Daily Roshni News

ڈیٹنگ کلچر۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ڈیٹنگ کلچر

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ڈیٹنگ کلچر۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )چند ماہ قبل پاکستان میں ایک میچ میکنگ سائٹ کا آغاز ہوا تھا جس نے غیر شادی شدہ لوگوں کی ملاقات کے لیے ایونٹ منعقد کیا تاکہ وہ اپنے لیے مناسب رشتہ تلاش کر سکیں۔

فنکار ایمان صدیقی اور فلم ساز شہزاد ملک نے نصروانجی پارک میں شہر کا پہلا “پرفارمیٹو میل مقابلہ” منعقد کیا۔ جہاں نوجوان مردوں نے مختلف حلیے اور طریقے اپنا کر لڑکیوں کو پھنسانے کی کوشش کی۔

ڈرامے اور فلمیں ہمیشہ یہی دکھاتے ہیں کہ اسکول سے لے کریونیورسٹی تک اور آفس کے کولیگ سے باس تک ہر لڑکی کسی بوائے فرینڈ یا مناسب رشتے کی تلاش میں ہوتی ہے اور گرل / بوائے فرینڈ کلچر کو نارملائز کرتے ہیں۔یوں میڈیا نے بے حیائی اور بدتہذیبی کو فروغ دیا ہے۔

    نجی ٹی وی چینلز ریٹنگز کے چکر میں کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔خصوصا یو ٹیوبرز کے چینلز پیسے کی خاطر کوئی بھی حد پار کر سکتے ہیں۔ایک نجی ٹی وی چینل کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ ترکی کے عاشق آڈےسائی اور امریکن لو آئی لینڈ کی طرز پر ایک پروگرام پیش کیا جائے گا۔ جس میں آٹھ پاکستانی غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکیاں ترکیہ کے ایک ہی گھر میں کئی ماہ تک رہیں گے۔ایک دوسرے سے تعلقات استوار کریں گےاور آخر میں جیتنے والا جوڑاانعام پائے گا۔

بظاہر یہ تفریحی پروگرام ہے لیکن حقیقت میں یہ اسلامی معاشرے کی بنیادوں کو ہلا دینے کی ایک خطرناک کوشش ہے۔ہمارا دین اور معاشرہ مرد اور عورت کے تعلقات کی حدود بتاتا ہے۔اور نکاح کے بغیر کسی بھی قسم کے تعلقات کو معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔کیونکہ یہ نہ صرف خاندانی نظام کے بگاڑ بلکہ فحاشی کا باعث بھی بنتا ہے۔قرآن ہمیں ایسے کاموں کے قریب جانے سے بھی منع کرتا ہے جو زنا کی طرف مائل کریں۔کجا کہ ہم ایسے پروگرامز بنائیں اور دیکھیں جہاں غیر شادی شدہ لڑکے لڑکیاں ایک ہی چھت تلے رہیں، کھلم کھلا ڈیٹنگ کریں اور اپنی ذاتی زندگی کو تفریح کے نام پر ساری دنیا کے سامنےپیش کریں۔

   ڈیٹنگ کلچر مغرب میں ایک عام چیز ہے۔جہاں مرد اور عورت شادی کے بغیر بھی ساتھ رہتے ہیں بچے پیدا کرتے ہیں۔کسی دور میں ایسا کرنا ان کے ہاں بھی برائی تصور کیا جاتا تھا پھر میڈیا نے اسے نارملائز کیا اور آج یہ روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔لیکن اس کے نتیجے میں خاندانی نظام تباہی کا شکار ہوا، طلاق کی شرح آسمان کو چھونے لگی، ناجائز تعلقات اور غیر شادی شدہ بچوں کی پیدائش ، سنگل مدرز عام ہوگئیں ۔جب نوجوان نسل یہ سمجھنے لگے گی کہ شادی کے بغیر کورٹ شپ درست ہے تو شادی کا تصور اپنی اہمیت کھو بیٹھے گا۔ناجائز تعلقات عام ہوں گے اور خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔

    مغرب کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی عریانی اور فحاشی کو ماڈرنیٹی کا نام دے کر عام کر لیا گیا ہے۔آج ایلیٹ کلاس کے والدین کے لیے اپنے بچوں کے بوائے/ گرل فرینڈ فخر کی بات ہیں۔اور اگر ان کے بچے کا کوئی ایسا دوست نہ ہو تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں۔ایسے میں اگر ٹی وی چینیلز ‘عشق لازوال’ جیسے پروگرامز پیش کرنے لگے تو ہر طبقے کے نوجوان سمجھیں گے کہ ڈیٹنگ، نا محرم کے ساتھ تعلقات جائز کام ہیں۔

    اس پروگرام کی پروموشن کے لئے جو کلپس بنائے گئے ہیں ان میں ہوسٹ کا لباس ایسا ہے جو کسی غیر مسلم مغربی خاتون کو تو زیب دیتا ہے لیکن ایک پاکستانی مسلمان خاتون کے لیے نہایت غیر مناسب ہے۔نجانے مغرب کی تقلید میں ہم دن بدن غاروں کے دور کی طرف کیوں لوٹتے جا رہے ہیں۔لمبے ناخن، بکھرے بال، نیم برہنہ لباس اس دور کی باقیات ہیں جب انسان کے پاس نہ ٹیکنالوجی تھی نہ علم۔آج کے جدید دور میں ایسا حلیہ جدت پسندی نہیں نری جہالت ہے۔

    اگراس پروگرام کے پروڈیوسر اسے تفریح کہہ کر اس کی سنگینی کو کم کرنے چاہ رہے ہیں تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہمارا مذہب اور معاشرہ تفریح کی بھی کچھ حدود مقررکر چکا ہے۔تفریح وہی درست ہے جوحرام ، فحاشی اور رب کی نافرمانی پر مبنی نہ ہو۔تفریح کے نام پر بے حیائی پھیلانا واضح گمراہی ہے۔اس کلچر کی وجہ سے آج نہ صرف مغرب بلکہ ہمارے ہاں بھی ایڈز، سروائیکل کینسر، ایس ٹی ڈیز عام ہیں۔

   میڈیا صرف تفریح کا ذریعہ نہیں۔کیونکہ یہ لوگوں کی ذہن سازی کا ایک آلہ بھی ہے اور معاشرے آئینہ بھی۔اس کا کام صرف خبر پہنچانا نہیں بلکہ لوگوں کی اصلاح اور تعلیم و تربیت بھی ہے۔خصوصا ہمارے ملک میں میڈیا والوں پر دوہری ذمے داری ہے کہ وہ نہ صرف تفریح مہیا کریں بلکہ اسلامی اقدار کی حفاظت بھی کریں۔مگرافسوس ریٹنگز اور پیسے کی ہوس میں سب بھلائے ہم بس اندھا دھند مغرب کے نقش قدم پر چلتے جا رے ہیں۔کچھ قصور ہم عوام کا بھی ہے جو بامقصد تفریح کی بجائے فحاشی کو پسند کرتی ہے۔

     کسی ایسے یو ٹیوبر، ولاگر  یا ٹی وی پروگرام کی ویوورشپ کبھی بھی اتنی زیادہ نہیں ہوتی جس میں کوئی اچھی بات پیش کی جائے جب کہ کسی کا اسکینڈل ہو یا فحش ویڈیو سیکنڈز میں وائرل ہو جاتی ہے۔یا تو میڈیا اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا ہے یا ہمارا معیار ہی اس قدر گر چکا ہے کہ ہم کسی مہذب کانٹینٹ کو دیکھ ہی نہیں پاتے اور صرف بے حیائی ہی ہمیں اٹریکٹ کرتی ہے۔وجہ کچھ بھی ہو اگر ہم اپنی آنے والی نسل کو محفوظ اور پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کی ذہن سازی کے ساتھ ساتھ کردار سازی پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ورنہ عشق لازوال جیسے پروگرام صرف ریپسٹس اور مجرم ہی پیدا کریں گے صلاح الدین ایوبی اور خالد بن ولید نہیں۔

    اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا ماحول فراہم کرے۔ اگر ریاست ایسے پروگرامز کو روکنے میں ناکام رہی تو یہ اس کی آئینی و دینی ذمہ داری سے غفلت ہوگی۔ پیمرا اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ ایسے پروگرامز پر فوری پابندی عائد کریں اور ٹی وی چینلز کو واضح ہدایات دیں کہ تفریح کے نام پر فحاشی کو فروغ نہ دیا جائے۔

اگر ترکیہ کے ارطغرل، صلاح الدین ایوبی جیسے ڈرامے لوگوں میں مقبول ہو سکتے ہیں۔ایران کی انبیاء اورصحابہ کرام کی زندگیوں پربنائی فلمیں مقبول ہو سکتی ہیں تو پھر عشق لازوال جیسے پروگرامز بنانے کی کیا ضرورت ہے؟اس لیے ایسے پروگرامز کے خلاف آواز اٹھائیےاس سے پہلے کہ یہ آگ ہمارے گھر تک پہنچے اور اسے جلا کر خاکستر کر دے اسے بجھانے میں اپنا حصہ ڈالیے۔

Loading