Daily Roshni News

کالے برقعے والی اور افعان برقعے وآلی کی کہانی

کالے برقعے والی اور افعان برقعے وآلی کی کہانی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو ز انٹرنیشنل )ہاحجاب اور پردے کے حوالے سے ایک اہم نکتے کی جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ سیاہ اور چست برقعہ پردے سے زیادہ کشش کا باعث ہے، اس کے بجائے کوئی بڑی شال زیادہ مناسب رہتی ہے، جس سے جسم کو ڈھکا جاسکتا ہے۔

اس بات سے ایک مختصر سا واقعہ یاد آیا جو اسی حوالے سے ہے، جو قریبا دو سال قبل کالج سے واپس آتے ہوئے پیش آیا، ۔۔۔۔ ہوا یوں کہ میں چھٹی کے بعد گاڑی (ایبٹ آباد میں پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے استعمال ہونے والی سوزوکی ) میں بیٹھا تو کالج گیٹ سے کچھ آگے ایبٹ آباد کے معروف دینی مدرسے کے قریبی چوک پر گاڑی رکی، دو خواتین آئیں اور گاڑی میں جگہ دیکھنے لگیں۔۔۔ ان دنوں میں نیا نیا فرسٹ ائیر میں تھا، چہرے پہ مونچھوں کا بمشکل ہلکا ظہور ہوا تھا، اس لئے اکثر چھوٹا سمجھ لیا جاتا تھا، یعنی ایسا چھوٹا کہ جسے ڈرائیور حضرات دس روپے کیلئے کسی اٹھارہ بیس کی دو شیزہ کیساتھ بھی بٹھانے سے گریز نہ کرتے ہوں۔۔۔

خیر وہ خواتین گاڑی میں بیٹھنے لگیں جن میں سے ایک خاتون نے کالا برقع پہنا تھا، اور دوسری نے افغان برانڈ نیلا بڑا برقع اوڑھا ہوا تھا، گاڑی میں ایک جانب سواریوں سے مکمل تھی، دوسری جانب دو حضرات اور کنارے کی جانب میں بیٹھا تھا۔۔۔۔ خواتین نے اندر جھانک کر بیٹھنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے اس نیلے برقعے والی خاتون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “خالہ! آپ اُس بچے کیساتھ بیٹھ جائیں،۔۔۔” ۔۔۔ اور کالے برقعے والی کو “باجی” مخاطب کرتے ہوئے “خالہ” کے ساتھ بیٹھنے کا کہا۔۔۔۔۔

لیکن وہ کالے برقعے والی خاتون میرے قریب بیٹھ گئیں، میں نے درمیان میں بیگ رکھ لیا۔۔۔۔ اور ان کیساتھ افغانی برقعے والی خاتون بیٹھ گئیں۔۔۔ سوار افراد بھی ہلکی سی حیرت زدہ نگاہ سے کالے برقعے والی کو دیکھتے رہے۔۔۔۔ گاڑی تھوڑی آگے کو چلی ہی تھی کے کالے برقعے سے خاتون نے مجھے نام لیکر پکارا ۔۔۔۔ آواز جانی پہچانی سی لگی۔۔۔۔ پھر انہوں نے حال احوال پوچھ کر اپنا بتایا تو وہ ہمارے محلے کی ہی خاتون نکلیں ۔۔۔۔ ان کیساتھ جو افغانی برقعے میں “خالہ” تھیں وہ ان کالے برقعے والی “باجی” کی سترہ سالہ بیٹی اور میری سابقہ کلاس فیلو تھی ۔۔۔۔ جو میٹرک کے بعد مدرسے میں داخل ہوئی ۔۔۔۔۔

ڈرائیور کی آواز میرے ذہن میں گونج رہی تھی ۔۔۔ خالہ۔۔۔۔۔ باجی!!

آمدم بر سرِ مطلب کہ ڈرائیور نے کالے لباس والی قریباً چالیس سالہ خاتون کو کالا برقع زیب تن کرنے کی وجہ سے جوان سمجھ کر “باجی” اور سترہ سالہ لڑکی کو نیلے برقعے کی وجہ کوئی معمر خاتون سمجھ کر “خالہ” کہہ دیا۔۔۔۔۔۔

یعنی کتنی تفریق ہے رنگوں میں اور چست اور اور کھلے ڈھلے کے مابین ۔۔۔۔

افغان برانڈ برقع جو اکثر آسمانی رنگ کا ہوتا ہے، اگر خواتین وہ اوڑھتی ہیں تو باہر سے دیکھنے والا اندازہ ہی نہیں کرسکتا کہ ساٹھ سال کی بوڑھی ہے یا چودہ سالہ بچی ۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ ڈیزائن ہی کھلا ڈھلا اور مکمل باپردہ رکھنے کیلئے کیا گیا ہے۔۔۔۔ جبکہ ہمارے ہاں مروجہ سیاہ برقعہ جو پہننے کے بعد جسم زیادہ نمایاں ہوتا ہے، جس سے پردے سے زیادہ بے پردگی محسوس ہوتی ہے،

دوسری اہم بات یہ کہ خواتین کیلئے سیاہ رنگ کے لباس میں ویسے بھی کشش زیادہ ہوتی ہے، اور آج کل برقعے کے نام پر پہنے جانے والے ٹائیٹس نما جامے زیادہ زرق برق، شوخ کڑہائی پر مبنی ، اور بڑھکیلے ہوتے ہیں۔۔۔۔ جو شائد مرد ذات کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا باعث بنتے ہیں، ضروری نہیں کہ ہر پہننے والی اسی نیت سے پہنے کہ توجہ حاصل ہو، لیکن ایسا چست اور شوخ کپڑا جس سے جسمانی اعضا واضع ہوں تو وہ پردے کے نام کی بھی توہین ہے۔

کالج میں اکثر دیکھنے میں آیا کہ ایسے برقعوں کا استعمال زیادہ تر فیشن کیلئے کیا جاتا ہے، اور اکثر طالبات کلاس روم میں داخل ہوتے ہی وہ چپکو ربڑی برقعے پرسوں میں سنبھال کر دوپٹے کو پٹہ بنا کر گلے میں ٹانکتی ہیں، تو بھلا ایسے برقعے کے استعمال کو کس بنیاد پر پردے کا اہتمام کہا جاسکتا ہے؟ اور اس کی جگہ جو خواتین واقعی پردے کی خواہش رکھتی ہوں وہ افغانی برقعے کا استعمال کریں یا کسی موٹی اور بڑی شال سے بھی پردہ ممکن ہے۔

ایسی صورت کے دو فائدے ہیں، ایک تو آپ پردے میں رہیں گی، دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ آوارہ نظریں مایوس ہو کر واپس ہونگی کہ کوئی “باجی” نہیں بلکہ “خالہ” ہے، ساتھ ہی لوگوں کی جانب سے ایسی خواتین کو احترام بھی زیادہ دیا جاتا ہے جو اپنے لباس یا چال ڈھال کی وجہ سے بڑی عمر کی لگیں، بھلے ان کی عمر بیس سے بھی متجاوز نہ ہو۔

تو شائد سنجیدہ خواتین کو “بڑی عمر” کی سمجھ کر احترام دینے پر کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیئے ۔۔۔۔ اگر کسی کے بڑی عمر کی ہونے کا گمان رکھنے سے آپ ہوس زدہ نظروں سے بچ جاتی ہیں اور آپ کی تقدیس، حرمت اور عصمت کو احترام ملتا ہے تو یہ سودا زیادہ مہنگا نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ یہ نسخہ آزما کر دیکھ لیجئے نتائج آپ کے سامنے رہیں گے۔

(برقع کالا ہو یا نیلا نقش و نگار یا تنگ نھیں ہونا چاہئے، ڈھیلا ڈھالا ہو تاکہ اعضاء پوری طرح ڈھک جائے..)

Loading