Daily Roshni News

کامیابی کا فارمولا جو بندہ یا بندہ بود۔۔۔قسط نمبر1

کامیابی کا فارمولا جو بندہ یا بندہ بود

ہالینڈ (ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)کون ہے جو کامیابی نہیں چاہتا ؟ جو آگے بڑھنے کے خواب نہیں دیکھتا؟ کون ہے جو نہیں چاہتا کہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی اس کا مقدر بن جائے ؟ دنیا میں ہر شخص خواہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا جوان، خواندہ ہو یا ناخواندہ، امیر ہو یا غریب…. اپنی زندگی میں کامیاب ہو نا چاہتا ہے۔

انسانی فطرت میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی جستجو قدرتی طور پر موجود ہوتی ہے۔ اس جستجو نے آج مغرب میں ایک صنعت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ سیلف ہیلپ کے موضوع پر ہر سال بڑی تعداد میں کتابیں شایع اور ریکارڈ تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ لوگوں کو شاہراہ کامیابی پر گامزن کرانے کے لیے سینکڑوں موٹیویشنل اسپیکرز کامیابی کے رازوں سے پردہ اٹھانے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں۔ کامیابی کے موضوع پر پرو گرام اور سیمینارز کا سلسلہ بھی زوروں ہر ہے ، ان میں شرکت کے لیے کمپنیاں اور افراد بھاری فیس بہ خوشی ادا کرتے ہیں۔

اس دنیا کے معاشی، سماجی اور تعلیمی ترقی کی دوڑ میں ہر شخص کی کو شش ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے۔

کامیابی کے حصول کے لیے ہر ایک کے اپنے طریقے، اپنے اصول اور اہداف ہیں۔ لیکن محض چند لوگ ہی اپنی منزل پاتے ہیں۔ اکثر لوگ اپنے خواب کی تعبیر کے منتظر رہتے ہیں۔

کامیابی کیا ہے؟ یہ کیسے حاصل کی جاتی ہے؟ کامیابی حاصل کرنے کے اصول اور طریقے کیا ہیں ؟ آخر کامیابی کا وہ کون سافار مولا ہے، جنہیں اپنا کر کچھ لوگ اتنے کامیاب ہو جاتے ہیں کہ دنیا حیران ہو جاتی ہے۔

کامیابی کا فارمولا

در اصل کامیابی ایک ہی آفاقی فارمولا ہے ، اکثر لوگ اس سے واقف ہونے کے باوجود اس پر ٹھیک طرح عمل نہیں کرتے اور وہ فارمولا ہے

خونند یا بند بود

یہ فارسی کا مشہور محاورہ ہے، لفظ جو کا مطلب ہے کام، عمل، کوشش یا قدم بڑھانا جیسے مہم جو، جنگ جو، اور یاب کہتے ہیں پانے کو جیسے کامیاب، فتح یاب بازیاب۔ ندہ کا لاحقہ صفت کے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسے پرنده، تابندہ شرمندہ اور کور کے معنی ہیں

ہو جانا…. اس طرح جو کند و یا بندہ بود کے معنی ہیں، جو کوشش کرتا ہے وہ پالیتا ہے یعنی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

کامیابی کا یہ آفاقی فارمولا الہامی کتابوں کے ساتھ ہر دور کے فلسفیوں، داناؤں، مفکروں، صوفیوں اور سائنس دانوں نے اپنے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں ہر ایک جو کمائے گا وہی پائے گا اور جو کرے گا وہی بھرے گا۔ “ [ سورۂ بقر (2): آیت 286]

اور انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ اور یقینا اس کی کو شش جلد ہی اسے دکھائی جائے گی۔“ [ سورة مجم (53): آیت 40:39] یہ آیت مبارکہ اپنی تفسیر آپ ہے۔ اس میں واضح طور پر بنادیا گیا ہے کہ جو جتنی کوشش جد وجہد کرتا ہے اسے اتنا ہی ملتا ہے۔ قرآن پاک سے ملنے والی اس روشنی کو سلسلہ عظیمیہ کے امام قلندر بابا اولیا نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: “وسائل کے لئے کوشش اور جد وجہد کرو لیکن نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو۔ کامیابی کا آفاقی فارمولا جو کندہ یابندہ بود یعنی کسی مقصد کے حصول میں جو کوشش کرتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔ یہ مصرعہ مولانارومی کی مثنوی (جلد سوم) کی آخری نظم کا حصہ ہے۔ آپ جلال الدین رومی

فرماتے ہیں ….

سایه حق بر سر بنده بود

 عاقبت جونده یابنده بود

 گفت پیغامبر که چون کوبی دری

عاقبت زان در برون آید سری

چون شینی پر سر کوی کسی عاقبت بینی تو ہم روی کسی چون ز چایی می کنی ہر روز خاک عاقبت اندر ری در آب پاک خدائے بر حق کی شفقتوں کا سایہ اس بندے کے سر پر رہتا ہے، جو کوشش کرتا ہے وہ آخر کار پالیتا ہے۔ پیغمبر نے فرمایا ہے کہ جب کسی دروازے کو مسلسل کھنکھنا یا جائے، تو آخر کار وہ دروازہ کھل جاتا ہے اور کوئی باہر آتا ہے۔ جب تم کسی کے کوچے میں بیٹھتے ہو، آخر کار تم اس کا دیدار بھی کرتے ہو۔ اگر تم کسی کنویں سے روزانہ مٹی نکالتے رہو، تو آخر کار تم صاف پانی تک پائی جاؤ گے۔“رومی کے مرید ہندی شاعر مشرق علامہ اقبال کی ایک مشہور نظم کے اشعار ہیں۔خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے اس آپ جو سے کیسے بھر بیکراں پیدا و ہی زمانے کی گردش پر غالب آتا ہے جو ہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ خود شناسی اور معرفت کے دریا میں غوطہ لگانے والے لوگ اپنے ارادے اور حوصلے سے ایک چھوٹی سی ندی کو ایک ایسا سمندر بنادیتے ہیں جس کا کوئی کنارہ نہ ہو۔ زمانہ کی گردش پر وہی شخص غلبہ پا سکتا ہے جو زندگی کے ہر لمحہ کو اپنی ہمت اور کوشش سے حرکت زمانہ کو بدلنےعلامہ اقبالمیں لگائے رکھے اور عزم و حوصلہ کو نہ چھوڑے۔بائیل میں بھی تحریر ہے کہجو کچھ بھی انسان ہوتا ہے اس کی فصل وہ کائے گا۔ جو اپنی جسمانی زندگی کے کھیت میں بیج بوئے وہ اسی زندگی کی فصل کاٹے گا۔ اور جو روح کے کھیت میں بیچ ہوئے وہ ابدی زندگی کی فصل کاٹے گا۔ چنانچہ ایک کام کرنے میں بے دل نہ ہو، کیونکہ (جو کچھ بویا ہے) مقررہ وقت پر ضرور اس فصل کی کٹائی ہو گی۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہتھیار نہ ڈالو، کوشش نہ چھوڑو۔[گلتیوں، باب 6 : آیت 907]صبح کو اپنا بج ہو اور شام کو بھی اپنا ہاتھ ڈھیلا نہ ہونے دے کیونکہ تو نہیں جانتا کہ ان میں سے کون سابینچ بار ور ہو گا۔ یہ یادہ یادونوں کے دونوں برابر برومند ہوں گے۔ “ [ واعظ سلیمان، باب 11 : آیت 6] ہندوؤں کی مقدس کتاب بھگوت گیتا میں ہے کہ کرم (عمل) کر پھل (نتیجہ ) کی چتا (فکر) مت کر، کیونکہ عمل کا اختیار تیرے ہاتھ میں ہے لیکن عمل کے نتائج اور اجر پر تمہارا کوئی اختیار نہیں۔ اس لیے اجر کے پیچھے مت بھا گو اور نہ ہی بے عملی کا ساتھ دو – [ بھگوت گیتا، باب 2: شلوک 47]گو تم بدھ کا قول ہے ”انسان دوسروں کے اعمال یا کوتاہیوں کی فکر نہ کرے، بلکہ وہ دیکھے کہ اس نے خود کیا کیا اور کیا چھوڑا۔ “ [ دھم پر 4: شلوک 50] ” جیسے ایک خوبصورت پھول کا رنگ ہو لیکن خوشبو نہ ہو، اسی طرح وہ باتیں جو عمل کے بغیر ہوں بے کار ہیں۔“ [دهم پر، باب 6: شلوک 170] چینی مفکر لاوزی کہتے ہیں، اپنا کام کرو، پھر نتیجہ کی فکر کیے بغیر ) پیچھے ہٹ جاؤ۔ یہی سکون کامیابی) کاراستہ ہے۔“[ تاؤ نے چنگ، باب 9]ہمارے ارد گرد ایسی بے شمارشخصیات کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے کاپنی جد وجہد میں نامساعد حالات کی پروانہ کی، یہاں تک کہ ان کے لیے ترقی کے رائتے کھلتے چلے گئے۔ عظیم شخصیات اپنے اعلیٰ مقاصد اس لیے حاصل کر لیتی ہیں کہ وہ مخالفانہ حالات اور رکاوٹوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں۔ اس مضمون کے قارئین خصوصاً نوجوان قارئین کے لیے ہماری طرف سے دعوت فکر اور دعوت عمل ہے کہ اگر آپ کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنے مقصد کے حصول کے لیے ڈٹجائیے۔ہمیں اپنے لاشعور کو یہ اہم بات باور کروا دینا چاہیے کہ اگر کوئی دوسرا شخص اپنے مسائل پر قابو پا کر کامیابی حاصل کر سکتا ہے تو ہم نبھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ دوسروں کی کامیابی کو اپنے سامنے رکھ کر ایک پر عزم تصویر بنالیں، تو عمل کی راہ آسان ہو جائے گی کیونکہ ہمارا لا شعور ذہن پر بنی ہوئی تصویر سے بہتجلد متاثر ہوتا ہے۔عملی زندگی کے ابتدائی مراحل میں قدم رکھنے والے نوجوانوں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ حقیقی کامیابی پانے کے لیے کئی مرحلوں سے گزرنا ہوگا۔ ہمیشہ اپنی ذات پر اعتماد رکھیں اور کامیاب افراد کو مد نظر رکھتے ہوئے چلیں۔کامیابی کے اس آفاقی فارمولے کو مغرب کے محققین، اسکالرز ، لائک کوچ اور موٹیویشنل اسپیکرز بھی اپنا ر ہے ہیں۔ مغربی مفکرین کہتے ہیں کہ قدرت کے ایک قانون جسے Law of Attraction سادہ زبان میں مطلب یہ بنتا ہے کہ جس چیز کو حاصل کرنے آپ چل نکلیں آپ اسے پالیتے ہیں۔ یعنی جو کند و یا بند و بود ..

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2025

Loading