Daily Roshni News

کامیاب انسان اور پائیدار رشتے کے لیے تربیت ضروری ہے یا ماحول؟

کامیاب انسان اور پائیدار رشتے کے لیے تربیت ضروری ہے یا ماحول؟

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک حکایت، ایک حقیقت۔وزیر کی جان پہ بنی ہوئی تھی، درویش بات ہی نہیں سن رہا تھا۔وہ درویش جو دنیا کی رونقوں سے بے نیاز، تنہا جھونپڑی میں رہنے والا۔ اپنے ہی سکوت میں گم۔آخر وزیر کی لمبی منت سماجت کام آئی اور، تب جا کر درویش نے آہستگی سے سر اٹھایا۔

“ہاں، بول… کیا کہنا ہے؟”

وزیر نے ہاتھ جوڑے اور لرزتی آواز میں کہانی سنانا شروع کی۔

ایک مہینہ پہلے بادشاہ سلامت نے اچانک دربار میں ایک سوال پوچھا:

کامیاب کردار کے لیے تربیت زیادہ کارآمد ہے یا ماحول؟

میرے ایک ہم منصب وزیر نے جھٹ کہا:

عالی جاہ! تربیت!

جبکہ میں نے بنا سمجھے جلدی میں کہا:

عالیجاہ! ماحول تربیت پر فوقیت رکھتا ہے۔

بادشاہ سلامت نے ہمیں رعونت سے دیکھا اور حکم صادر کیا:

تم دونوں کو اپنا اپنا جواب عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا۔ جو ناکام ہوا، اس کا سر قلم!

ہمیں ایک ماہ کی مہلت دے دی گئی۔

ہم دونوں اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے جتن کرنے لگے۔

میں سوچ سوچ کے پاگل ہونے کے قریب تھا، مگر کوئی راہ نہیں مل رہی تھی۔

تب، چوبیس دن بعد، میرے ہم منصب نے دربار میں اپنی بات کو عملی طور پر ثابت کرنے کی اجازت مانگی۔

اجازت ملنے پر اس نے دربار میں کھڑے ہو کر تالی بجائی۔

تالی کی آواز پر دربار کے ایک دروازے سے دس بلیاں نمودار ہوئیں۔

ہر ایک کے منہ میں ایک پلیٹ تھی، جن میں جلتی ہوئی موم بتیاں رکھی تھیں۔

وہ بلیاں، نہایت ترتیب سے خراماں خراماں چلتی ہوئی دربار کے دوسرے دروازے سے نکل گئیں۔

نہ پلیٹیں گریں، نہ موم بتیاں بجھیں۔

دربار تعریف و توصیف کے نعروں سے گونج اٹھا۔

میرے ہم منصب نے فخر سے بادشاہ کی طرف دیکھا اور کہا:

’حضور! یہ سب تربیت ہی کا کمال ہے، جس نے جانوروں کو اس درجہ نظم و ضبط کا عادی بنا دیا۔‘

بادشاہ نے میری طرف دیکھا۔

مجھے اپنی موت سامنے نظر آ رہی تھی۔

میرے پاس ابھی چھ دن باقی تھے۔

میں دربار سے نکل آیا۔

تبھی کسی شخص نے آپ کا نام لیا کہ میرا مسئلہ صرف آپ حل کر سکتے ہیں۔

دو دن کی مسافت کے بعد میں یہاں آپ کے پاس پہنچا ہوں۔

مہلت کے صرف چار دن باقی ہیں، اور میرا فیصلہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔”

فقیر نے سر جھکایا اور آہستہ سے بولا:

“واپس جاؤ… اور بادشاہ سے کہو کہ 30 ویں دن تم ماحول کی افادیت ثابت کرو گے۔”

وزیر نے لاچارگی سے کہا:

“مگر میں تو یہ کبھی نہ کر سکوں گا…”

فقیر نے سر جھکائے ہوئے ہی کہا:

“آخری دن، میں خود دربار میں آؤں گا۔”

وزیر، تذبذب، مایوسی اور پریشانی کی حالت میں واپس دربار چلا آیا۔

مقررہ مدت کا آخری دن آ پہنچا۔

دربار کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

وزیر کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

سب کی نظریں بار بار دروازے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔

اچانک، ایک مفلوک الحال سا شخص، مختصر سامان کا تھیلا اٹھائے دربار میں داخل ہوا۔

بادشاہ کی طرف دیکھا اور بولا

“وقت کم ہے، مجھے واپس جانا ہے… اس وزیر سے کہو کہ تربیت کی افادیت کا مظاہرہ دوبارہ کرے۔”

تھوڑی دیر بعد دوسرے وزیر نے تالی بجائی، اور وہی منظر دوبارہ پلٹا۔۔۔۔

وہی دس بلیاں، منہ میں پلیٹیں لیے، موم بتیوں کے ساتھ دربار میں داخل ہوئیں،

خاموشی سے، ترتیب سے، روانی سے۔

دربار پھر سانس روکے دیکھ رہا تھا۔

وزیر نے امید بھری نگاہوں سے فقیر کی طرف دیکھا۔

تب فقیر آہستگی سے بلیوں کے درمیان گیا، اور اپنا تھیلا الٹ دیا۔

تھیلے میں سے موٹے تازے چوہے نکلے، اور دربار میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔

بلیوں نے جونہی چوہے دیکھے، منہ کھول دیے، پلیٹیں گریں، موم بتیاں بجھیں،

ہر طرف بھگدڑ مچ گئی۔

بلیاں چوہوں کے پیچھے دوڑنے لگیں، لوگوں کی جھولیوں میں گھسنے لگیں،

لوگ کرسیوں پر اچھلنے لگے، دربار کا سارا نظام درہم برہم ہو گیا۔

درویش نے بادشاہ کی طرف دیکھا اور آہستہ سے کہا:

“آپ کسی جنس کی کیسی ہی تربیت کیوں نہ کر لیں، اگر اس کے ساتھ اچھا ماحول فراہم نہ کیا جائے تو تربیت کہیں نہ کہیں اپنا اثر کھو دیتی ہے۔

کامیاب کردار کے لیے تربیت کے ساتھ ساتھ بہتر ماحول بے حد ضروری ہے۔ آپ چاہے کیسی ہی تربیت دے لیں، اگر ماحول کمزور ہو تو تربیت دم توڑ دیتی ہے۔ کامیاب کردار کے لیے تربیت اور ماحول دونوں لازم ہیں۔”

اور یہ کہہ کر درویش، بادشاہ کے کسی سوال کا انتظار کیے بغیر، دربار سے نکل گیا۔

ہماری زندگیوں میں بھی اکثر یہی ہوتا ہے۔

ہم کبھی تربیت پر ساری توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اپنے اردگر کے ماحول کو نظر انداز کرجاتے ہیں اور کبھی صرف بہترین ماحول کے چکروں میں تربیت پر دھیان ہی نہیں دیتے۔ جبکہ تربیت ایک بیج ہے، مگر ماحول وہ زمین ہے جس میں وہ بیج پنپتا ہے یا جل جاتا ہے۔

اپنی اولاد کے لیے ہم استاد، شیخ، سکول یا مدرسے سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بچوں کو فرشتہ بنا دے۔

مگر بھول جاتے ہیں کہ تربیت والے چراغ کو جلانا استاد کی محنت ہے،

مگر اسے بجھنے نہ دینا، یہ ہمارا ماحول طے کرتا ہے۔

آجکل بچے جب گھر آتے ہیں تو ماحول کیا ہوتا ہے؟

جھوٹ کی بنیادوں پر کھڑا میڈیا، شتر بے مہار سوشل میڈیا، گھروں میں موجود بدتمیزی، معاشرے میں بے حیائی، جھوٹ، بدگمانی، تعصب، طعنہ بازی، اور تضاد بھرا طرزِ زندگی۔ اگر گھروں میں جھوٹ عام ہو، زبان پر غیبت، ماں باپ میں جھگڑے، ماں باپ کی نماز، قرآن، روزہ، حج، عمرہ، زکوۃ سے دوری اور سودی کاروبار، حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر ذریعہ آمدن، باپ کی سگریٹ نوشی، بڑوں کی مخلوط پارٹیاں ہوں تو صرف اسکول کا استاد یا دینی تربیت کار کیا کرے گا؟

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم بچوں سے تہذیب، شائستگی، علم اور دین داری کی امید رکھتے ہیں

جبکہ ہمارا ماحول چیخ چیخ کر ضدی پن، بے حیائی، جھوٹ، تعصب، اور غفلت اور بے راہ روی سکھا رہا ہوتا ہے؟

ہم تربیت کی بات تو کرتے ہیں، مگر ماحول کی طرف دیکھنا نہیں چاہتے۔ اگر چوہے دربار میں موجود ہوں تو بلی کبھی نظم و ضبط نہیں سیکھ سکتی۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اولاد نیک ہو، تو صرف سکول، استاد، مدرسہ یا مسجد پر نہ چھوڑیں، بلکہ گھر کے ماحول کو پاکیزہ بنائیں۔ ورنہ اردگر موجود چوہے ایک دن ساری تربیت نگل جائیں گے۔

تربیت اور ماحول کا یہ سنگم ہی ازدواجی رشتہ برقرار رہنے یا ٹوٹنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں اکثر والدین لڑکوں کی شادی کو اسکی بے راہ روی، سستی، کاہلی، اور جاہلیت کا حل سمجھتے ہیں انکے منطق میں بیوی بچوں کی ذمہ داریاں نہ صرف ان مسائل کا حل ہیں بلکہ وہ ایسے انسان کی شخصیت کو بدل دیں گے، مگر کچھ نہیں بدلتا اور یہ سب خصلتیں اور شخصی بیماریاں دلوں، رشتوں اور بعض اوقات ان سے جڑے انسانوں تک کو کھا جاتی ہیں۔

لڑکا اور اسکے گھر والے اکثر یہ کہتے ہوئے ملیں گے۔۔۔

“اس نے بچپن میں تربیت نہیں لی…”

“اس کی ماں نے تو کچھ سکھایا ہی نہیں…”

“اسے تمیز ہی نہیں، شوہر سے کیسے بات کرتے ہیں!”

“اسے بیوی کی عزت کا شعور ہی نہیں…”

مگر کیا کبھی کسی نے خود سے یہ سوال کیا کہ؟

ہم خود کیسا ماحول دے رہے ہیں؟

کیا ہم نے اس رشتے کو پنپنے کا ماحول دیا؟

کیا ہماری زبان، ہمارا لہجہ، ہمارا رویہ، ہمارے الفاظ تربیت کو پروان چڑھنے دیتے ہیں؟

درحقیقت ہم اپنی پائی گئی تربیت اور ماحول کے زیر اثر۔۔۔

اپنی بیوی کو بدگمانی، طعنوں، اور نفرتوں کے چوہوں میں جھونک رکھا ہوتا ہے

یا

بیوی نے اپنے شوہر کو بدزنی، غیبت، اور شکایات کے گندے ماحول میں الجھا دیا ہوتا ہے

یاد رکھیں! اگر تربیت شدہ بلی بھی چوہا دیکھ کر قابو کھو بیٹھتی ہے، تو محبت کا رشتہ تلخی کے ماحول میں کہاں ٹھہرے گا؟

طلاق، جھگڑے، علیحدگی اکثر صرف اس وجہ سے نہیں ہوتے کہ انسان بدتمیز ہوتا ہے، بلکہ اس لیے ہوتے ہیں کہ تربیت کا اثر ماحول کی زہریلی فضا میں گھٹنے لگتا ہے۔

لہٰذا!

صرف “اچھی تربیت” پر بھروسہ اور امید نہ رکھیں

اپنے رویے، لہجے، گھر کے الفاظ، زبان، اور انداز میں ایسا ماحول بنائیں جو تربیت کو سانس لینے دے

ورنہ! چوہے آئیں گے، اور سب کچھ بکھر جائے گا…

تربیت ایک بیج ہے، ماحول زمین ہے

اگر زمین بنجر ہو،

یا زہریلی ہو،

یا مسلسل اس پر نفرت، طعنہ، بدگمانی اور بدزبانی کی بارش ہو، تو بیج پھل نہیں دیتا، خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو۔

یہی حال شوہر اور بیوی کے رشتے کا ہے۔

بہت سے جوڑے ایسے ہوتے ہیں جو شادی کے شروع میں بڑے خوش نظر آتے ہیں۔

مگر پھر آہستہ آہستہ

بات بات پر جھگڑے

الزام تراشی

ساس بہو کی دخل اندازی

فریقین کے خاندان کی منفی باتیں

سوشل میڈیا پر نامکمل تقابل

اور سب سے بڑھ کر خاموش جنگ

شروع ہو جاتی ہے۔

ان میں سے اکثر افراد نے بچپن میں اعلی ترین تعلیمی اداروں سے تربیت لی ہوتی ہے۔۔۔

مگر انہیں ماحول نہیں ملا ہوتا۔۔۔

نہ صبر کا،

نہ اعتماد کا،

نہ عزت کا،

نہ درگزر کا۔

بہترین تربیت شوہر کو سکھاتی ہے کہ،

بیوی کو عزت دو۔

نرمی سے بات کرو۔

اس کے جذبات کو سمجھو۔

غصہ پی جاؤ، جیسے نبی ﷺ پیتے تھے۔

عورت کو قید نہیں، امانت سمجھو۔

اور یہی بہترین تربیت بیوی سکھاتی ہے کہ،

شوہر کا ادب کرو۔

خدمت کرو۔

شکر گزار بنو۔

شوہر کی تھکن کو محسوس کرو۔

نرمی، عاجزی، اور دعا سے گھر جیتو۔

مگر اگر بیوی ہر بات پر شک کرے، طعنہ دے، مذاق اڑائے۔۔۔

اور اگر شوہر بدزبانی کرے، آواز بلند کرے، ساس نند کے ہاتھوں بیوی کی عزت نفس پامال ہو۔۔۔

تو کیا تربیت باقی رہتی ہے؟ اور کیا یہ ماحول تربیت کو سانس لینے دے گا؟

ہرگز نہیں ۔۔۔

تو ایسی صورت حال میں پھر کیا کریں؟

اگر تربیت دونوں نے حاصل کی ہو،

مگر ماحول زہر بن جائے،

تو یہ رشتہ رفتہ رفتہ قبروں سے پہلے قبرستان بن جاتا ہے۔

ایسے میں کچھ لوگ یہی نصیحت کرتے نظر آتے ہیں کہ۔۔۔۔۔

“نباہ کی کوشش کرو”

لیکن اصل بات یعنی نباہ کی فضا بنانے اور ماحول بہترین کرنے کی کوشش بہت کم لوگ کرتے ہیں

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

“تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ بہترین ہو، اور میں تم سب سے بہتر ہوں اپنے اہل و عیال کے لیے۔” (ترمذی)

ایک بار نبی ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا:

“میں تم سے ناراض ہو جاؤں تو بھی محبت کم نہیں ہوتی…”

یہی وہ محبت بھرا ماحول ہوتا ہے جو تربیت کو چراغوں کی طرح روشن رکھتا ہے۔

آخری بات: گھر کو تربیت کا قبرستان نہ بنائیں

رشتے نازک ہوتے ہیں، اور تربیت اس نازکی کی ڈھال ہے۔ مگر اگر ہر روز زہر بھری ہوا چلے تو وہ ڈھال بھی ٹوٹ جاتی ہے

اس لیے، صرف دوسروں کی تربیت کو قصور نہ ٹھہرائیں۔۔۔۔

اپنے رویے، اپنے لہجے، اپنے ماحول کو بدلیں۔

مرد محبت دے گا تو بیوی فرمانبردار بنے گی

عورت عزت دے گی تو مرد سجدہ شکر کرے گا

ازدواجی رشتے تربیت سے بنتے ہیں، لیکن ماحول سے بچتے ہیں۔ گھر کو ایسا ماحول دیں، کہ تربیت اپنا رنگ دکھا سکے۔

خاص کر شوہر اور بیوی، ایک دوسرے کے لیے وہ فضا بنائیں جہاں محبت، عزت، صبر اور سکون پنپ سکے۔

Healing of Soul (Al Quran)

Loading