کامیابی کا فارمولا جو بندہ یا بندہ بود
قسط نمبر2
ہالینڈ (ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)کشش کا قانون کہتا ہے کہ مثبت خیالات اور جذبات، مثبت تجربات کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، جبکہ منفی سوچیں منفی نتائج پیدا کرتی ہیں۔ یہ نظریہ 19 ویں صدی کے آخر میں مغرب میں مقبول ہوا،فلسفی رالف والڈ وایمرسن نے کہا: ”آپ جیسا سوچیں گے ، ویسی ہی زندگی آپ کے سامنے آتی ہے۔ کتاب تھنگ گرو اینڈرچ کے مصنف نپولین ہل Napoleon Hill کہتے ہیں کہ
جو کچھ دماغ سوچ سکتا ہے اور اس پر یقین کر سکتا ہے، وہ حاصل کر سکتا ہے۔“
کامیابی کے موضوع پر بیسٹ سیلز کتاب ، دی سیکریٹ کی مصنفہ رہوندا بائرن Rhonda Byme نے قانون کشش کو اپنی کتاب میں تفصیلی طور پر بیان کیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ انسان اپنے خیالات کی طاقت سے زندگی میں ہر چیز کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے یا اسے حاصل کر سکتا ہے۔ منفی خیالات ہماری زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں جبکہ مثبت خیالات معجزانہ تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ جولوگ کشش کے قانون کو مثبت طور پر استعمال کرتے ہیں وہ کامیاب کہلاتے ہیں۔
پاؤلو کویلو Paulo Coelho کے ناول الکیمسٹ Alchemist کا مرکزی خیال اسی کشش کے قانون پر مبنی ہے۔ یہ کتاب قاری کو اپنے خوابوں کے تعاقب میں نکلنے کی ترغیب دیتی ہے۔ پاؤلو کہتے ہیں کہ انسان جب کوئی مستقیم ارادہ کرتا ہے تو کائنات کی طاقتیں اس ارادے کی تکمیل میں معاونت فراہم کرتی ہیں- قانون کشش کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اب تو سائنس بھی کامیابی کے اس
فارمولے کو ماننے لگی ہے۔ نیکولا ٹیسلا مشہور سائنس دان نیکولا میلا کا کہنا ہے کہ ”انسان کی سوچ ایک انتہائی طاقت اور توانائی ہے۔“ یہ توانائی کائناتی قوانین کے تحت کام کرتی ہے۔ اس کے اثرات ہماری زندگیوں پر پڑتے ہیں۔ کوانٹم فزکس میں یہ نظر یہ کہتا ہے کہ جب ہم کسی چیز پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، تو ہم اسے حقیقی رنگ میں لانے کی توانائی پیدا کرتے ہیں۔ کوانٹم فنر کس نے کشش کے قانون کو مزید واضح کیا ہے۔
ڈاکٹر وین ڈی گراڈ نے اپنی کتاب The Quantum Field میں یہ بیان کیا کہ کائنات کی بنیادی حقیقت ایک توانائی کا میدان ہے۔ ہماری سوچیں اور احساسات بھی ایک مخصوص توانائی پیدا کرتے ہیں۔ یہ توانائی ہمیں وہی نتائج فراہم کرتی ہے جس کی ہم توقع کرتے ہیں۔
قانون کشش Law of Attraction کو سائنسی بنیادوں کو جانچنے کے لیے مختلف سائنسی تحقیقات کی گئی ہیں۔ لائزر مائیکل جے نے اپنی کتاب
The Science of Attracting More میں اس نظریے پر تحقیق کی انہوں نے بتایا کہ انسانی ذہن میں مخیالات کی طاقت ہمارے جسم کی کیمیاء اور توانائی کے بہاؤ کو متاثر کر سکتی ہے۔ سٹی کو مغربی مفکرین کے وضع کردہ قانون اکثر لوگ سمجھنے میں غلطی بھی کرتے ہیں۔
ماورائی علوم کی کتابوں کے مصنف ہال زمینون کا کہنا ہے کہ ”اگرچہ مثبت سوچ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن عملی اقدامات کے بغیر ، کشش کا قانون محمد ود اور نامکمل ہے۔“
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں
يعوص البحر من طلب اللابي
ومن طلب العلا سهر الليالي
من رام العُلا من غير كد
أضاع العمر في طلب المحال
ترجمہ: “جو شخص موتی چاہتا ہے وہ سمندر میں غوطہ لگاتا ہے اور جو شخص بلندی چاہتا ہے وہ راتوں کو جاگتا ہے اور جو شخص محنت کے بغیر بلند مقام چاہے اس نے نا ممکن کی طلب میں اپنی عمر ضائع کر دی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ان اقوال سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو شخص قیمتی موتی کا طلبگار ہو اسے اپنا مطلوب پانے کے لئے سمندر کی گہرائیوں میں اترنا پڑے گا۔ اسی طرح جو شخص چاہتا ہو کہ اسے زندگی میں عزت اور بڑائی کا درجہ ملے تو اسے راتوں کو جاگنا پڑے گا۔ یعنی صرف معمول کی محنت اس کے لئے کافی نہیں ہو گی بلکہ اسے معمول سے بڑھ کر محنت کرنا ہو گی۔ زیادہ محنت ہی کے ذریعہ اس دنیا میں کوئی شخص زیادہ بڑا درجہ پا سکتا ہے جو شخص محنت و مشقت کے بغیر بلند مقام حاصل کرنا چاہے وہ اپنا وقت اور اپنی طاقت ضائع کر رہا ہے۔
ہم مثبت سوچ، کوشش اور نتیجہ کا باہمی تعلق تلاش کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ دنیا کا کوئی بھی کام ان ذرائع کے بغیر ممکن نہیں۔ آدمی کسی کام کے لیے مثبت طرز میں جو کوشش کرتا ہے اس میں قدرت کی مدد کا شیئر زیادہ ہوتا ہے۔ انسانی کوشش اور قدرت کی مدد دونوں ذرائع ہر عمل کی بنیاد ہیں۔ انسان اگر کوشش نہ کرے تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔ مثلا کسان نہ ہل چلائے ، نہ بیج ڈالے یا کھیت کو سیراب نہ کرے تو فصل پیدا نہیں ہو سکتی۔ رومی کشمیر میں میاں محمد بخش سیف الملوک میں فرماتے ہیں۔ مالی دا کم پانی پانا ، بھر بھر مشکاں پاوے مالک دا کم پھل پھل لا نا، لادے یا نہ لاوے اپنے طور پر زیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ قدرت کسی کی کوشش ضائع نہیں کرتی انسان کو اس کی کوشش کا پھل ضرور ملتا ہےالبتہ وہ پھل ہماری صلاحیتوں اور کوششوں کے مطابق ہوتا ہے۔
سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت عظیم بر محیا قلندر بابا اولیاء ؒاپنی تصنیف “لوح و قلم میں تحریر کرتے ہیں:
انسان بالطبع مصور ، کاتب ، درزی، لوہار، بڑھتی ، فلسفی، طبیب وغیرہ وغیرہ سب کچھ ہوتا ہے مگر اسے کسی خاص فن میں ایک خاص قسم کی مشق کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بعد اس کے مختلف نام رکھ لئے جاتے ہیں اور ہم اس طرح کہتے ہیں کہ فلاں شخص مصور ہو گیا ، فلاں شخص فلسفی ہو گیا۔ فی الواقع وہ تمام صلاحیتیں اور نقوش اس کے ذہن میں موجود تھے۔ صرف اس نے ان کو بیدار کیا۔ استاد نے جتنا کام کیا وہ صرف صلاحیت کے بیدار کرنے میں ایک امداد ہے“
قلندر بابا اولیاء کا ارشاد ہے…. ” ہر شخص کو چاہیے کہ کاروبار حیات میں مذہبی قدروں، اخلاقی اور معاشرتی قوانین کا احترام کرتے ہوئے پوری جدوجہد اور کوشش کرے لیکن نتیجہ پر نظر نہ رکھے۔ نتیجہ اللہ کے اوپر چھوڑ دے۔“
اسی بات کو روحانی اسکالر خواب مرا از بیتی حضرت خواجت من الذین قیمی صاحب فرماتے ہیں کہ زمین پر اللہ نے جتنی بھی اشیاء تخلیق کی ہیں ان کے اندر بے شمار صلاحیتیں چھپی ہیں۔ کوشش سے جب ان اشیاء کے اندر صلاحیتوں کو متحرک کر دیا جاتا ہے یا ان اشیاء میں محفوظ مخفی صلاحیتوں کا کھوج لگایا جاتا ہے تو ایجاد کے بے شمار راستے کھل جاتے ہیں۔ انفرادی حدود میں کوئی بندہ جب کوشش اور جد و جہد کرتا ہے تو اس کے او پر انفرادی فوائد ظاہر ہوتے ہیں۔ قومی اعتبار سے ایک دو چار دس بندے جب کو شش کرتے ہیں تو اس جد و جہد اور کوشش سے پوری قوم کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اللہ کہتا ہے میں ان قوموں کی تقدیر نہیں بدلتا جو قو میں خود اپنی حالت بدلنا نہیں چاہتیں۔ لوح محفوظ پر یہ بات بھی نقش ہے کہ جو قومیں خود اپنی حالت بدلنے کیلئے کوشش کرتی ہیں، ان کو ایسے وسائل مل جاتے ہیں جن سے وہ معزز اور محترم بن جاتی ہیں اور جو قومیں اپنی تبدیلی نہیں چاہتیں، وہ محروم اور ذلیل زندگی گزارتی ہیں۔ کتاب قلند پر شعور کی۔ قلند با اولیاء اور حضرت خوابت من الدین سیمی کے برادر است فیض یافته دکتر وتار لیست شیمی تحریر کرتے ہیں کہ : ” عملی زندگی میں کامیابیاں حاصل کرنے کے لیےوکر نیکی کے خیال کو سمجھنا اور خیال کی قوت کو بڑھانا ضروری ہے۔ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے ذہن میں آنے والے مخیالات Ideas کو کتنی اہمیت دیتے ہیں ….؟
کیا ہم ان پر عمل درآمد کے لیے کوئی منصوبہ Action Plan وضع کرتے ہیں….؟ اگر کرتے ہیں تو اسے وقت پر پورا کرنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں ….؟
مثلا، کسی کو خیال آتا ہے کہ اسے اپنی تعلیمی قابلیت میں اضافہ کرنا چاہیے ۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسے ایک لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا۔ اگر وہ کسی پر وفیشن سے وابستہ ہے تو اسے اپنی پروفیشنل قابلیت میں اضافے کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ یہ بات اہم ہے کہ کسی کام کی انجام دہی کے لیے یا کسی کامیابی کے لیے اس وقت سے کام کا آغاز کر دینا چاہیے جس وقت یہ خیال کسی کے ذہن میں آئے۔ اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری ہے کہ کام کے معاملے میں آج اور ابھی“ کے اصول کو اپنا لیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ جو کندہ یا بندہ بود یعنی جو کوشش کرتا ہے ، وہ پاتا ہے“۔ واضح رہے کہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے مواقع ہر شخص کو ملتے ہیں۔ یہ بات سمجھ لیجیے کہ قدرت کی نعمتیں سب کے لیے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ فرد کو اس کی فیلڈ میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لیے خیالات Ideas اور وسائل Resources دونوں موجود ہوتے ہیں۔ کامیابی صرف اسے ملتی ہے جو ان خیالات کو عملی شکل دیتے ہوئے وسائل سے بھر پور فائد واٹھاناسیکھ لے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2025