Daily Roshni News

ڈیکمپوزیشن کیوں نہیں ہوتی ؟؟؟

ڈیکمپوزیشن کیوں نہیں ہوتی ؟؟؟

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سوال: اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلاں شخص کے فوت ہونے کے کافی عرصہ بعد کسی وجہ سے قبر کشائی کی گئی تو ڈیڈ باڈی اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی تروتازہ پائی گئی. ڈیکمپوزیشن کیوں نہیں ہوتی ؟؟؟

انسانی جسم کی ڈیڈ باڈی کے تروتازہ رہنے کے عمل کو سمجھنے کے لیے سائنسی نقطہ نظر سے بات کرنا ضروری ہے۔ عام حالات میں، جب کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو اس کے جسم کے اندرونی اور بیرونی حصے بیکٹیریا کے حملے کی زد میں آجاتے ہیں، جو ڈیڈ باڈی کے ٹشوز کو گلانے اور سڑانے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا عام طور پر جسم کے اندر موجود ہوتے ہیں اور اپنی بقا کے لیے آکسیجن اور نمی پر منحصر ہوتے ہیں۔ اگر آکسیجن اور نمی موجود ہوں تو بیکٹیریا تیزی سے کام کرتے ہیں اور لاش کو تیزی سے تحلیل کر دیتے ہیں، جسے decomposition یا putrefaction کہتے ہیں۔

مگر بعض حالات میں، بیکٹیریا کی یہ سرگرمی محدود یا مکمل طور پر رک جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ڈیڈ باڈی محفوظ رہتی ہے۔ مثلاً اگر لاش کو ایسی جگہ دفن کیا جائے جہاں آکسیجن کی کمی ہو یا نمی کا فقدان ہو، جیسے کہ ریگستانی علاقے یا سخت برفانی ماحول، تو لاش کی decomposition کا عمل بہت سست یا رک جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، شدید سردی میں بیکٹیریا کے فعال ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں، اور لاش طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہے۔ برفانی علاقوں میں، جیسے کہ Otzi the Iceman کی مثال، جس کی لاش 1991 میں اٹلی کی سرحد کے قریب برفانی پہاڑوں میں ملی تھی، جو تقریباً 3300 قبل مسیح کی تھی، برف کے نیچے دفن ہونے کی وجہ سے پانچ ہزار سال تک تقریباً محفوظ رہی۔

قدیم مصر میں mummification کے عمل میں فرعونوں کی لاشوں کو حنوط کرنے کے لیے کیمیائی مرکبات استعمال کیے جاتے تھے۔ ان مرکبات میں ایسے مادے شامل ہوتے تھے جو بیکٹیریا کی افزائش کو روک دیتے تھے، اور اس کے نتیجے میں لاش کی ڈی کمپوزیشن نہیں ہوتی تھی۔ اگر کسی مخصوص علاقے میں ایسے قدرتی کیمیائی مرکبات موجود ہوں جہاں کسی شخص کی لاش دفن کی جائے، تو وہاں کی مٹی اور ماحول کی وجہ سے بھی لاش کی حالت بہتر رہ سکتی ہے۔

علاوہ ازیں، لاش کے تروتازہ رہنے میں ایک اور اہم فیکٹر بھی شامل ہو سکتا ہے، جسے anaerobic environment کہا جاتا ہے۔ اس ماحول میں آکسیجن کی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بیکٹیریا کو زندہ رہنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اگر لاش کو ایسی جگہ دفنایا جائے یا کسی ایسے محفظ میں رکھا جائے جہاں آکسیجن کی بجائے نائٹروجن یا کوئی اور گیس ہو، تو بیکٹیریا کی افزائش رک جاتی ہے، اور لاش طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق، decomposition کے عمل کو سمجھنے میں کئی مختلف عوامل شامل ہوتے ہیں، جیسے کہ درجہ حرارت، نمی، آکسیجن کی موجودگی، مٹی کی ساخت، اور ماحول میں موجود کیمیائی مادے۔ یہ تمام عوامل مل کر طے کرتے ہیں کہ کسی لاش کی حالت کتنے عرصے تک محفوظ رہے گی یا کتنی جلدی تحلیل ہوگی۔ اس طرح کے تمام عوامل کو ملا کر ہم ایک پیچیدہ نظام کے تحت لاش کے محفوظ رہنے یا سڑنے کے عمل کو سمجھ سکتے ہیں۔اب سوال یہ کہ اگر ایسا کیس دیکھنے کو ملتا ہے جہاں ایک قبر میں لاش سالوں سے محفوظ ہے جبکہ دوسری قبروں میں لاشیں خراب ہو چکی ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کا جواب سر قدیر قریشی نے کچھ یوں دیا ہے۔

“اس قسم کے سوالات پر لوگ بہت زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں اس لیے ایسے سوالات پر سنجیدگی سے بحث ممکن نہیں ہوتی- لیکن آپ اس پہلو سے سوچیے- کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ جنگل میں ایک جگہ ایک ہی نسل کے کئی پودے ہوں جن میں سے زیادہ تر سوکھے ہوں لیکن کچھ ہرے بھرے ہوں؟ یقیناً ایسا ہم اکثر دیکھتے ہیں- اب سوچیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اگرچہ ان کا ماحول تو بظاہر ایک جیسا نظر آتا ہے؟ اس لیے کہ ان کا ماحول بالکل ایک سا نہیں ہوتا- کسی پودے کی جڑیں قدرے سخت زمین میں ہوتی ہیں، کسی کی قدرے نرم زمین میں- ایک ہی علاقے میں چند میٹر کے فاصلے پر ہی مٹی میں مختلف کیمیکلز کی مقدار مختلف ہو سکتی ہے- کسی جگہ ایسے کیمیکل ہو سکتے ہیں جو پودوں کے لیے مفید ہیں، چند ہی سینٹی میٹر دور کچھ ایسے کیمیکل ہو سکتے ہیں جو پودوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوں- قبروں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے

اگر کہیں ایسا کیس دیکھنے کو ملتا ہے جہاں ایک قبر میں لاش سالوں سے محفوظ ہے جبکہ دوسری قبروں میں لاشیں خراب ہو چکی ہیں تو بہتر یہ ہو گا کہ ہر قبر میں تین چار جگہوں سے مٹی کے سیمپلر لے کر انہیں سربمہر کر دیا جائے اور ان پر لیبل لگائے جائیں کہ وہ کس قبر میں کس جگہ کے سیمپلز ہیں- پھر کسی معیاری لیبارٹری سے ان سمپلز کے ٹیسٹ کروائے جائیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کس سیمپل میں کون کون سے کیمیکلز موجود ہیں- جب تک ایسے ٹیسٹ کے نتائج میسر نہ ہوں تب تک ایسے کیسر کے بارے میں اعتماد سے کچھ بھی کہنا ممکن نہیں ہے- بغیر کسی ایسے ٹیسٹ کے، ہمیں اصولاً صرف یہ کہنا چاہیے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ مختلف قبروں میں لاشیں مختلف حالتوں میں کیوں موجود ہیں

لیکن اکثر اوقات ہوتا یہ ہے کہ ایسا کوئی کیس نظر آئے تو پہلے سے یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ جس شخص کی لاش محفوظ ہے وہ یقیناً کوئی نیک ہستی رہی ہو گی- اس کے بعد ایسی خبریں سینہ بہ سینہ پھیلتی ہیں اور ان میں نئی افواہیں شامل ہونے لگتی ہیں اور جلد ہی رائی کا پہاڑ بنا دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ مکمل طور پر غیر سائنسی ہے-“

Loading