت کے باوصف پچھلے اٹھارہ برس سے لیکچرر ہی چلے آرہے تھے اور یہ ساری مدت انہوں نے بہاول نگر کے کالج میں ہی گزار دی تھی۔ جب کبھی پبلک سروس کمیشن کے انٹر ویو کا زمانہ آتا اور لیکچرروں کے اسٹنٹ پروفیسر بننے کے چانس قریب آتے تو پر وفیسر ساعتی بھی اعلیٰ درجے کا سوٹ زیب تن کیے، غیر ملکی رسالوں میں اپنے چھے مقالوں کا پلندہ اٹھائے اور غیر ملکی حکومتوں کے شکریے کے مخطوں کے فائل بغل میں دبائے انٹرویو کے لیے پہنچ جاتے۔
پروفیسر صاحب کے حاسد اور بد خواہ ہمعصر استاد انٹرویو کے ہر ممبر کو ایک چھوٹی سی چٹ لکھ کر اندر بھجوا دیتے کہ پروفیسر ساعتی سے انٹرویو کے دوران یہ ضرور پوچھیے گا کہ چھ چھکے کتنے ہوتے ہیں، اس سے آپ کو ان کی دماغی حالت کا خودان کی زبانی پتا چل جائے گا۔
پروفیسر صاحب انٹر ویو دے کر ہمیشہ خوش خوش باہر نکلنے اور گھر والوں کو جا کر کامیابی کا مشردہ سناتے لیکن نتیجہ نکلنے پر وہ لیکچرر رہ جاتے۔ انٹرویو کے آخر میں ان سے ہر بار ” اچھے چھکے۔ پوچھا جاتا اور وہ ہر مرتبہ بنتیں بنا کر گھر واپس آجاتے۔
ایک مرتبہ جب پروفیسر ساعتی سوڈان میں اسلامک اکنامکس پر چھ لیکچر دے کر واپس لوٹے تو انہوں نے محسوس کیا کہ وہ ایک دم سے ایک باعزت اور قابل توجہ شخصیت بن گئے ہیں اور ان کی نگرانی ہونے لگی ہے۔
کالج میں، کلاس کے اندر، گھر سے باہر، کھلے میدان میں جہاں کہیں وہ جاتے، ایک سایہ سا اپنے قرب وجوار میں محسوس کرتے ، وہ تو اس سائے کو اپنی عزت افزائی پر محمول کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ بڑے آدمیوں کے سائے بھی لیے مستقیم کا قطر ہوتے ہیں لیکن اصل یہ بات نہیں تھی۔ وہ لمبا سا یہ ان کا اپنا نہیں تھا بلکہ لیے ہاتھوں والے کا سایہ تھا۔ انہی دنوں ہمارے بادشاہ کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے غیر ملکی سفیروں کے لیے روپے کی شدید ضرورت آپڑی تھی۔ وہ لگان لگا کر اور ڈنڈ بھوا کر اپنی رعایا سے اتنی رقم نکلوا سکتا تھا لیکن اس عمل سے اس کی رعایا کے ختم ہو جانے کا اندیشہ تھا اور چونکہ اس کی آمدنی کا واحد ذریعہ اس کے عوام تھے اس لیےبادشاہ نے اب کی مرتبہ قرض لینے کی ٹھانی۔
اس نے ادھر ادھر قاصد دوڑائے اور قرض دینے والوں نے اس کی طرف گماشتے بھگائے اور جب یہ دونوں بھاگ بھاگ کر ہانکنے لگے تو انہوں نے مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ بادشاہ سلامت کو ورلڈ بنک سے قرض لے دیتے ہیں۔
ایک تو یہ قرضہ بادشاہ سلامت کی ضرورت سے دو گنا ہو گا کہ ورلڈ بنک ایک خاص تعداد سے کم قرض جاری رکنے سے معذور ہے، دوسرے اس قرض پر سود بہت کم ہو گا جو ہر سال اضافے کے لیے بادشاہ سلامت سے منظوری لے کر اصل زر میں داخل کیا
جاتا ر ہے گا۔
بادشاہ سلامت کو یہ تجویز بہت پسند آئی اور انہوں نے قرضہ جاری کرنے کی درخواست دے دی۔ تین دن کے اندر ان کی درخواست منظور ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی قرضہ جاری کرنے کے احکامات صادر کر دیے گئے۔ لیکن ….! قرضے کی رقم پہنچنے کے بجائے بادشاہ سلامت کے پاس ورلڈ بنک کے تین سفارتی نمائندے پہنچ گئے جن کا تعلق امریکا، انگلستان اور بلجیم سے تھا۔ انہوں نے بڑے ادب کے ساتھ جھک کر بادشاہ سلامت کو سلام کیا اور اپنے کاغذات ان کی خدمت میں پیش کر دیے۔
وزیر خزانہ نے بادشاہ کے حکم سے اس محضر نامے کو بھرے دربار میں سنانا شروع کر دیا۔ لکھا تھا کہ ورلڈ بنک بادشاہ سلامت کی ضرورت ۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون2025