چھے چھیکا بتیس
تحریر۔۔۔اشفاق احمد
قسط نمبر3
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ چھے چھیکا بتیس۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد) اور خواہش کے مطابق ان کے قرضے کی رقم بھجوا رہا ہے اور کرنسی کا انتخاب انہی پر چھوڑتا ہے کہ جس ملک کی کرنسی میں چاہیں رقم لے لیں اور جس لمحہ چاہیں یہ رقم اپنے تصرف میں لے آئیں لیکن اس کے لیے انہیں ایک اہم شرط کی تکمیل کرنی پڑے گی اور وہ یہ
ہے کہ اس قرضے کی پوری رقم، اصل مع سود، ادا ہونے تک پروفیسر ساعتی کو قید کر کے کڑے پہرے میں رکھا جائے گا۔ کسی کو ان سے ملنے نہیں دیا جائے گا۔ اس شرط پر وزیر خزانہ رک گیا تو بادشاہ سلامت نے حیرت سے پوچھا ” یہ پروفیسر ساعتی کون ہے….؟
وزیر خزانہ نے سر جھکا کر کہا ایک ٹیچر ہے سر، بہاول نگر کالج میں اکنامکس پڑھاتا ہے اور اٹھارہ سال کی سروس کے بعد ابھی تک پھر رہی ہے۔“ کیوں لیکچرر کیوں ہے. ۲۰۰۰۰ پادشاہ سلامت نے پوچھا۔
وزیر خزانہ نے مسکرا کر اور کھسیانی جنسی ہنس کر کہا ووزرا مخبوط الحواس سا شخص ہے عالم پناہ اور اس کے ذہن میں ایک ٹیڑھ پیدا ہو گئی ہے۔“
ٹیڑھ پیدا ہو گئی ہے!“ بادشاہ سلامت نے حیرانی سے پو چھا۔
جی سر ! فنانس منسٹر نے سر جھکا کر کہا ” وہ چھ چھیک چھتیس کے بجائے چھ چھیک بتیں بناتا ہے اور چھ ضرب چھ کا حاصل ضرب بتیں ہی سمجھتا ہے۔“ اور وہ اب تک کالج میں پڑھا رہا ہے۔“ بادشاہ نے غصے سے پوچھا۔
جی سر“ وزیر خزانہ نے ذرا سارک کر کہا “ہم نے وزیر تعلیم سے بات کی تھی اور یہ سقم ان کے نوٹس میں لائے تھے لیکن انہوں نے کمیٹی رپورٹ کے بعد اور پھر خود انٹرویو کر کے یہ فیصلہ دیا کہ پروفیسر مذکورہ کے ذہن میں سوائے اس معمولی سی انکن کے اور کوئی خرابی نہیں۔ وہ بہت پڑھے لکھے اور عالمی شہرت کے ماہر اقتصادیات ہیں۔ اس لیے انہیں
رہنے دیا جائے۔“
یہ بہت بڑی خرابی ہے یو کر میجسٹی بنک کے بلین نمائندے نے کیا یہ معمولی الکن نہیں ہے جیسا کہ وزیر خزانہ سمجھ رہے ہیں۔ یہ ایک سنجیدہ اور مخطر ناک عارضہ ہے۔“
جو آگے بڑھ کر ایک وبا کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔“ بنک کے انگلستانی نمائندے نے بات کاٹ کر کہا۔
وزیر خزانہ نے وضاحت کرنے کے لیے ہاتھ اوپر اٹھایا تو بنک کے انگلستانی نمائندے نے مسکرا کر کہا: “پروفیسر صاحب کی یہ خرابی ہے وزیر خزانہ صاحب معمولی الکن کہہ رہے ہیں۔ ہمارے آپ کے تعلقات کی سب سے بڑی اڑچن بن سکتی ہے۔ “ ار چن بن سکتی ہے!“ بادشاہ نے نگاہیں اوپر اٹھا کر اونچی آواز میں دہرایا۔
نہیں حضور “ وزیر خزانہ نے ڈرتے ہوئے کہا یہ ان کا وہم ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں۔“
جنگ کے امریکی نمائندے نے نفی میں سر ہلایا گویا کہہ رہا ہو کہ وزیر خزانہ صاحب کی یہ بات کم علمی پر مبنی ہے۔
انگلستان کے نمائندے نے کہا “یور رائل میجسٹی کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ عام سوچ سے الگ ہو کر سوچنے والا آدمی مملکت کے لیے اور حکومت کے لیے کس قدر خطر ناک ہوا کرتا ہے۔ اس کی مختلف قسم کی سوچ کی ذراسی چنگاری ساری بادشاہت کو جلا کر بھسم کر سکتی ہے۔ اس لیے ہم پر وفیسر ساعتی کے اس معمولی سے فتور ذ ہنی سے کافی متفکر ہیں۔“
پہلے تو اکیلے بادشاہ سلامت ہی اس احمقانہ دلیل پر حیرت زدہ بیٹھے تھے۔ اب ان کے ساتھ وزیر خزانہ بھی شامل ہو گئے۔ انہوں نے حیران ہو کر کہا” میں عالمی شہرت رکھنے والے اتنے بڑے بنگ کے ایسے ذہین بنکاروں کی دلیل سن کر سخت متحیر ہوا ہوں۔ میرے نزدیک یہ خوف بالکل بے بنیاد ہے اور ایسا محال بہت ہی ابتدائی اور غیر مہذب دور سے
تعلق رکھتا ہے۔“
وزیر خزانہ کی یہ بات سن کر بنک کے امریکن نمائندے نے کہا وزیر خزانہ صاحب ! ہماری سوچ اور ہمارا تصور قدیم دور سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ آپ کا انداز و اس غیر مہذب عہد کی عکاسی کر رہا ہے جب لوگ بلا سوچے سمجھے ڈھور ڈنگروں کی سی زندگی بسر کرتے تھے۔ پروفیسر ساعتی کا طے شدہ قاعدے سے انحراف مخطرے کی ایک گھنٹی ہے۔ یہ صرف ان کی ذہنی کج روی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے پورا ایک ستم کام کر رہا ہے جس سے آپ سب بے خبر ہیں۔“
وزیر خزانہ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنے علم کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ زیادہ سے زیادہ پروفیسر صاحب کو ایک اونٹ قرار دے سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ہماری زبان میں ایسے لوگوں کو سائیں“ کہتے ہیں۔
بنک کے امریکی نمائندے نے کہا “یور میجسٹی !
آج تک دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے ہیں اور جس قدر اتھل پتھل ہوئی ہے، وہ سب ایسے لوگوں کی بدولت ہوئی ہے۔ بظاہر پر وفیسر صاحب کا انحراف کہ چھ چھکے نہیں ہوتے ہیں، ایک معمولی سی ذہنی گمراہی نظر آتی ہے مگر یہ کینسر کے ایک خلیے کی طرح سارے جسم میں پھیل سکتا ہے اور اس کی کئی شاخیں پھوٹ کر دور دور تک پھیل سکتی ہیں۔
ہم ایسی کج رویوں سے اور اس قسم کے ذہنی فتور سے بہت ڈرتے ہیں کہ ہمارے کندھوں پر امن عالم بر قرار رکھنے کی ذمہ داری ہے۔
ہم نے انسانیت کے سمندر میں سمود سیلنگ کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور ہم ہر کام میں طے شدہ اقدار کے حامل ہیں۔“
ان ساری باتوں کا پروفیسر ساعتی کی ذہنی سمج روی سے کیا تعلق ….؟“ وزیر خزانہ نے قدرے غصے سے پو چھا۔
گہرا تعلق بلکہ بہت ہی گہرا تعلق بنک کے اس نمائندے نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا ہمارے عظیم الشان اور پر وقار عالمی ادارے کی کار کردگی کو ایسے لوگوں سے شاید نقصان
پہنچ سکتا ہے۔“
وہ کیسے….؟ بادشاہ سلامت نے بڑے سجھاؤ سے پوچھا وہ کس طرح ….؟
وہ ایسے سر“ بھین نمائندے نے گلا صاف کر کے کہا کہ ” پروفیسر ساعتی جیسا شخص جو دنیا کے طے شدہ قاعدے سے ایک مقام پر انحراف کرتا ہے، وہ کسی اور طے شدہ اور مستقل قاعدے سے اس سے بھی بڑھ کر انحراف کر سکتا ہے۔“
مثلا….؟ وزیر خزانہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ “کس طرح ؟
وہ اس طرح یور میجسٹی ! بنک کے امریکی نمائندے نے کہا کہ طے شدہ اور معروف عام با قاعدے کا منحرف ایک روز یہ اعلان بھی کر سکتا ہے کہ بلا سود بھی بنکاری ہو سکتی ہے۔ اور بلا سود بھی تجارت کا چلنا اسی طرح سے قائم رہ سکتا ہے، یا صنعت و حرفت یا تانا باناسودی کاروبار کے علاوہ بھی اس دنیا میں چل سکتا ہے اور سود کے بغیر بھی یہ دنیا قائم رہ سکتی ہے بلکہ بہتر طور پر قائم رہ سکتی ہے۔ خوشیوں اور مسکراہٹوں کی لپیٹ میں ، آسانیوں اور کامرانیوں کے گہوارے میں !
بادشاہ سوچ میں پڑ گیا تو وزیر خزانہ نے کہا جنٹلمین! پھر تو یہ ایک اچھی بات ہوگی کہ “لیکن اس کی بات کو انگلستانی نمائندے کی گرج دار اور گستاخ “No“ نے بیچ ہی میں کاٹ دیا۔
وہ ایک تھکے ہوئے خوب صورت کرے کی طرح پانچتے ہوئے بولا ”ایسی خوفناک بات مثال کے طور پر بھی نہیں کرنی چاہیے۔ اس سے سارے نظام کے درہم برہم ہونے کا اندیشہ ہے۔“
امریکی نے معذرت کرتے ہوئے کہا “میرا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ …. کہ گاڈ فاربد…. کبھی ایسا ہو گا یا ہو سکے گا، میں نے تو صرف سمجھانے کے لیے ہز میجسٹی کو ایک مثال دی تھی۔“
بادشاہ نے سنجیدہ چہرہ بنا کر اور اس سارے مکالمے سے متاثر ہو کر وزیر خزانہ سے کہا ” میں سمجھتا ہوں کہ بنک کے ان فاضل نمائندوں کے دلائل بڑے وزنی ہیں اور ہمیں انہیں ذہن میں رکھنا چاہیے۔“
خاص طور پر ایسے وقت میں جب آپ کو روپے کی اشد ضرورت ہو“ جبین نمائندے نے کہا اور ورلڈ بنک آپ کو رعائتی نرخوں پر قرض فراہم کر رہا ہو۔ “
انگلستانی نمائندے نے کہا ” پھر کیا خیال ہے؟ ہم تو آپ کے لیے پے منٹ لے کر آئے تھے اور ہر طرح کی کرنسی میں نے کر آئے تھے۔“ آپ چاہے ڈالر لے لیں امریکی نمائندے نے کہا ” چاہے پاؤنڈ لے لیں، چاہے بین یاڈ وش مارک لے لیں۔ ہمارے پاس ہر طرح کا سودا موجود ہے۔“ بلجین نمائندے نے کہا “بہتر تو یہی ہے تو یور میجسٹی کہ آپ ملا کر ساری کرنسیاں لے لیں۔ آپ کے کام آئیں گی۔
چونکہ اس وقت ایک مطلق العنان بادشاہ یہاں حکمران تھا اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا اس لیے بادشاہ نے حکم دیا کہ ہمارے مہمانان گرامی غیر ملکی نمائندے جو قرضے کی بو جھل رقم اٹھا کر یہاں تشریف لائے ہیں، اگر مناسب سمجھیں تو ہماری رعایا کے ایک فرد، عام سوچ کے منحرف پروفیسر کو خود گرفتار کر کے اسے ہماری سلطنت کے کسی بھی پسندید و قید خانے میں ڈال کر اپنا تالا لگا دیں اور چابی اپنے ساتھ لے جائیں۔“ بنک کے نمائندوں نے سر جھکا کر اور یک زبان ہو کر کیا دیور میجسٹی ! آپ بے شک اپنا تالا چابی لگائیں، ہمیں آپ پر پورا اعتماد ہے، ہم نے چابی ساتھ لے جا کر کیا کرتی ہے !